ارشد شریف کے جسم پر تشدد کے شواہد نہیں ، امریکی ماہرین

ویب ڈیسک

امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ نے کینیا میں مارے جانے والے پاکستانی صحافی ارشد شریف کی ایسی چالیس تصاویر حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے، جو نیروبی میں پوسٹ مارٹم کے دوران لی گئیں۔ ہائی ریزولوشن پکچرز کے سائنسی تجزیے کے بعد امریکی ماہرین نے بتایا ہے کہ مقتول صحافی پر موت سے قبل کسی طرح کے تشدد کے شواہد نہیں ملتے

یاد رہے کہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز ) میں ارشد شریف کے دوبارہ پوسٹ مارٹم کے بعد کچھ تصاویر مقامی میڈیا میں نشر ہوئی تھیں اور ایک دعویٰ سامنے آیا تھا کہ ارشد شریف پر گولیاں چلانے سے قبل ان پر تشدد کیا گیا تھا۔ ایسی خبروں کے بعد پاکستان میں سوشل میڈیا پر مختلف قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں

وائس آف امریکہ کے دعوے کے مطابق انہیں ارشد شریف کے کینیا میں ہونے والے پوسٹ مارٹم کے دوران لی گئی جو تصاویر موصول ہوئی ہیں، وہ کہیں شائع نہیں ہوئیں ۔ یہ تصاویر جسم کے بیرونی حتیٰ کہ اندرونی اعضا کا اس واضح انداز میں احاطہ کرتی ہیں کہ ماہرین کو تجزیے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں ہوتا

براؤن یونیورسٹی سےفورنزک پیتھالوجسٹ ڈاکٹر پریا بینرجی نے وائس آف امریکہ کی درخواست پر ان تصویروں کا سائنسی تجزیہ کرنے کے بعد بتایا ہے کہ ارشد شریف پر ہلاکت سے قبل تشدد کے نشانات نہیں ملے ہیں

’’اگر ان تصاویر کو کلی طور پر دیکھا جائے، خصوصاً جسم کے بیرونی حصوں کی تصاویر کو، تو ایسے کوئی تشدد کے اور نشانات نہیں ہیں۔‘‘

ڈاکٹر پریا بینرجی نے مزید کہا: ’’جسم پر ہتھکڑی کے کوئی واضح نشانات نہیں۔ ان کی گردن پر کوئی ایسے نشانات نہیں تھے، جن سے لگے کہ ان کا گلا دبانے کی کوشش کی گئی ہو، یا ان پر دباؤ رکھا گیا ہو، مجھے ان کی زبان یا منہ پر کوئی واضح چوٹ نظر نہیں آئی، یا آنکھوں پر بھی، سو جب میں انہیں دیکھتی ہوں، تو مجھے گن شاٹس کی چوٹ کے علاوہ کوئی چوٹ نظر نہیں آتی۔‘‘

ڈاکٹر پریا بینرجی کا کہنا تھا کہ کوئی ٹوٹی ہوئی پسلی نظر نہیں آئی ۔ جب ہم ان کے جسم کے سامنے یا پشت کی طرف دیکھیں تو کوئی ایسی رگڑ کے نشان نہیں ہیں جن کی وضاحت ممکن نہ ہو یا گولیوں کے علاوہ کوئی نشان نہیں جس کے بارے میں سوالات ہوں۔ انہوں نے کہا کہ وہ انہی ظاہری شواہد پر انحصار کر کے کہہ رہی ہیں کہ اس معاملے میں (ہلاکت سے پہلے) کوئی تشدد نہیں ہوا۔ ‘

امریکی کی تنظیم ’فزیشن فار ہیومن رائٹس‘ سے وابستہ پیتھالوجسٹ ڈاکٹر کیرن کیلی بھی ڈاکٹر پریا بینرجی جیسی آرا دے رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تصاویر دیکھنے کے بعد انہیں ہلاکت سے پہلے تشدد کے کوئی شواہد نہیں ملتے۔

ڈاکٹر کیرن کیلی نے کہا ’’تشدد کے کوئی نشانات نہیں ہیں۔ ارشد شریف کی موت کی وجہ سر میں سوراخ کرنے والی گولی کا زخم تھا۔ اور ان کے جسم پر بھی جو ایک زخم ہے، وہ بھی گولی کا ہی ہے‘‘

ڈاکٹر پریا بینرجی نے مزید کہا ان تصاویر کو دیکھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ارشد شریف کو دو گولیاں لگی تھیں۔ ایک گولی سر پر، اور اس کے علاوہ ایک پشت پر، جو سینے سے ہوتی ہوئی گئی۔ جو سر پر چوٹ تھی، اسے ’’گریز وونڈ‘‘ کہا جاتا ہے، یہ گولی ان کے سر کے اوپر والے حصے سے پار ہوتی ہوئی گئی اور کھوپڑی میں فریکچر اور دماغ سے خون بہنے کا سبب بنی۔ اور جو گولی سینے پر لگی وہ پشت سے پار ہوئی اور اس سے پھیپھڑوں میں زخم آیا۔‘‘

پمز میں پوسٹ مارٹم کے بعد پاکستانی میڈیا پر اور سوشل میڈیا پر یہ دعوے سامنے آئے تھے کہ ارشد شریف کے ہاتھوں کے کئی ناخن نہیں تھے۔ اس حوالے سے پوچھے گئے سوال پر ڈاکٹر پریا بینرجی نے بتایا کہ ناخنوں کا نکالا جانا، پوسٹ مارٹم میں ایک معمول کی مشق ہے

ڈاکٹر بینرجی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ قتل کے کیس میں تحقیقات کے لیے دنیا بھر میں عام طور پر ناخن بطور نمونہ تجزیے کے لیے نکالے جاتے ہیں مگر طریقہ کار میں فرق ہو سکتا ہے

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ڈاکٹر کیرن کیلی نے مزید کہا کہ یہ ایک بین الاقوامی صحافی کا قتل ہے، جس کے لیے فورنزک پیتھالوجسٹ کے تعاون سے ایک بیرونی، غیر جانبدار ایجنسی سے تحقیقات کی ضرورت ہے، جس کے پاس ان فورنزک نتائج کی تشریح کرنے کا علم ہو۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close