بچپن سے سنتے آئے ہیں سفر وسیلہ ظفر لیکن کچھ سفر ایسے بھی ہوتے ہیں، جن میں دل گھائل ہوتا ہے اور تل تل ڈوبتا ہے. منزل جیسے جیسے قریب آتی جاتی روح بدن کا ساتھ چھوڑتی محسوس ہوتی ہے.
میں یعنی شہباز علی پاکستان کی قومی پرواز سے دبئی پہنچا ہوں اور چار گھنٹوں پر محیط جان لیوا انتظار کے بعد امارات ایئرلائن مجھے میری منزل مقصود پر پہنچا دے گی.
یہ نصف صدی پرانا قصہ ہے. میری پوسٹنگ کھاریاں میں تھی، جب مجھے اماں کی چٹھی ملی کہ چچا برکت نے رشتے کے لیے ہاں کر دی ہے اور شادی کے لیے عید کے تیسرے دن کی تاریخ مقرر ہوئی ہے، سو میں ابھی سے چھٹی کی درخواست دے دوں.
خط پڑھتے ہی میں نے لڈی ڈالی کہ من کی مراد پوری ہو گئی تھی. نسترن مجھے بچپن سے پسند تھی، بھولی بھالی سفید گلاب جیسی پاکیزہ اور معصوم۔۔ اس کا اور میرا سنجوگ ناممکن تھا مگر اس دنیا میں شاید کچھ بھی ناممکن نہیں کہ معجزے کبھی بھی ہو سکتے ہیں
میرے ابا انڈیا پاکستان کی پہلی جنگ 1948 میں شہید ہو گئے تھے۔ تب میں نے پاؤں پاؤں چلنا سیکھا تھا. بس اسی وقت ابا کی انگلی میرے ہاتھوں سے چھوٹ گئی۔۔ پھر میرے ساتھ زمانے نے وہی رویہ روا رکھا، جو یتیموں کے ساتھ مروجہ ہے. تایا نے زمین پر قبضہ کر کے اماں کو گھر سے بےدخل کر دیا اور اماں اپنے ہی گاؤں میں اجنبی ہو گئی. اماں تھی بڑی ہمت والی، اس نے ابا کا گاؤں نہیں چھوڑا بلکہ وہیں چچا برکت کے کھیت کے پرلی طرف جھونپڑی ڈال لی اور جھونپڑی کے کچے آنگن میں تندور بنا لیا. اسی تندور کے آگے بیٹھے بیٹھے اماں نے اپنی پوری جوانی جھلسا دی پر کسی کا بڑھا ہاتھ قبول کر کے سکھ کی چھپر چھاؤں قبول نہ کی. چچا برکت ہم ماں بیٹے پر شفقت رکھتا تھا مگر ہمارا درجہ اور اوقات اتنی ہی تھی، جتنی خاندان میں کسی غریب رشتہ دار کی ہوتی ہے.
میری شدید خواہش تھی کہ میں اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان آرمی میں بھرتی ہو جاؤں، سو انٹر کرتے ہی میں پاکستان آرمی میں بطور سپاہی بھرتی ہو گیا. جب میں وردی میں ماں کے سامنے آیا تو اماں بہت بہت روئی، ویسے تو غریب اکثر و بیشتر ہی روتی تھی، پر اس دن کا رونا الگ تھا. اس رونے میں منزل کو پا لینے کی سرخ روئی کے ساتھ ساتھ میاں کا غم بھی از سر نو تازہ ہو گیا تھا.
ماں نے کہا تھا ”تو حوالدار ناظم علی کا بیٹا ہے۔۔ دیکھ بیٹا نثار، اپنے باپ کی عزت رکھنا اور دشمن کو کبھی پیٹھ مت دکھانا“
پھر میں کھاریاں چلا آیا میری یونٹ تھی پنجاب 33
دن گزرتے گئے اور میرا ماں کی طرف چکر لگتا رہا. ایک دفعہ جب میں گاؤں گیا تو ماحول میں بہت کھنچاؤ تھا، پوچھنے پر پتہ چلا چچا برکت کے بیٹے ناظم نے اپنی پسند سے شہر میں شادی کر لی ہے اور اب اس وجہ سے لڑکی والوں نے نسترن کا رشتہ بھی لوٹا دیا کہ جب ہماری بیٹی تمہارے گھر کی بہو نہیں بن سکتی تو نسترن بھی ہماری بہو نہیں بنے گی کہ یہ ادلے بدلے کا رشتہ تھا. گاؤں کے بڑے بیچ میں پڑے مگر چچا کرم الٰہی (نسترن کے ہونے والے سسر نے) پٹھے پر ہاتھ ہی نہ رکھنے دیا۔ یوں بچپن کا لگا لگایا رشتہ ٹوٹ گیا. چچا برکت نے اس بات کا بہت اثر لیا اور بیمار پڑ گیا اور ساتھ ہی ساتھ ناظم کو بھی عاق کر دیا. مسجد کے امام صاحب نے برکت چچا کو بہت سمجھایا کہ اسلامی تعلیمات میں عاق کی کوئی شرعی حیثیت نہیں اور یہ سختی سے منع ہے مگر چچا برکت اپنی ہٹ پر قائم رہا.
میں بھی چچا برکت کی مزاج پرسی کو گیا. چچا نے واقعی اس صدمے کو دل پر لے لیا تھا اور اب وہ پہلے کے مقابلے میں آدھا بھی نہیں رہا تھا. پہلی بار میں نے زندگی میں جواں ہمت چچا کے لرزتے ہاتھوں کو دیکھا اور میرا دل بیٹھ گیا. اولاد کی طرف سے ملنے والے دکھ والدین کو روگی کر چھوڑتے ہیں. چاچی بھی اداس تھی مگر چچا کی طرح نڈھال نہیں البتہ نسترن کی اداسی میرے دل کو بہت چبھی گو کہ اس کی اداسی فطری اور جائز تھی۔ وہ بچپن سے اسی کا نام اپنے نام کے ساتھ سنتی آ رہی تھی، پھر اسے مستقبل کی دہشت بھی تھی کہ اب آگے کیا ہو گا؟
چچا برکت کے گھر سے واپسی پر میں نے اماں سے اپنی دیرینہ آرزو کا ذکر کیا پر اماں خاموش رہی. اماں نے کہا بیٹا ہمارا اور ان کا کوئی جوڑ نہیں، کہیں وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہم لوگ ان کے مشکل وقت کا فائدہ اٹھا رہے ہیں. میں نے اماں کی منت کی کہ اماں رشتہ تو لے جائیں۔۔ کیا ہوگا، زیادہ سے زیادہ انکار ہی ہوگا نا! مگر مجھے تا حیات یہ ملال تو نہیں رہے گا کہ میں نے کوشش نہیں کی. جواب میں اماں خاموش ہی رہی اور میں بےحد رنجور کھاریاں واپس آ گیا.
مجھے اچھی طرح سے یاد ہے وہ پہلی جنوری 1971 کی روشن اور چمکیلی دوپہر تھی، جب مجھے اماں کی چٹھی ملی، جس میں یہ خوشخبری تھی کہ چاچا برکت رشتے کے لیے مان گیا ہے اور عید کا تیسرا دن شادی کے لیے مقرر ہوا ہے. میری خوشیوں کا ٹھکانہ نہیں تھا۔
خدایا خدایا!!! میرے تہجد کے آنسو باریاب ہوئے، پتہ نہیں دعاؤں میں محبوب کو مانگنا چاہیے بھی کہ نہیں؟
پر میں نے نسترن کو مانگا تھا اور بہت تڑپ کر مانگا تھا. اب میں سجدے میں گر کر اس رب کریم کا شکر گزار تھا.
سنہ اکہتر ملک کے لیے سازگار نہ تھا کہ ملکی فضا عجیب دم گھونٹنے والی تھی، خاص کر مشرقی بازو سے عجیب عجیب خبریں آ رہی تھیں. یقین نہیں آتا تھا کہ بھائی بھائی بھی برسرِ پیکار ہو سکتے ہیں. ہم لوگوں کو یہی بتایا گیا تھا کہ سرحد پار سے ہندو بنیے نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے فوجی بھی مکتی باہنی کی مدد کے لیے بھیج دیئے ہیں.
عجیب دل خراش خبریں آتی تھیں مشرقی پاکستان سے اور حالات کی سفاکی دیکھیے کہ بھائی بھائی کے خلاف صف آرا تھے.
مارچ میں پنجاب 33 کا ڈھاکہ جانے کا حکم نامہ آ گیا اور مجھے گھر جانے کو فقط تین دن کی چھٹی ملی.
میں نے گھر پہنچ کر اماں سے کہا کہ برکت چاچا سے پوچھیں اگر نسترن کو اعتراض نہیں تو آج شام میں رخصتی کر دیں. یوں اس روز عصر کی نماز کے بعد مسجد ہی میں میرا نکاح ہوا اور میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی پوری ہوئی. دو دن کدھر ہوا ہوئے، خبر نہیں. میں نسترن سے غازی بن کر لوٹنے کا وعدہ کر کے کھاریاں آ گیا.
ہماری رجمنٹ پندرہ مارچ کو ڈھاکہ ایئرپورٹ پر اتری.
اف!!! کیا خوبصورتی تھی بنگال کی، ہریالی گویا آنکھوں میں کھبی جائے۔۔ مگر اس حسن پر ایک سہم طاری تھا. ایئرپورٹ کا عملہ ہم لوگوں سے بالکل تعاون نہیں کر رہا تھا اور ہمارے بنگالی بھائیوں کے چہروں پر ایک واضح تحقیر آمیز مسکراہٹ تھی اور انہوں نے آپس میں، ہمارے متعلق بنگلہ زبان میں غالباً کوئی ناروا بات بھی کی تھی، جس پر عملے کے دیگر افراد کھل کر ہنسنے لگے تھے. ہم لوگوں کو خاموش رہنے کا حکم تھا. ہم سب ٹرکوں میں سوار ہو کر ہیڈ کوارٹر پہنچ گئے. یہاں سے پھر کچھ چٹاگانگ اور کچھ کومیلا باڈر پر بھیج دئیے گئے. میں ڈھاکہ میں پوسٹیڈ تھا اور میرے فرائض میں ڈھاکہ ریڈیو اسٹیشن کی حفاظت و نگرانی تھی.
پچیس مارچ کو آپریشن سرچ لائٹ کے بعد شیخ مجیب کو گرفتار کر لیا گیا اور تین چار دن کے بعد اسے کراچی بھیج دیا گیا. آپریشن سرچ لائٹ میں کافی خون خرابہ ہوا اور پاکستان آرمی مقامی لوگوں کے لیے مزید قابل نفرت ٹھہری. مکتی باہنی اور دوسرے شرپسند عناصر یا تو بارڈر پار کر گئے یا انڈر گراؤنڈ ہو گئے. اب پوری شدت سے گوریلا جنگ شروع ہو چکی تھی. مکتی باہنی اپنے علاقے سے یوں آشنا تھے، جیسے آدمی اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے اس پہ طرہ یہ کہ ان کو عوام کی حمایت و ہمدردی بھی حاصل تھی. مغربی پاکستان سے آنے والی کمک کے لیے بنگال کی برسات نیا تجربہ اور عوام کا عدم تعاون الگ درد سر تھا.
ڈھاکہ کے مضافات میں تخریب کاروں کے کئی گڑھ تھے. ڈھاکہ کے باہر سدھیر گنج پاور ہاؤس تھا، جہاں سے بجلی کے تار مختلف اطراف کو جاتے تھے. تخریب کاروں نے یہ تار کاٹ کر بجلی کی سپلائی منقطع کردی تھی . مرمت کے کام کے لیے مغربی پاکستان سے پانچ افراد پر مشتمل واپڈا کا عملہ منگوایا گیا. جس میں دو اسسٹنٹ انجینئرز ، ایک لائن سپرٹنڈنٹ، ایک فور میں اور ایک لائن مین شامل تھا۔ عملے کے پانچ آدمیوں کی حفاظت پر میں، شبیر اور اختر حسین مامور تھے. ہم پر مکتی باہنی نے دن دہاڑے حملہ کر دیا۔
اس حملے میں واپڈا کے عملے کے پانچ افراد اور پاکستان آرمی کے تین جوان شہید ہوئے۔
16 جولائی 1971
سپاہی نثار علی ولد ناظم علی
پنجاب 33
سکنہ راولپنڈی
سدھیر گنج میں وطن عزیز کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہو گئے اور انہیں پورے اعزاز کے ساتھ آرمی قبرستان بنانی میں سپرد خاک کر دیا ہے.
یہ اطلاع گھر پر بجلی بن کر گری، جسے شہید کی بیوہ اور شہید کی ماں نے پورے وقار اور تحمل سے جھیلا. دو دن کی بیاہتا پیٹ سے تھی اور آنے والا بچہ دنیا میں آنے سے پہلے ہی یتیم ہو چکا تھا۔
سولہ دسمبر 1971 کو ملک دو لخت ہوا اور میں یعنی شہباز علی ولد نثار علی اسی سیاہ رات تولد ہوا. کیسا محروم بچہ جس کی پہلی چیخ میں اس کی ماں اور دادی کی آہ و بکا بھی شامل تھی.
اب میری عمر پچاس سال ہے. دادی بیس سال پیشتر ہمارا ساتھ چھوڑ گئی مگر اس نے دادا اور ابا کو میری آنکھوں میں مجسم کر دیا تھا. میں ابا کو محسوس کرتا ہوں، گو کہ میں نے انہیں کبھی نہیں دیکھا. ہاں فوج کی طرف سے آیا وہ خط، جس میں ابا کی شہادت کی اطلاع تھی اسے اماں نے ہمیشہ تعویذ جاں رکھا اور وہ اب بھی بہت حفاظت سے میرے پاس موجود ہے. اماں کی شدید خواہش تھی کہ وہ تو نہیں جا سکی مگر میں ایک دفعہ ابا سے ضرور مل آؤں. سو آج یہی حسرتوں کا سفر درپیش ہے. پچاس سال بعد سپاہی نثار علی کی قبر پر اس کا کوئی اپنا آئے گا.
کیا ابا مجھے پہچان لے گا؟
مجھے اماں نے ابا کے پندرہ کے پندرہ خط پڑھوائے تھے. وہ خطوط کب تھے، وہ تو آتش عشق سے سوختہ کسی عاشق کی کتھا تھے. شروع کے خطوط محبت سے لبریز تھے. اس خط، جس میں اماں نے ابا کو باپ بننے کی خوشخبری دی تھی، اس کے جواب میں ابا نے بے پناہ خوشی کا اظہار کیا تھا اور اماں سے کہا تھا کہ اگر لڑکا ہو تو نام شہباز علی اور لڑکی ہو تو نام مریم علی رکھنا. پھر ان خطوط کا رنگ بدلتا گیا اور ان خطوط میں محبت کا رنگ مدھم اور وطن کی بقا کی فکر زیادہ جھلکنے لگی. آنے والی کالی آندھی کو ابا کے دل نے محسوس کر لیا تھا اور اب ان کے خطوط میں مستقبل کی پلاننگ کم سے کم ہوتی جا رہی تھی.
بےشک شہادت بہت بڑا رتبہ ہے مگر شہیدوں کی بیوائیں اور بچے بھی گوشت پوست کے بنے ہوئے انسان ہی ہوتے ہیں جو مچلتے جذبات بھی رکھتے ہیں. ساری زندگی وہ ایک ٹین کی پیٹی اور ایک تعریفی خط یا اعزاز و اسناد کے ساتھ نہیں گزار سکتے کہ بیوہ پر موسم بھی شدت سے حملہ آور ہوتا ہے اور بچے کو بھی زندگی کے اسرار سمجھنے کے لیے باپ کی ضرورت ہوتی ہے. عید گاہ جاتے ہوئے وہ بچہ بھی بچھڑے باپ کی انگلی پکڑنے کے لیے بلکتا اور نماز عید کے بعد باپ سے گلے ملنے کو ترستا ہے. میرا سارا بچپن اکلاپے کے نظر ہو گیا تھا. مجھے دو ماؤں نے مل کر پالا، جن کو میں نے ہنستے بہت کم اور روتے بہت زیادہ دیکھا تھا.
اماں کو میرے بچے دیکھنے کا بہت شوق تھا، سو اس نے جلد ہی میری شادی کرا دی، دادی اپنا پہلا پڑ پوتا دیکھ کر خلد آشیاں ہوئیں. میں پنڈی میں راجا بازار کے قریب رہتا ہوں اور راجا بازار میں آڑھتی ہوں. اماں بڑا تڑپتی تھی کہ کسی طرح ایک بار جاکر ابا کو دیکھ آئے. مجھ میں ہمت نہیں تھی کہ جس زندہ انسان کا خاکہ میرے ذہن نے بنا لیا ہے، اس کی قبر دیکھ کر اس کو مردہ مان لوں کہ میں نے اپنی خیالی دنیا میں ابا کو زندہ رکھا ہوا تھا.
اماں اب ستر کے پیٹے میں ہے اور وہ منہ سے تو کچھ نہیں کہتی مگر اس کی آنکھیں ہر پل سوالی رہتی ہیں، سو میں ان کا جواب لینے کے لیے اسلام آباد سے دوبئی اور دوبئی سے ڈھاکہ پہنچا ہوں. ڈھاکہ جیسا کہ ابا نے خط میں لکھا تھا، ویسا ہی سرسبز ہے پر جانے کیوں مجھے سبزے پر لالی غالب لگی.
میں آج دوپہر بنانی آرمی قبرستان گیا. وہ قبرستان ایک اجاڑ ویرانہ ہے. یہاں وہ لوگ سپرد خاک تھے جو جانے کتنی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور تھے پر یہ اُجاڑ قبرستان مضطر خیر آبادی کے شعر کی تفسیر تھا
پئے فاتحہ کوئی آئے کیوں، کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
کوئی آ کے شمع جلائے کیوں، میں وہ بےکسی کا مزار ہوں۔۔۔
میں نے مین گیٹ کے کنارے کھڑے ہو کر اہل قبور کے لیے فاتحہ پڑھی پھر ابا کی قبر ڈھونڈنی شروع کی. خلاف توقع مجھے ابا کی قبر جلدی ہی مل گئی اور میں حیران رہ گیا کہ ان کی قبر نسبتاً بہتر حالت میں تھی. ایسا لگتا تھا، جیسے کوئی وہاں آتا رہتا ہے کہ قبر پر باسی پھول تھے اور سرہانے بجھے چراغ میں تیل اور سلگ کر بجھی اگربتیاں.
اگلے دن جمعرات تھا اور میں ناشتا کرتے ہی قبرستان چلا آیا۔ جب میں ابا کی قبر پر پہنچا تو میں نے وہاں ایک بہت بوڑھی عورت کو دیکھا، جو لاٹھی کے سہارے چل رہی تھی اور اس قدر جھکی ہوئی تھی، جیسے حالت رکوع میں ہو۔ میرے قدموں کی چاپ پر اس نے سر اٹھا کر مجھے دیکھا اور میرا خیر مقدم ایک بے ریا مسکراہٹ سے کیا۔
یہ بنگلہ دیش کی پہلی مسکراہٹ تھی۔
”بہت دیری کیا آنے میں بابو“
بوڑھی اماں نے لرزتی آواز میں کہا
پتہ نہیں یہ سوال تھا یا اظہار خیال، سو میں نے خاموشی میں عافیت جانی۔ میں ابا کی قبر پر فاتحہ پڑھنے لگا اور وہ بوڑھی اماں پاکستان کے دوسرے شہدا کی قبروں کی صفائی اور پھول بچھانےاور اگربتی سلگانے میں مصروف ہو گئی۔ سچی بات ہے کہ میں اس کی وجہ سے کچھ بے آرام ہو گیا تھا۔ دو گھنٹے کے بعد جب وہ واپس جانے لگی تو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے اور وہ کیوں ان قبروں کی دیکھ بھال کر رہی ہے کہ یہ سب تو اس کے دشمن تھے؟
وہ جیسے تڑپ اٹھی، دشمن کیوں یہ تو میرے اپنے ہیں۔
اس نے بے قراری سے کہا
”یہ سب تو میرے جمال اسلام ہیں ، بالکل میرے اپنے۔ میرا بیٹا جمال اسلام جو پاکستان آرمی میں صوبے دار تھا وہ اکہتر کی جنگ میں مغربی پاکستان میں شہید ہو گیا تھا ۔ اس کا مدفن پنڈی میں آرمی کا قبرستان ہے۔“
سقوط مشرقی پاکستان کے بعد ہم بنگالیوں کے لیے مغربی پاکستان میں کوئی جگہ نہیں تھی لہٰذا نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے، میری بہو اور دونوں پوتوں کو مغربی پاکستان سے ہجرت کرنی پڑی۔ بدقسمتی دیکھو ہم لوگ بنگلہ دیش یعنی اپنی ہی جنمو بھومی میں بھی نا قابلِ قبول کہ میرا بیٹا پاکستان آرمی کا شہید تھا۔ ہم یہاں بھی غدار گنے جاتے ہیں اور مغربی پاکستان بھی ہمیں اپنانے کو تیار نہیں تھا کہ ہماری محب وطنی مخدوش تھی۔ یہاں بنگلہ دیش میں ہمیں جمال اسلام شہید کا پاکستان آرمی کی طرف سے ایک پیسہ بھی نہیں ملا کہ ہم لوگ اب سرے سے پاکستانی ہی نہیں۔ ارے جو بہاری یا غیر بنگالی لوگ بنگلہ دیش بننے کے بعد پاکستان گئے وہ کم از کم اپنے جانی اور مالی نقصانات پر کھل کے رو تو سکتے ہیں، مشرقی پاکستان کو ڈنکے کی چوٹ پر یاد تو کر سکتے ہیں۔ ہم حرماں نصیب تو کھل کر اپنے شہید بیٹے کو یاد بھی نہیں کرسکتے۔ ہم وہ بد نصیب ہیں جو اب کراچی،ملتان اور واہ کا نام بھی اپنی زبان پر نہیں لا سکتے ، آہ بھی نہیں بھر سکتے۔
بولو ہم کس سے منصفی چاہیں اور کس کے دروازے پر اپنا رونا روئیں ۔ میری بہو اور دونوں پوتا امریکہ چلے گئے ہیں اور اب امریکہ ہی ان لوگوں کا ملک اور شناخت ہے۔ یہاں میرے پوتوں کو نوکری نہیں ملتی تھی کیونکہ ان کا باپ پاکستان آرمی میں تھا ۔ بہو اور پوتوں کے امریکہ جانے کے بعد ہم نے بیریسال میں اپنا پشتئنی مکان بیچ دیا اور ادھر ڈھاکہ آ گئے۔ ہم ہر جمعرات کو اس قبرستان میں آتے اور مقدور بھر صفائی ستھرائی کر دیتے ہیں۔ فاتحہ پڑھنے کے بعد کچھ دیر ان لوگوں سے باتیں کر لیتے ہیں کہ ان کا دل بھی لگا رہے اور میرے سینے کا بوجھ بھی ناسور نہ بنے ۔ بتاؤ کیا یہ ظلم نہیں کہ ان کو یہاں ان کے پیاروں سے دور دفنا دیا گیا؟
سب کے کتبے پڑھو، کوئی پنڈی سے تو کوئی مظفرآباد سے اور کوئی کراچی سے ہے۔ سب اپنوں سے دور اور اپنوں کی چاپ کے لیے ترستے ہوئے ۔ میرا جمال اسلام بھی بجائے بیریسال کے پنڈی میں دفن ہے اور میں وہاں جا نہیں سکتی۔
شروع میں تو مغربی پاکستان کے شہدا فضائی راستے سے مغربی پاکستان بھیجے جاتے تھے اور اسی طرح بنگال کی سرزمین کے شہداء مشرقی پاکستان بھیج دیئے جاتے تھے مگر جون کے مہینے سے جب شہداء کی تعداد بڑھنے لگی تو چیف آف جنرل اسٹاف نے فرمایا کہ
"مردہ بےکار ہے خواہ وہ مشرقی پاکستان میں ہو یا مغربی پاکستان میں”
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی،
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔۔
اب ماؤں ،بیویوں اور بیٹیوں کی تڑپ چیف آف جنرل اسٹاف کیا جانے؟
یحییٰ خان کو یہ کون بتائے کہ یہ مردہ جسدِ خاکی بھی ماؤں کے لعل، بیواؤں کے سہاگ اور بیٹیوں کی امان اور خوشیاں ہیں۔
ہم یہاں ان بیٹوں کی خبر گیری کرتے ہیں اور اللہ سے امید رکھتے ہیں کہ وہاں کوئی دکھیا ماں بہن میرے جمال اسلام کی بھی دیکھ رکھ کرتی ہو ۔
میں سکتے کی سی کیفیت میں اس بلکتی
ماں کی فریاد و حسرت سن رہا تھا۔ میں یہ بھی نہ کہ سکا کہ اماں تمہارا جمال اسلام تو پھر بھی اپنی سرزمین اور اپنوں میں ہے۔ میرے باپ کی بےکسی دیکھو کہ وہ اپنی زمین پر اپنے فرائض نبھاتے ہوئے نثار ہوا مگر اب نہ یہ زمین اس کی ہے اور نہ ہی یہ لوگ اس کے اپنے ۔
کیسی عجیب بات ہے کہ ایک کھینچی گئی لکیر کتنا بڑا فرق ڈال دیتی ہے۔ واقعی لکیریں بھی کمال ہوتی ہیں۔ زمینوں پر کھنچ جائیں تو سرحدیں اور دلوں میں در آئیں تو فاصلے اور دراڑیں۔ ہمارے لیے ہمارا راشد منہاس شہید اور مطیع الرحمان غدار اور بنگلہ دیشیوں کے لیے مطیع الرحمان عظیم ہیرو ہے۔ ہمارے شہید فوجی ہمارے ہیرو اور بنگالیوں کے نظر میں غاصب۔ جو لکیر کے ادھر وہ دوست جو لکیر کے اس طرف وہ دشمن یا غدار۔۔
مگر میں اس بوڑھی اماں سے کچھ بھی نہ کہہ سکا اور برستی آنکھوں سے اماں کے دونوں ہاتھوں کو چوم کر آنکھوں سے لگا لیا ۔ اماں بھی شاید آج مدت سے کرتا ضبط ہار گئی تھی کہ قبرستان میں ہم
دونوں کی گھٹی گھٹی آہیں بین کرتی ہوئی ہواؤں کے ساتھ مل کر جیسے ہم دونوں کو ہمارے پیاروں کا پرسہ دے رہی تھی۔