نو آبادیاتی نظام Colonialism کے بارے میں یہ خوش گمانی عرصہ ہوئی دور ہو چکی کہ محکوم ممالک کو آزادی ملنے کے ساتھ اس کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ اس کا ثبوت پوسٹ کولونیلزم، نیو کولونیلزم، ڈجیٹل کولونیلزم اور ہائپر کلونیلزم جیسی اصطلاحات کا وہ استعمال ہے جو نو آبادیات کے بہ ظاہر خاتمے کے بعد شروع ہوا
نوآبادیات یا استعماریت کے بارے میں ایک بات تو طے ہے کہ آج دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں ہے کہ جس نے کسی نہ کسی حیثیت میں اس کا تجربہ نہ کیا ہو۔ ہر ملک اور ہر خطہ یا تو محکوم (colonize) رہا ہے یا پھر استعمار گرد (colonizer) ۔ جنگ عظیم دوم کے بعد دنیا کے طول و عرض پر پھیلے استعماری نظام کی بساط انیس سو سینتالیس میں ہندوستان کی آزادی کے ساتھ لپٹنا شروع ہو گئی تھی۔ تاہم استعماریت کے مکمل خاتمے کا سلسلہ آج کی تاریخ تک بھی مکمل نہیں ہو سکا۔ دنیا کے بعض خطے آج بھی قابضین سے آزادی کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ کشمیر، فلسطین، تبت اور سری لنکا کے تامل علاقوں میں آج بھی آزادی کی تحریکیں جاری ہیں اور وقتاً فوقتاً ان میں تیزی آتی رہتی ہے۔ گو آزادی کی ان تحریکوں کی کامیابی کے امکانات دن بدن مخدوش ہوتے جا رہے ہیں مگر آزادی کی ان تحریکوں کو تاحال مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکا۔ ان تحریکوں کے دوبارہ زندہ اور کامیاب ہونے کے خدشات اور امیدیں بہرحال موجود ہیں۔ آزادی کی ان تحریکوں اور ان کی کامیابیوں کی مٹتی بندھتی امیدوں کے درمیان جن تجزیہ نگاروں کے چہرے مسلسل روشن رہتے ہیں ان میں ایک چہرہ فرانز فینون کا بھی ہے
فرانز فینون کو اپنی وفات (1961) کے ساٹھ سال بعد بھی مغرب میں چلنے والی تحریکوں مثلاً: ”بلیک لائیوز میٹر“ اور یونیورسٹیوں میں ہونے والے تحقیقی کام میں یاد رکھا جاتا ہے۔ یہی نہیں اس کی ہر چھوٹی سے چھوٹی بات کا تجزیہ کیا جاتا ہے، جو اس نے اپنی کتابوں کے ضمنی مباحث میں شامل کی ہے۔ نیز دنیا کے کئی محققین نے فینون کے کام کے اپنے معاشروں میں اطلاق کے امکانات کا جائزہ لیا ہے تو پاکستان کے تعلیمی اداروں میں بھی فینون کا مطالعہ لازم ہو جاتا ہے
زیرِ نظر تحریر فینون کی آخری کتاب (افتادگانِ خاک) کی اشاعت اور اس کی وفات کے ساٹھ سال بعد اس امر کا جائزہ لینے کے لیے لکھی جا رہی ہے کہ استعمار کے بارے میں ان کے نظریات ہماری موجودہ صورت حال کو سمجھنے میں کس حد تک مدد فراہم کرتے یا کر سکتے ہیں؟ استعمار کی تفہیم کی جو بنیادیں فینون نے فراہم کی تھیں، کیا ساٹھ برس کے بعد ان بنیادوں پر محکومین ( Colonized) کے لیے کوئی رہنما اصول مرتب کیے جا سکتے ہیں اور استعمار کے خلاف جدوجہد میں مصروف طبقات آج کس حد تک فینون سے استفادہ کر سکتے ہیں؟ یہ امر بہرحال سامنے رہے کہ بنیادی طور پر فینون کے کام کا یہ ایک نفسیاتی مطالعہ ہے، تاہم فینون کے کام کی طرح اس مطالعے میں سیاسی اور اقتصادی حوالوں سے اجتناب ناممکن ہے
ماہرین کے لیے ایک عام موضوع فینون کے نظریاتی پس منظر کے تعین کا رہا ہے۔ امریکی ماہر عمرانیات عمانوئیل والرسٹائن نے کہا تھا کہ بعض لوگوں کے نزدیک فینون ایک مارکسسٹ فرائیڈین تھا۔ جبکہ بعض کے خیال میں وہ ایک فرائیڈین مارکسسٹ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ فینون کے سارے نظریات اور کوششوں کا مرکز بجا طور پر انقلاب کو ٹھہرایا جا سکتا ہے (Willerstein، 2000 )۔ اس بات کو اگر درست بھی مان لیا جائے تب بھی نظریاتی طور پر اس کا بہت سے دیگر مفکرین سے متاثر ہونا بہت واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ کارل مارکس، سگمنڈ فرائیڈ، ژاک لاکان، اور ژاں پال سارتر کے وجودی نظریات کا اس کے کام پر اثر نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ فرانز فینون ہی کیا کسی بھی اہم مصنف پر دیگر مفکرین کے نظریات کے اثرات کا تعین قاری کا اپنا مطالعہ بھی کرتا ہے۔ ایک صاحب مطالعہ قاری مصنف پر بہت سے ایسے مفکرین کے اثرات بھی کھوج نکالتا ہے جو ایک کم مطالعہ قاری شاید تلاش نہ کر سکے
ڈاکٹر فرانز عمر فینون 25 جولائی 1925ء کو پورٹ دی فرانس کے دارالحکومت مارٹینیک (Martinique) میں پیدا ہوئے۔ مارٹینیک غرب الہند کے جزائر میں واقع فرانس کے زیر تسلط ایک علاقہ ہے۔ مارٹینیک پر فرانس کا تسلط 1635ء سے آج تک قائم ہے اور یہاں کے باشندوں کو فرانس کے شہریوں جیسے حقوق حاصل ہیں
آٹھ بہن بھائیوں پر مشتمل فینون کا سیاہ فام خاندان اپنے علاقے کے دیگر سیاہ فام افراد کے برعکس مالی طور پر خوش حال تھا۔ فینون کے والد ایک کسٹم افسر جبکہ والدہ کاروبار کرتی تھی۔ فینون کی ابتدائی زندگی کی تفصیلات 12 H۔ A۔ Bulhan ( 1985 ) ، David 20 ) اور Macey اور فینون کی ایک رفیق کار Alice Cherky کی تحریر کردہ سوانح عمری سے لی گئی ہیں) اپنے لڑکپن ہی سے فینون کا زیادہ تر وقت کھیل کود کی بجائے اپنے شہر کی لائبریری میں گزرتا تھا۔ فرانسیسی فلسفے اور ادب کا اولین ۔مطالعہ غالباً اسی لائبریری میں کیا گیا ہوگا۔ دوسری جنگ عظیم کے ساتھ ہی فینون نے سیکنڈری سکول میں داخلہ لیا۔ بلحان (1985ء) کے مطابق اس وقت مارٹینیک کے صرف چار فیصد سیاہ فام بچے سیکنڈری اسکول کی فیس ادا کر کے یہ تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہوتے تھے۔ باقی سیاہ فام بچوں پر پرائمری اسکول کے بعد تعلیم کے دروازے عموماً بند ہو جاتے تھے۔ فینون کا سیکنڈری اسکول جنگ عظیم دوم کے سبب بند کر دیا گیا اور اور فینون اور اس کے بھائی جوبی Jobby کو واپس اپنے گھر آنا پڑ گیا۔ جون1940ء میں فرانس نے ہتھیار ڈالے اور ان کے آبائی شہر مارٹینیک پر مارشل فلپ پیٹین ( Philip Petain) کی فوج کا قبضہ ہو گیا۔ مارٹینیک کو دنیا سے کاٹ کر رکھ دیا گیا۔ فنون کے سوانح نگاروں کے مطابق اس قبضے کے دوران پہلی مرتبہ اس نے اور مارٹینیک کے دیگر سیاہ فام افراد نے نسل پرستی کو شدت سے محسوس اور تجربہ کیا۔ وہ اپنے دیگر ہم وطنوں کی طرح کسی خفیہ طریقے سے مارٹینیک سے نکلنے میں کامیاب ہوا اور جنگ میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے اس نے فرانسیسی فوج میں شمولیت اختیار کرلی۔ مارشل پیٹین کا مارٹینیک پر قبضہ چھ ماہ سے زیادہ برقرار نہ رہ سکا اور اس طرح فینون زیادہ دیر تک گھر سے دور نہ رہا۔ فینون1944ءتک فرانسیسی فوج کے تربیتی یونٹ کا ممبر رہا تاوقتیکہ یہ یونٹ الجیریا منتقل کر دیا گیا۔ فینون کے الجیریا میں قیام نے اس کو استعماریت ( Colonialism) کو پہلی مرتبہ قریب سے دیکھنے اور اس کا مشاہدہ کرنے کا موقع فراہم کیا ہو گا۔ گو اس سے پہلے وہ مارٹینیک میں مارشل پیٹن کی فوج کے نسل پرستانہ رویوں کا سامنا کر چکا تھا۔ مگر الجیریا میں جاری استعماریت کے مشاہدے نے اس پر دیرپا اثرات مرتب کیے۔ ان دونوں تجربات میں ایک بنیادی فرق قابل توجہ ہے۔ مارٹینیک میں نسل پرستانہ رویوں کا نشانہ فینون اور دیگر سیاہ فام افراد تھے لیکن الجیریا میں خود اس نے استعماریت کا سامنا نہیں کیا بلکہ اپنے سامنے دوسروں کو استعماریت کا نشانہ بنتے ہوئے دیکھا۔ اس مشاہدے نے اس کی زندگی بھر کی جدوجہد کی سمت متعین کردی۔ نسل پرستی (Racism) اور استعماریت فینون کے پورے کام میں دو متوازی تصورات کے طور پر دیکھے جا سکتے ہیں
الجیریا میں فینون کا قیام اگرچہ طویل نہیں تھا مگر یہاں پر ہونے والے تجربات اور مشاہدات نے اس کے سارے کام کے لیے گویا ایندھن کا کام کیا۔ 1945ءمیں فوج کی سروس کے بعد وہ گھر لوٹا اور اپنی سیکنڈری اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1946ءمیں لیون (Lyon ) کے میڈیکل کالج میں اس نے طب کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ اپنی تعلیم کے دوران ہی میں ایک سفید فام خاتون مشیل (Michelle) کے ساتھ اس کا تعلق استوار ہوا اور اس تعلق کے نتیجے میں ان کی بیٹی مائرل (Mireille) پیدا ہوئی۔ تاہم بیٹی کی پیدائش بھی اس تعلق کو شادی میں تبدیل نہ کر سکی اور یہ تعلق جلد ہی ختم ہو گیا۔ اس کے ختم ہوتے ہی ایک اور سفید فام خاتون جوزی (Josie) فینون کی زندگی میں آئی اور1952ءمیں ان دونوں نے شادی کرلی۔ یہ شادی فینون کی وفات تک قائم رہی۔ اس شادی سے ایک بیٹا اولیور (Olivier ’s) پیدا ہوا۔ فینون کی بیٹی اور بیٹا آج تک فینون کے کام اور نظریات کی اشاعت اور ترویج میں مصروف ہیں
طب کی تعلیم کے دوران میں فینون طب نفسی (سائکائٹری) کی جانب متوجہ ہوا۔ لیون میں فینون کو اس شعبے میں اپنی مہارت اور مطالعے میں اضافے کے وہ مواقع میسر نہیں آئے جن کی اس کو تلاش تھی۔ تاہم اس نے کامیابی سے اپنی تعلیم مکمل کی جس کے بعد وہ اپنے وطن مارٹینیک پہنچا جہاں اس نے ایک طبیب کی حیثیت سے کام کرنا شروع کر دیا۔ یہاں کام کرتے ہوئے اسے پہلی مرتبہ یہ احساس ہوا کہ ادویات یہاں کے باشندوں کو وہ راحت، صحت اور شفا فراہم نہیں کرتیں جن کی انھیں ضرورت ہے۔ اپنے ان مشاہدات کو اس نے ”سیاہ فام افراد کے روزمرہ تجربات“ کے نام سے قلم بند کیا۔ یہ تحریر آج فینون کی پہلی کتاب ”سیاہ جلد سفید نقابBlack Skin، White Maskکے پانچویں باب میں“ سیاہ فامی کی حقیقت ”کے عنوان سے موجود ہے۔ فینون جلد ہی مارٹینیک سے فرانس پہنچا جہاں اس نے پروفیسر فرانسس ٹوسکویل (Francis Tosquell ) کے زیر نگرانی سائکائٹری میں اپنی تربیت کا آغاز کیا۔ اپنی تربیت کے دوران میں اپنے نگران پروفیسر کے ساتھ لکھی گئی اس کی تحاریر شائع ہوئیں لیکن اس کا اپنا مضمون“ شمالی افریقہ کا مرض ”ان خیالات کا بہتر پتا دیتا ہے جو اس وقت اس کے ذہن میں پل رہے تھے۔ یہ تحریر ان کی کتاب“ افریقی انقلاب کی جانب ”میں پہلے باب کے طور پر شامل ہے
فرانس میں سائکائٹری کی اپنی دو سالہ تربیت مکمل کرنے کے بعد اس نے الجیریا کے صوبے بلائڈا (Blida) کے صدر مقام میں موجود ایک ہسپتال میں ذہنی صحت کے وارڈ کے سربراہ کی حیثیت سے ملازمت شروع کی۔ اس طرح استعماریت کے جن اثرات کا مشاہدہ اس نے ایک فوجی کی حیثیت سے کیا تھا اب انھی اثرات کو اس نے ذہنی مریضوں پر ایک ماہر طب نفسی کی حیثیت سے زیادہ قریب، زیادہ مہارت اور علم کے ساتھ دوبارہ دیکھا
بلائڈا کا شہر دو واضح حصوں میں تقسیم تھا۔ ایک حصہ میں یورپین باشندے یعنی استعمار گرد ( Colonizer) رہتے تھے جبکہ دوسراحصہ غیر ترقی یافتہ تھا جو الجیریا کے عرب باشندوں کا مسکن تھا۔ میسی (Macey) کے مطابق بلائڈا کے اس حصے کو سیاہ فاموں کا علاقہ (Nigger Town) کہا جاتا تھا۔ بلائڈا کے ہسپتال میں فینون نے وہاں کام کرنے والوں کا عوام کی جانب روا رکھے جانے والا سلوک اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ یہ انتہائی مالدار ڈاکٹر تھے جو ادویات کی جگہ نمکین پانی کی بوتلیں عرب باشندوں کو دوا کے طور پر استعمال کراتے تھے۔ ان مریضوں کے لیے فینون نے علاج کے لیے نئے نئے طریقے استعمال کرنا شروع کیے، جن کا اندازہ طب کے موضوعات پر اس کی تحریروں سے لگایا جاسکتا ہے۔ ان میں علاج کے کئی نئے نفسیاتی طریقے اور نئی ادویات پر کیے گئے تجربات بھی شامل تھے۔ 1954ءمیں فینون کے بلائڈا ہسپتال میں کام شروع کرنے کے کچھ ہی عرصے کے بعد الجیریا کی جنگ آزادی کا آغاز ہوا۔ 1955ءمیں نیشنل لبریشن فرنٹ (NLF) نے فرانسیسی استعماریت کے خلاف جس چھاپہ مار جنگ کا باقاعدہ آغاز کیا تھا اس کے جواب میں فرانسیسی حکومت نے پورے الجیریا میں ہنگامی صورت حال کا اعلان کر دیا۔ یہ وہ وقت تھا جب فینون نے این ایل ایف کے ساتھ جذباتی وابستگی کو محسوس کرتے ہوئے ان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ یہ وابستگی شاید سرکاری ملازمت کے سبب خفیہ رہی مگر 1956ءکے بعد فینون نے سرکاری ملازمت سے استعفی دے کر این ایل ایف کے لیے کھل کر اپنی حمایت کا اعلان کر دیا۔
این ایل ایف کی جنگ آزادی کے جواب میں فرانسیسی حکومت کا ردعمل بہت ہی ظالمانہ، قتل وغارت گری اور جسمانی اور نفسیاتی ایذا رسانی سے عبارت تھا۔ فینون نے اس غیر انسانی سلوک کے نفسیاتی اثرات کا ایک ماہر طب نفسی کی حیثیت سے مشاہدہ کیا۔
1956ءمیں جنگ آزادی کے شروع ہوتے ہی الجیریا کے فلسفی مالک بن نبیMalek Bennabi ( 1905ء۔ 1973ء) کی مشہور کتاب Vocation of Islam شائع ہوئی۔ اس کتاب میں بن نبی نے اپنا مشہور تصور (Colonizability) پیش کیا۔ برطانوی مصنف ضیاء الدین سردار نے اس کتاب کی اشاعت کا ذکر ”سیاہ جلد، سفید نقاب“ کے تعارف میں خاص طور پر کیا ہے۔ بن نبی کے مطابق مسلم معاشروں میں ثقافتی اور علمی ترقی کا راستہ چھوڑ دینے کی روایت نے استعمار کو ایک تاریخی ضرورت بنا دیا تھا۔ بن نبی کے مطابق استعماریت کے لیے زرخیز معاشروں میں موجود مسائل استعماریت کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتے بلکہ ان معاشروں میں موجود علمی اور ثقافتی انحطاط ان معاشروں کو استعماریت کے لیے ایک ترنوالا بنا دیتا ہے۔ گو فینون اور بن نبی ہمعصر تھے لیکن وہ ایک دوسرے سے کبھی نہ ملے۔ اس کی وجہ بن نبی کا1963ء تک قاہرہ میں قیام پذیر ہونا رہا ہو گا۔ تاہم ان دونوں کے درمیان کسی قسم کی خط کتابت کا بھی کوئی حوالہ نہیں مل سکا۔ ایک ہی وقت میں ملتے جلتے موضوعات پر کام کرنے والے ان دو دانشوروں کے نظریات کا موازنہ دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا۔ ہماری رائے میں استعماریت کے بارے میں بن نبی کے خیالات کی ایک جھلک فنون کی ”سیاہ جلد، سفید نقاب“ میں تلاش کی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ فینون نے اپنے کسی تحریر میں بن نبی کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔ دوسرے یہ کہ اس نے کسی بھی ایسے نظریے کو مکمل طور پر رد کیا ہے جس میں استعماریت کے قیام کی کوئی بھی ذمہ داری محکومین پر ڈالی جا سکے
استعفیٰ دینے سے قبل فینون نے فرانسیسی فوج کے تشدد کی وجہ سے بلائڈا ہسپتال میں داخل ہونے والے ذہنی مریضوں کونہ صرف قریب سے دیکھا بلکہ ان میں سے چند مریضوں کی روداد مرضcase histories کو اپنی آخری کتاب افتادگان خاک (The wretched of the earth ) میں بیان بھی کیا ہے۔ فرانسیسی فوج کے ان مظالم اور ایف ایل این کے ساتھ اپنی وابستگی کی وجہ سے فینون نے اپنی ملازمت سے 1956ء میں استعفیٰ دیتے ہوئے جو خط لکھا وہ مضامین کے اس مجموعے میں شامل ہے جو اس کی وفات کے بعد ”افریقی انقلاب کی جانب“ ( Towards African Revolution ) کے نام سے 1964ءمیں شائع ہوا۔ اس نے بلائڈا ہسپتال کے چیف کے نام اپنے خط میں لکھا کہ ”الجیریا میں بہنے والا خون نہ تو کوئی سیاسی اسکینڈل ہے، نہ کوئی حادثہ اور نہ نظام میں در آنے والی کوئی خرابی۔ بلکہ یہ واقعات لوگوں کو محکوم بنانے کی ایک منظم کوشش کا نتیجہ ہیں“ (Fanon، 1964۔ p۔ 53 ) ۔ صرف چند دن تک جاری رہنے والے ان پرتشدد واقعات میں 40000 سے زائد الجیریائی باشندے مار ڈالے گئے تھے۔ استعفیٰ دینے کے فوراً بعد مارچ 1957 میں فینون خاموشی سے تیونس پہنچ گیا۔ میسی کے خیال میں یہ ایک انتہائی سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ تیونس سے ایک فرانسیسی زبان بولنے والے سائکاٹرسٹ کے لیے ایف ایل این کی مدد کرنا آسان اور ممکن تھا۔ ایف این این کے کئی اراکین الجیریا سے بھاگ کر اس وقت تیونس میں پناہ گزین تھے۔ ان کے باہمی اختلافات بھی زوروں پر تھے۔ تیونس کے وزیر صحت احمد بن صلاح کی مدد سے فینون نے منوبا ( Manooba) ہسپتال میں ایک سائکائٹرسٹ کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا۔ ساتھ ہی اس نے ایف ایل این کے اخبار ”المجاہد“ کے لیے لکھنا بھی شروع کر دیا۔ بعد ازاں اسے ایف ایل این کا بین الاقوامی ترجمان بھی مقرر کیا گیا۔ (Macy، 2012۔ ، Cheeky، 2006 )
اپنی وفات تک فینون تیونس ہی میں رہا۔ دسمبر 1960ء میں کرسمس کے بعد فینون نے اپنی صحت میں گراوٹ کو محسوس کیا۔ ناقابل برداشت تھکن اور وزن میں کمی کو دیکھتے ہوئے جب اس نے اپنے خون کے ٹیسٹ کروائے تو معلوم ہوا کہ وہ لیکویمیا کا شکار ہو چکاہے۔ (Cerky، 2006 ) ۔ اسی شام اس نے اپنے دوستوں کو بتایا اور کہا کہ میں اپنے ذہن سے اس بیماری کے خلاف لڑوں گا۔ بس تم میری بیوی اور بیٹے کا خیال رکھنا۔ خون کے مزید تجزیوں سے لیکویمیا کی ایک خطرناک قسم Myeloid Leukemia کی تشخیص ہوئی۔ علاج کے لئے تیونس میں مناسب سہولیات میسر نہیں تھیں۔ فرانس یا اٹلی جانا خطرے سے خالی نہ سمجھا گیا۔ برطانیہ، سویڈن یا سوئٹزرلینڈ کی بجائے روس کا انتخاب اس لیے کیا گیا کیونکہ وہاں لیکویمیا کے جدید اور موثر ترین علاج پر کامیاب تجربات کیے گئے تھے۔ جنوری1961ء کے وسط میں فینون ماسکو کے لیے روانہ ہوا چند ہفتوں کے موثر علاج کے بعد جب وہ تیونس لوٹا تو نسبتاً بہتر محسوس کر رہا تھا۔ مگر مجموعی طور پر وہ اپنے دورہ روس سے خاصا مایوس واپس آیا۔ روس کے ڈاکٹروں نے اس کے مزید پانچ سال زندہ رہنے کی پیش گوئی کی تھی۔ (جاری ہے)
بشکریہ: ہم سب
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)