عام طور پر آتش فشاں کو تباہی کی علامت خیال کیا جاتا ہے۔ معلوم تاریخ اور ماضی قریب کے واقعات اور حالیہ دور کے حادثات اس خیال کو دلیل بھی فراہم کرتے ہیں۔ یقینی طور پر یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ جس سے اختلاف کیا جا سکے لیکن کیا واقعی کلّی طور پر ایسا ہی ہے؟
ممکن ہے ماہرینِ ارضیات کی یہ بات جان کر آپ اس معاملے پر نئے سرے سے سوچنا شروع کریں، جن کا کہنا ہے کہ اپنی تباہ کن طاقت کے باوجود آتش فشاں زندگی کی نوید بھی ہو سکتے ہیں۔ آتش فشاں کی راکھ میگنیشیم اور پوٹاشیم جیسے عناصر سے بھرپور ہوتی ہے، جو قدرتی کھاد کے طور پر کام کرتی ہے
جزیرہ ہوائی میں واقع دنیا کے سب سے بڑے فعال آتش فشاں مانا لوا نے اڑتیس سالوں بعد حال ہی میں ایک مرتبہ پھر لاوا اگلنا شروع کر دیا۔ 4,169 میٹر بلند پہاڑ پر پڑنے والی دراڑوں سے لاوا آہستہ آہستہ بہہ رہا ہے لیکن ابھی تک اس بہاؤ سے کسی کو خطرہ نہیں ہے۔ مانا لو سے پھوٹنے والا لاوا ہمسایہ آتش فشاں کیلاویہ سے نکلنے والے لاوے میں شامل ہو رہا ہے۔ کیلاویہ سے لاوے کا بہاؤ ایک سال سے زیادہ عرصے سے جاری ہے جبکہ مانا لوا آخری بار 1984 میں پھٹا تھا
جرمن ریسرچ سینٹر فار جیو سائنسز کے ماہر ارضیات تھامس والٹر کہتے ہیں ”ہم کئی سالوں سے اس لاوے کے پھوٹنے کا انتظار کر رہے تھے۔ 1950ع کی دہائی تک یہ زمین پر سب سے زیادہ فعال آتش فشاں تھا۔ لیکن اس کے بعد سے اس کے اندرونی حصے میں کچھ تبدیلی آئی ہے۔‘‘
اپنی تمام تر تباہ کاریوں کے باوجود آتش فشاں زندگی کی نوید بھی ہو سکتے ہیں۔ ہوائی مجموعی طور پر 137 جزیروں پر مشتمل ہے۔ یہ سبھی تقریباً چالیس سے ستر ملین سال پہلے آتش فشاں سرگرمی کے نتیجے میں تشکیل پائے تھے۔ یہاں کی زمین سطحِ سمندر کے نیچے متعدد آتش فشاں پھٹنے سے تشکیل پائی تھی۔ میگما زمین کے مینٹل یا نچلی پرت سے پھوٹنے کے بعد بالآخر سمندر کی سطح تک پہنچ جاتا ہے
ایک بار جب میگما زمین کی سطح پر پہنچ جاتا ہے، تو اسے لاوا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہوائی جزائر اور دیگر آتش فشاں جزیروں جیسے آئس لینڈ اور سینٹورینی کے معاملے میں لاوا وقت کے ساتھ اکٹھا ہو کر ٹھنڈا ہوا اور پھر اس نے زمین تشکیل دی
آسٹریلیا کی سن شائن کوسٹ یونیورسٹی میں جغرافیہ کے پروفیسر پیٹرک نن نے مانا لوا کے پھٹنے کے بعد میڈیا کو بتایا ”بحرالکاہل کے تمام جزیروں کی بنیاد آتش فشاں ہیں، جنہوں نے سمندر کے فرش سے آتش فشاں کے طور پر زندگی کا آغاز کیا ہے جیسا کہ گہرے سمندر کی چوٹیوں کے ساتھ اور دیوہیکل کرسٹل پلیٹوں کے بیچ میں، جنہیں اکثر ہاٹ سپاٹ کہا جاتا ہے۔‘‘
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہوائی کی پودوں سے بھرپور زرخیز زمینیں آتش فشاں پھٹنے کی مرہونِ منت ہیں۔ آتش فشاں راکھ میگنیشیم اور پوٹاشیم جیسے عناصر سے بھرپور ہوتی ہے جو قدرتی کھاد کے طور پر کام کرتے ہیں
چیک اکیڈمی آف سائنسز میں سیّاروں کے سائنسدان پیٹر بروز کے مطابق آتش فشاں سے خارج ہونے والی گیسوں نے سیّاروں کو ان کی اپنی تخلیق کردہ زمین سے زیادہ شکل دی ہے۔ آتش فشاں جب پھٹتے ہیں تو فضا میں بڑی مقدار میں پانی کے بخارات اور کاربن ڈائی آکسائیڈ چھوڑتے ہیں۔ طویل مدت میں یہ گرین ہاؤس گیسیں ماحول کو گرم کرنے میں ناقابل یقین حد تک مؤثر ہیں۔ یہ گلوبل وارمنگ میں حصہ ڈالتی ہیں
پیٹر بروز کہتے ہیں ”آتش فشاں کے بغیر آپ کے پاس ماحول میں گرین ہاؤس گیسوں کا کوئی مضبوط ذریعہ نہیں ہے، کم از کم ایسے سیّاروں پر، جہاں انسانوں کے بنائے ہوئے اخراج نہیں ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا ”آتش فشاں سے گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج زمین پر زندگی کے لیے بہت اہم تھا۔ آتش فشاں کے بغیر ہمارے پاس گرین ہاؤس گیسوں کا اثر کمزور ہوگا، جس سے کرّہ ارض بہت زیادہ ٹھنڈا ہو جائے گا‘‘
بروز نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ”درحقیقت مختلف سیاروں پر آتش فشاں کی سرگرمی کی سطح سیّاروں کے درجہِ حرارت اور زندگی کی میزبانی کرنے کی ان کی صلاحیت سے تعلق رکھتی ہے“
انہوں نے کہا ”مریخ پر کوئی فعال آتش فشاں نہیں ہے اور وہاں بمشکل کوئی ماحول ہے، جو اسے انتہائی سرد بناتا ہے۔ زہرہ ماحول میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی وجہ سے ناقابلِ یقین حد تک گرم ہے۔ لیکن زمین (زندگی کے لیے) بالکل درست ہے‘‘
لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ آتش فشاں کی تباہ کن ساکھ حقیقت سے جڑی ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں لاوے پھوٹ پڑنے سے مقامی ماحولیاتی نظام کو بے حساب نقصان پہنچا ہے۔ بعض اوقات لاوا پھوٹنے کا عمل اتنا شدید ہوتا ہے کہ وہ پورے سیّارے کی آب و ہوا کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ 1815ع میں انڈونیشیا میں ماؤنٹ ٹمبورا میں لاوا پھوٹنے سے چوراسی ہزار افراد ہلاک ہوئے لیکن شمالی نصف کرّہ میں 1816ع کے ’گرمیوں کے بغیر سال‘ کا سبب بھی بنے
لیکن یہ تاریخ کے اوائل میں سپر آتش فشاں پھٹنے کے مقابلے میں کہیں ہلکا ہے۔ چوہتر ہزار سال پہلے، سماٹرا، انڈونیشیا میں موجودہ جھیل ٹوبا میں ایک بہت بڑا آتش فشاں پھٹنے کی وجہ سے ایک موسم سرما نے جنم لیا، جو دنیا بھر میں چھ سے دس سال تک جاری رہا۔ آتش فشاں پھٹنے سے موسمِ سرما کے نتیجے میں زمین کی سطح کے اوسط درجہ حرارت میں کمی واقع ہوئی
اس کی وجہ یہ ہے کہ آتش فشاں سے نکلنے والی گیسوں اور راکھ کی بڑی مقدار فضا میں پھیل گئی، جس سے سورج کی روشنی زمین تک کم پہنچتی ہے۔ عالمی آب و ہوا پر ٹوبا کے پھٹنے کے اثرات اتنے شدید تھے کہ ماہرین کا خیال ہے کہ اس کے نتیجے میں کل انسانی آبادی میں نمایاں کمی واقع ہوئی
سائنسدانوں کو امید ہے کہ وہ آتش فشاں کے پھٹنے سے فضا میں خارج ہونے والی گیسوں کی پیمائش کر کے زمین کی آب و ہوا کے مستقبل کو سمجھیں گے
پیٹر بروز کہتے ہیں ”ایک طویل عرصے سے، ہم یہ جاننا چاہتے تھے کہ آتش فشاں یا انسان گرین ہاؤس گیسوں کے بڑے پروڈیوسر ہیں۔ اب یہ واضح ہے کہ انسان آتش فشاں سے زیادہ گرین ہاؤس گیسیں پیدا کرتے ہیں‘‘
بروز کاربن ڈائی آکسائیڈ انفارمیشن اینالیسس سینٹر (سی ڈی آئی اے سی) کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی سرگرمیاں ہر سال آتش فشاں سے ساٹھ گنا زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتی ہیں۔ ہر آتش فشاں پھٹنے سے گرین ہاؤس گیسوں کی بڑی مقدار خارج ہوتی ہے، لیکن وہ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے ہونے والے اخراج کے مقابلے میں بہت کم ہیں
جرمن ریسرچ سینٹر فار جیو سائنسز کے ماہر ارضیات تھامس والٹر کا کہنا ہے ”ہمارے پاس زمین پر پندرہ سو فعال آتش فشاں ہیں، اس کے علاوہ تقریباً چالیس سے پچاس ہزار غیر فعال آتش فشاں ہیں، جو گیسیں خارج کرتے ہیں۔ لیکن وہ انسانوں کی پیداوار کے مقابلے گرین ہاؤس گیسوں کی بہت کم مقدار پیدا کرتے ہیں۔‘‘