بھارتی دارالحکومت دہلی میں دس سال قبل ایک بس میں ایک نوجوان خاتون کی وحشیانہ اجتماعی جنسی زیادتی اور قتل کا ایک ایسا گھناؤنا واقعہ پیش آیا، جس نے نہ صرف دنیا کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ یہی واقعہ بھارت میں جنسی تشدد کی بلند شرحوں کی طرف توجہ مبذول کروانے کا سبب بھی بنا
یہ 16 دسمبر 2012ع کی شام تھی، جب تئیس سالہ جیوتی سنگھ اور ایک مرد دوست ایک بس میں سوار ہوئے۔ ان پر وحشیانہ حملہ کیا گیا، لوہے کی سلاخ سے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور سڑک کے کنارے پھینک دیا گیا تھا۔ تاہم جیوتی سنگھ اتنی دیر تک زندہ رہیں کہ وہ حملہ آوروں کی شناخت کر سکیں۔ اسی وجہ سے بھارت میں نے انہیں ’نربھئہ‘ (نڈر) کا لقب دیا گیا اور وہ خواتین کے خلاف جنسی تشدد سے نمٹنے میں سماجی طور پر قدامت پسند ملک کی ناکامی کی علامت بن گئیں
16 دسمبر 2012 ء کو جیوتی سنگھ اپنے ایک دوست کے ساتھ رات گئے، سنیما سے واپس گھر جانے کے لیے ایک بس میں سوار ہوئیں۔ بس میں اوباش مردوں کا ایک گینگ موجود تھا۔ ان مردوں نے جیوتی کو اپنی جنسی حوس کا نشانہ بنایا اور ان پر ناقابلِ بیان تشدد کیا جبکہ بس دہلی کی تاریک گلیوں میں گھومتی رہی
اجتماعی زیادتی اور انسانیت سوز مظالم کا شکار ہونے والی اس نوجوان خاتون کو بعد ازاں ان مردوں نے سڑک پر پھینک دیا تھا
جیوتی اپنے جس دوست کے ساتھ بس پر سوار ہوئی تھیں، اُسے ان جنسی حملہ آوروں نے پہلے ہی تشدد کر کے راستے پر پھینک دیا تھا۔ جیوتی ان گھناؤنے جرائم کا شکار ہونے کے بعد چند دن زندہ رہیں۔ اُنہیں علاج کی غرض سے سنگاپور بھیج دیا گیا تھا، جہاں آخرکار وہ زندگی کی بازی ہار گئی
جیوتی سنگھ کی والدہ آشا دیوی نے میڈیا کو بیان دیتے ہوئے کہا تھا ”جیوتی نے مرنے سے قبل اُن سے (اپنی ماں سے) وعدہ لیا تھا کہ وہ اُس کے ساتھ بدترین زیادتی کرنے والے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے اور ان کی سزا کو یقینی بنانے کے لیے سب کچھ کریں گی“
جیوتی کیس نے بھارت میں احتجاج اور مظاہروں کا طوفان برپا کر دیا تھا۔ اجتماعی زیادتی اور قتل کے اس کیس میں چھ ملزموں کو گرفتار کیا گیا۔ ان پر مقدمات چلے۔ ایک ملزم کو کچھ عرصے حراست میں رکھنے کے بعد اس لیے رہا کر دیا گیا کہ وہ نو عمر تھا۔ ایک اور ملزم نے جیل میں خودکُشی کر لی تھی، جبکہ بقیہ چار کو موت کی سزا سنائی گئی۔ 19 مارچ 2020 ء کو پھانسی کی سزاؤں پر عمل درآمد ہوا اور ان چاروں مجرمان کو تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی گئی
اگرچہ جیوتی سنگھ کے ساتھ بیس ملین افراد پر مشتمل ایک وسیع و عریض شہر اور بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ہونے والے شرمناک اور بہیمانہ جرائم کے واقعے کو ایک دہائی کا عرصہ گزر چکا ہے، تاہم اب بھی بہت سی خواتین بھارت کے دارالحکومت میں رات کے وقت سفر کرنے سے خوفزدہ ہیں
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے متاثرہ خاتون کی ماں، اُس وقت کے چیف پولیس تفتیش کار، ایک کارکن، اور ایک نوجوان خاتون مسافر سے بات چیت کی ہے
جیوتی کی ماں آشا دیوی نے اپنے دو کمروں پر مشتمل دہلی میں واقع گھر میں اے ایف پی کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا ”ظاہر ہے زخم بہت گہرے ہیں اور درد ختم نہیں ہوتا۔ جیوتی اُن بارہ سے تیرہ دنوں کے دوران اتنی تکلیف میں تھی مگر زندہ تھی۔۔ کوئی انسان دوسرے انسان کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا ہے؟ میری بیٹی کو سانس لینے میں بھی دشواری ہو رہی تھی‘‘
جیوتی کی والدہ آشا دیوی کی جنگ اپنی بیٹی کے مجرموں کو سزا دلوانے سے ختم نہیں ہوئی، بلکہ اس حملے کے بعد سے وہ خواتین کے تحفظ کے لیے نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔ وہ جنسی حملوں اور زیادتیوں کا شکار ہو کر بچ جانے والوں کے خاندانوں کے ساتھ مشاورت کرتی ہیں، قانونی لڑائیوں میں ان کی مدد کرتی ہیں اور انصاف کے لیے احتجاج کرنے والوں میں شامل ہوتی ہیں
ستاون سالہ آشا دیوی نے اپنے شوہر کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں بچ جانے والی خواتین کے لیے ایک فنڈ بھی قائم کیا ہے۔ اپنی بیٹی کی یادگاروں اور خواتین کے تحفظ اور ان کے حقوق کے لیے ان کی جدوجہد کے عوض انہیں کئی ایوارڈز مل چُکے ہی
انہی اعزازات اور ایوارڈز سے بھری شیشے کی کیبینٹ کے پاس اپنے گھر میں بیٹھی آشا دیوی کا کہنا تھا ”میری بیٹی کی تکلیف نے مجھے یہ جنگ لڑنے کی طاقت دی‘‘
اس حملے سے قبل جیوتی سنگھ کے والد نے اپنے خاندان کو ایک گاؤں سے دہلی منتقل کیا تھا۔ وہ دہلی ہوائی اڈے پر سامان سنبھالنے والے کے طور پر کام کرتے تھے
جیوتی کے والدین کو امید تھی کہ وہ ملازمت کرنے والی خاندان کی پہلی لڑکی بنے گی، اسی لیے تمام مالی وسائل فزیوتھراپی کالج میں ان کی تعلیم پر خرچ کیے گئے تھے
اپنے خاندان کی معمولی آمدن میں اضافے کے لیے انہوں نے ایک کال سینٹر میں کام کیا اور پرائیویٹ طور پر بچوں کو پڑھایا
بس میں سوار افراد رام سنگھ، مکیش سنگھ، ونے شرما، اکشے ٹھاکر اور پون گپتا ایک جھونپڑی میں رہتے تھے، اور ان میں ایک بس کی صفائی کرنے والا، جم اسسٹنٹ، ایک پھل فروش اور ایک سکول سے بھاگا ہوا شامل تھے
جیوتی سنگھ کیس پر ملک بھر میں شروع ہونے والے احتجاج اور پُر زور مظاہروں کے دباؤ نے بھارتی حکومت کو ملک میں ریپ کے خلاف سخت سزاؤں کے اعلان پر مجبور کیا، مزید سی سی ٹی وی کیمرے اور اسٹریٹ لائیٹس نصب کرنے ، اور کچھ بسوں میں سیفٹی مارشلز تعینات کرنے جیسے اقدامات کیے گئے لیکن اس کے باوجود حال ہی میں گجرات کی بلقیس بی بی کے کیس میں مجرموں کی عدالت سے رہائی نے ایک بار پھر تمام اقدامات کو دھندلا دیا ہے
2018ع میں تھامس رائٹرز فاؤنڈیشن نے سینکڑوں ماہرین کی رائے پر مشتمل خواتین کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک کی ایک فہرست شائع کی تھی، جس کے مطابق بھارت میں 2007 سے 2016 کے درمیان خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم میں ایک سو تراسی فیصد اضافے کی نشاندہی کی گئی تھی۔ مزید برآں یہ کہ بھارت میں ہر گھنٹے پر چار ریپ واقعات ریکارڈ ہوتے ہیں
لیکن شاید اور بھی بہت سے متاثرین ہیں، جو سامنے آنے سے ڈرتے ہیں
جنسی زیادتی کے ہزاروں مقدمات بھارت کے قانونی نظام میں اٹکے ہوئے ہیں، اور خواتین کے خلاف ہولناک جرائم رپورٹ بھی ہو رہے ہیں۔