پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان سات ارب ڈالر کے نئے پیکیج کی اگلی قسط جو دسمبر میں وصول ہونی تھی، تاخیر کا شکار ہو گئی ہے۔ کیونکہ حالیہ سیلاب کے سبب ہونے والی تباہ کاری کے بعد حکومتِ پاکستان نے جو اخراجاتی تخمینے لگائے ہیں، آئی ایم ایف کو ان پر تحفظات ہیں
اس بابت آئی ایم ایف کی ایک تجزیاتی ٹیم بات چیت اور جائزے کے لیے اکتوبر میں اسلام آباد آنے والی تھی، مگر اس کا دورہ ملتوی ہوتے ہوتے دسمبر آن پہنچا۔ اگر آج بھی سمجھوتہ طے پا جائے، تب بھی پچاس کروڑ ڈالر کی قسط جنوری کے آخر سے پہلے وصول ہونے کا امکان بہت کم ہے
اس کے سبب مالیاتی مارکیٹ جھٹکے لے رہی ہے۔ ڈالر اور روپیہ حسبِ معمول گتھم گھتا ہیں۔ پیراشوٹی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار، جنہیں بچپن سے ہی ڈالر کو اپنی مرضی کی نتھ ڈالنے کا شوق ہے،
اس بار بھی وہ اسٹیٹ بینک کی خودمختاری پر بھروسہ نہ کرتے ہوئے معاملات کو سلجھانے کے لیے اپنی سائنس لڑانے پر پہلے سے زیادہ کمربستہ ہیں۔ وہ ڈالر کو مارکیٹ میکنزم پر نہیں چھوڑنا چاہتے اور کسی بھی طرح گاٹی ڈال کے دو سو روپے سے نیچے لانے کے خواب دیکھ رہے ہیں
اس کے لیے جو اٹکل پچو بن پڑ رہا ہے، کیا جا رہا ہے۔ مثلاً بیرونِ ملک جانے والے مسافر اب پانچ ہزار ڈالر سے زائد کیش اپنے ہمراہ نہیں لے جا سکتے
اگر مارکیٹ سے آپ دو ہزار ڈالر سے اوپر خریدنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو فارن کرنسی اکاؤنٹ کھلوانا پڑے گا اور بینکوں نے اس بابت جو شرائط وضع کی ہیں، وہ عام آدمی کے لیے پورا کرنا مشکل ہے
مارکیٹ میں اگر ڈالر دستیاب بھی ہے تو سرکاری ریٹ سے دس سے پندرہ روپے اوپر دستیاب ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ برآمدات کے لیے ڈالر کی مانگ اور سرحد پار افغانستان میں اسمگلنگ ہے۔ افعانستان کو اس وقت عالمی مالیاتی ذرایع تک کسی بھی طرح کی رسائی نہیں اور وہاں کی سرکار اور عام تاجر ڈالر کے لیے کوئی بھی منہ مانگی قیمت ادا کرنے کو تیار ہے
ایک مسئلہ نجی بینکنگ شعبے کی نام نہاد سٹے بازی ہے۔ جس کا اعتراف سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کر چکے ہیں۔ ان کے اور موجودہ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے درمیان ایک ہی جماعت کا رکن ہونے کے باوجود جو کشیدگی ہے، وہ اپنے تئیں معیشت سے کھلواڑ کا سبب بنی ہوئی ہے
اسحاق ڈار نے جب سے منصب سنبھالا ہے۔ روزمرہ مہنگائی ان کے جادو کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے مسلسل منکر ہے۔ ڈالر پہلے کی طرح بہرہ ہے
مالیاتی خسارہ سرخ نشان کو مسلسل چاٹ رہا ہے۔ بیرونی قرضوں کی واجب الادا قسط کی ادائیگی دھاگے سے لٹک رہی ہے۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر مسلسل دس ارب ڈالر سے نیچے ہی ہیں
اگر کوئی قابلِ ذکر کامیابی ہوئی ہے تو بس اتنی کہ سعودی عرب نے اپنے تین ارب ڈالر کے ڈپازٹ کی مدت میں مزید ایک برس کا اضافہ کر دیا ہے۔۔ جب کہ باقی معیشت ڈار کی اس خوشخبری کا تعبیری انتظار کر رہی ہے کہ کسی دوست ملک نے (غالباً متحدہ عرب امارات) اگلے دو ہفتے میں تین ارب ڈالر کا ڈپازٹ جمع کرانے کا وعدہ کیا ہے
ڈالر اس لیے قابو میں نہیں آ سکتا کہ ایک تو امریکی شرح سود میں اضافے کے سبب دیگر مستحکم کرنسیوں کے مقابلے میں ڈالر مسلسل مضبوطی پر قائم ہے
دوم ڈالر کی اس مضبوط شرحِ تبادلہ کو نسبتاً طاقت ور معیشتیں تو کسی نہ کسی طور سہار لیں گی مگر پاکستان جسی معیشتیں، جن کا نہ صرف بیشتر دار و مدار بیرونی قرضوں ، رعائیتوں اور دوست ممالک کی نوازشات پر ہے، فی زمانہ ان کا سر اگر پانی سے ہی باہر نکلا رہے تو بڑی بات ہے
پاکستان ابھی تازہ تازہ فیٹف کی جکڑ بندیوں سے آزاد ہوا ہے۔ ایسے میں اسحاق ڈار کا یہ بیان ناقابلِ فہم ہے کہ انہیں کوئی پرواہ نہیں کہ آئی ایم ایف پیکیج کی اگلی قسط پر بات چیت اور سات ارب ڈالر پیکیج کے نویں جائزے کے لیے ادارے کی ٹکنیکل ٹیم کب اسلام آباد آتی ہے
آتی بھی ہے یا نہیں۔مجھے ان کی خوشامد نہیں کرنی۔ مجھے پہلے پاکستان کا مفاد دیکھنا ہے۔ ہماری تمام دستاویزات مکمل ہیں۔وہ ہمیں دھونس نہیں دے سکتے۔ اگر وہ نہیں بھی آتے تو کوئی مسئلہ نہیں۔ ہم گذارہ کر لیں گے۔ ہم اپنے لوگوں پر مزید بوجھ نہیں ڈال سکتے۔ آئی ایم ایف کا رویہ پاکستان کے معاملے میں غیر معمولی ہے۔
سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کے اس تجزیے پر کہ پاکستان رفتہ رفتہ دیوالیہ پن کی جانب بڑھ رہا ہے ڈار صاحب نے فرمایا کہ اس موضوع پر میرے نزدیک مفتاح اسماعیل کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ آئی ایم ایف سے کیسے ڈیل کرنا ہے
اسحاق ڈار کی اس ’’ذمے دارانہ گفتگو‘‘ کے کیا معاشی نتائج برآمد ہوتے ہیں یہ تو اگلے چند روز میں سامنے آ ہی جائے گا مگر ان کے حوصلے کی داد تو بنتی ہے
ایسا لگ رہا ہے گویا پاکستان کی لخلخاتی معیشت کا انچارج بات نہیں کر رہا بلکہ چینی وزیرِ خزانہ بیان دے رہا ہے، جس کے پیچھے کئی ٹریلین ڈالر کی معیشت اور کئی سو بلین ڈالر کا زرِ مبادلہ پڑا ہوا ہے
بظاہر آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر ہی ملنے ہیں اور یہ کوئی اتنی بڑی رقم نہیں کہ جس کے پیچھے دوڑ دوڑ کے سانس پھلائی جائے۔ مگر آئی ایم ایف کے اعتماد کا یہ فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ اسے دکھا کے دیگر مالیاتی اداروں اور حکومتوں سے قرضہ اور مدد لی جا سکتی ہے
ورنہ ان حکومتوں اور اداروں کو اپنی معاشی ساکھ اور قرض کی واپسی کے امکانات پر قائل کرنا خاصا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ بات اسحاق ڈار سے زیادہ کون جانتا ہے، جن کی حکومت نے نوے کی دہائی میں آئی ایم ایف کا کشکول توڑنے کا برملا اعلان کیا تھا اور پھر یہی کشکول صمد بانڈ سے جوڑ کے دوبارہ تھام لیا گیا
پاکستان انیس سو اٹھاون سے اب تک تئیس بار آئی ایم ایف کے پاس جا چکا ہے۔ وافر امریکی امداد کے باوجود ایوب خان کو تین بار آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا۔ بھٹو حکومت کو پانچ بار طواف کرنا پڑا۔ ضیاءالحق حکومت کو بھی دو بار آئی ایم ایف کو پکارنا پڑا، جبکہ ریگن حکومت نے ان کے لیے خزانے کے منہ کھول رکھے تھے
اس کے بعد انیس سو اٹھاسی سے انیس سو ستانوے تک بے نظیر بھٹو کی دونوں حکومتوں اور نواز شریف کی دونوں حکومتوں کو ہر برس آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑے۔ مشرف دور میں دھشت گردی کے خلاف بھرپور مغربی امداد ملنے کے باوجود پاکستان نے آئی ایم ایف کے سامنے دو بار حاضری بھری۔ زرداری حکومت ایک بار، نواز شریف کی تیسری سرکار ایک بار اور عمران خان کی سرکار بھی ایک بار آئی ایم ایف کی مالی سہولت سے فیضیاب ہوئی۔ جبکہ موجودہ حکومت بھی اس سے مستثنیٰ نہیں
ایسے میں اسحاق ڈار کا ’’قومی غیرت‘‘ سے بھرپور بیان کیوں سامنے آیا۔ حالانکہ اس ڈیل کو پایہِ تکمیل تک پہنچانے کے لیے شہباز حکومت کے پہلے وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کو واشنگٹن میں آئی ایم ایف ہیڈکوراٹرز کے سامنے نادیدہ خیمہ لگانا پڑ گیا تھا
اب تو جنرل باجوہ بھی ریٹائر ہو گئے ہیں، جنہوں نے نائب امریکی وزیرِ خارجہ وینڈی شرمین سے ملاقات میں سفارش کی تھی کہ آپ آئی ایم ایف سے کہیں کہ بندے دا پتر بن کے پاکستان نوں پیسے دیوے
معلوم نہیں کہ اسحاق ڈار کی جراتِ رندانہ انگریزی میں بھی آئی ایم ایف کے اہل کاروں تک پہنچے گی یا ان کا بیان مقامی مارکیٹ کی دلجوئی کے لیے ہے
مگر ہونا ہوانا شاید کچھ بھی نہیں۔۔ ویسے بھی گوالمنڈی کا محاورہ ہے کہ ’’چنڈ مار کے پیریں پے جاؤ‘‘
بشکریہ: ایکسپریس نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)