جپسی یا خانہ بدوش ہر ملک میں پائے جاتے ہیں ان کا اپنا کلچر ہے اور اپنی روایات، جن پر یہ صدیوں بلکہ ہزاروں برس سے کاربند ہیں۔ کیلاش کی کافر آبادی کی طرح مخصوص رہن سہن اور انداز انہیں دیگر سے ممتاز، منفرد اور ممیز بھی بناتا ہے
پاکستان کے دیگر خانہ بدوشوں کی طرح سندھ میں کوچڑے، جوگی، شکاری، کبوترے، واگھڑے، راوڑے، گوارے، باگڑی، اوڈھ اور دیگر خانہ بدوش موجود ہیں۔
یورپ اور افریقہ میں پائے جانے والے خانہ بدوش قبائل خود کو سنتی یا زنگلی کہلواتے ہیں۔ ایک مضمون میں امان ﷲ پنہور کا دعویٰ تھا کہ یہ ان سندھی خانہ بدوش قبائلیوں کی نسل ہیں جنہیں صدیوں قبل شمالی ہند کے راجا شنگل نے ایران کے شاہ بہرام کے جشن میں شرکت کے لیے خصوصی دعوت پر وہاں بھیجا گیا تھا
جشن میں شرکت کے بعد انہیں وہاں آباد کاری کے لیے اراضی، مال و اسباب اور طعام و قیام کی پیشکش کی گئی لیکن خانہ بدوش ہونے کے ناتے انہوں نے یہ سب کچھ تج کرکے یورپ اور افریقہ کی سمت کوچ کیا۔ اور ایک نئی دنیا دریافت کرلی
اسی مضمون میں درج تھا کہ ایک روایت یہ بھی ہے کہ یہ خانہ بدوش سکندراعظم کے ساتھ آئے تھے اور آج بھی وہ بہت سے ایسے الفاظ بولتے ہیں، جو سندھی یا ہندی کا مفہوم رکھتے ہیں اور کئی ایک رسم و رواج بھی مقامی خانہ بدوشوں سے ملتے جلتے ہیں۔ یورپ کے بہت سے جپسی خود کو زنگلی یا روسی و سنتی بتاتے ہیں جس پر مضمون نگار کا کہنا تھا کہ سنتی دراصل سندھی کی بگڑی ہوئی شکل ہے
سندھ کے خانہ بدوش قبائل میں سے ایک جوگی بھی ہے۔ جن میں مسلمان اور ہندو دونوں مذاہب سے تعلق رکھنے والے شامل ہیں۔ یہ قبیلہ سانپ پکڑنے اور انہیں پٹاریوں میں لے کر نگر نگر گھومنے والوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ سانپ کے ڈسنے کا علاج کرنے، گیدڑ سنگھی فروخت کرنے اور مرلی یا بین بجانے میں کمال رکھتے ہیں۔ ان میں سے کئی جوگی فن گلوکاری سے بھی منسلک ہیں
حیدرآباد کے سنیئر صحافی اسحٰق مگریو کہتے ہیں کہ جوگی بڑے آرٹ کے مالک ہیں۔ بین بجانا آسان کام نہیں گلے کی رگیں پھول جاتی ہیں۔ سانپ اس پر مست ہوکر جھومتا ہے تو یہ روزی روٹی کماتے ہیں۔ لوگوں کے نزدیک یہ تماشا سہی مگر ان کے کمالات بھی خاص ہیں
سندھ میں جوگیوں کی برادری میں شادی طے کیے جانے کے وقت ایک انوکھی رسم عرصہ دراز سے چلی آ رہی ہے
اس رسم میں لڑکے کو منگنی کے بعد لڑکی والوں کے گھر رہ کر اپنی محبت اور ذمہ داری کا یقین دلانا ہوتا ہے اور اگر لڑکی والوں کو لڑکے کے خلوص کا یقین ہو جائے تو وہ شادی کے لیے ہاں کر دیتے ہیں
جوگی برادری کے ایک رکن علی شیر جوگی اس رسم کے حوالے سے بتاتے ہیں ”ہماری برادری میں منگی کے موقعے پر لڑکے والے اپنی برادری کے ہمراہ آتے ہیں۔“
علی شیر جوگی کے مطابق ”اس میل ملاپ میں طے پاتا ہے کہ لڑکا منگنی کے بعد کچھ وقت اپنے ہونے والے سسرال میں رہے گا تاکہ اس کا چال چلن اور برتاؤ پرکھا جا سکے۔ اگر لڑکا پاس ہو جائے تو رشتہ کر دیا جاتا ہے“
انہوں نے بتایا ”لڑکا اور لڑکی ایک گھر میں رہنے کے باوجود نہ تو ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی بات چیت کی اجازت ہوتی ہے“
لیکن زمانے کی تیز رفتار تبدیلی کے دستبرد سے جوگیوں کی رسم بھی محفوظ نہیں رہ سکی۔ علی شیر کے مطابق ”گو یہ ہماری بہت پرانی رسم ہے مگر بدلتے زمانے کی وجہ سے یہ تبدیل ہو رہی ہے۔ اب اکثر قبیلوں میں منگنی کے بعد لڑکا اپنے گھر چلا جاتا ہے“
صحافی ساحل جوگی کے مطابق اس رسم کے نتیجے میں ہونے والی شادی میں لڑکی کے والدین مطمئن رہتے ہیں کیونکہ انہوں نے لڑکے کی عادات اور صفات کو خود پرکھا ہوتا ہے
سکھر کے صحافی ساحل جوگی نے اس رسم کے حوالے سے بتایا کہ اس کا مقصد صرف ایک دوسرے کو سمجھنا ہے تاکہ شادی کے بعد ناچاکی کا سامنا نہ کرنا پڑے
انہوں نے بتایا کہ اس رسم کے بہت سے فائدے ہیں اور شاذ و نادر ہی کسی لڑکے کو انکار کرنے کی نوبت آتی ہے
انہوں نے کہا ”اس رسم کے نتیجے میں ہونے والی شادی میں لڑکی کے والدین مطمئن رہتے ہیں کیونکہ انہوں نے لڑکے کی عادات اور صفات کو خود پرکھا ہوتا ہے“
محمد شاہد جوگی ایک گلوکار ہیں اور ان کی حال ہی میں شادی ہوئی ہے، وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے اس رسم کے تحت تین ماہ تک اپنے سسرال والوں کی دل سے خدمت کی
انہوں نے کہا ”اس کا سب سے زیادہ فائدہ یہ ہوا کہ میری دلہن میری اور میرے گھر والوں کی بہت عزت کرتی ہے کیونکہ اس نے دیکھا کہ میں نے ان کے گھر رہ کر ان کی خدمت کی۔ اگر اپنے گھر میں اپنے والدین کی خدمت کی جاتی ہے تو ساس اور سسر بھی والدین کی جگہ ہوتے ہیں“
شاہد کہتے ہیں کہ وہ اپنی اولاد کے رشتے بھی اسی رسم کے تحت کریں گے
دوسری جانب نوبیاہتا دلہن سمیرا جوگی نے بتایا ”مجھے اپنے منگیتر کا میرے والدین کی خدمت کرنا بہت اچھا لگا۔ والدین نے میری رضامندی سے میرے رشتے کی حامی بھری۔ ہم دونوں زندگی میں بہت خوش ہیں“