بھارت میں حزبِ اختلاف کی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کے رہنما اور رُکن پارلیمان راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ ماہرین ملک بھر میں شروع کی گئی اس ’یاترا‘ کو آئندہ عام انتخابات میں کانگریس کو منظم کرنے کی ایک کوشش قرار دے رہے ہیں
انڈین نیشنل کانگریس کے پلیٹ فارم سے راہل گاندھی کی یہ پیدل یاترا 7 ستمبر کو جنوبی ریاست تمل ناڈو کے شہر کنیا کماری سے شروع ہوئی تھی۔ وہ اب تک تیرہ ریاستوں سے گزر چکی ہے اور اس نے ایک سو سے زائد دنوں میں تین ہزار کلومیٹر سے زائد کا سفر طے کر لیا ہے
پروگرام کے مطابق اسے تین ہزار پانچ سو ستر کلومیٹر کا سفر طے کرکے اگلے سال فروری کے پہلے ہفتے میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے سرینگر میں مکمل ہونا ہے
سولہ دسمبر کو اس یاترا کے سو دن پورے ہوئے۔ اس کی ابتدا ہی سے میڈیا میں اس پر مباحثے ہوتے رہے ہیں اور اب تازہ مباحث میں یہ جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کانگریس پارٹی اور راہل گاندھی کی ساکھ اور بھارت کی سیاست پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے یا ہو رہے ہیں
اس سلسلے میں مین اسٹریم میڈیا میں کم لیکن سوشل میڈیا میں زیادہ گفتگو ہو رہی ہے۔ اخبارات بھی بڑے پیمانے پر یاترا کو کور کر رہے ہیں۔ جبکہ کانگریس کے سینئر رہنماؤں کا ماننا ہے کہ یاترا نے پارٹی میں نیا جوش پیدا کر دیا ہے
اُن کا کہنا ہے کہ کانگریسی کارکن اپنے علاقوں میں راہل گاندھی کو دیکھ رہے ہیں، جس کی وجہ سے ان میں اعتماد پیدا ہو گیا ہے۔ ان کو لگنے لگا ہے کہ ان کے رہنما بھی سڑکوں پر آ سکتے ہیں۔ اس سے تنظیمی سطح پر پارٹی کو فائدہ پہنچا ہے اور پارٹی متحد ہوئی ہے
سروے کرنے والے ایک ادارے ’سی ووٹر‘ کے ایک سروے کے مطابق جن ریاستوں سے یاترا گزر رہی ہے، وہاں راہل گاندھی کی مقبولیت بڑھ رہی ہے۔ انہیں اب ایک پختہ کار اور سنجیدہ سیاستداں کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے
مختلف شعبوں میں سروے کرانے والے ایک معروف ادارے ’سینٹر فار دی اسٹڈی آف ڈیویلپنگ سوسائٹی‘ (سی ایس ڈی ایس) سے وابستہ ہلال احمد کہتے ہیں کہ یہ یاترا بھارت کی سیاست کا ایک بہت بڑا واقعہ ہے اور اس کی کئی مثبت باتیں ہیں
ہلال احمد کہتے ہیں ”اس یاترا سے راہل گاندھی کا امیج بدلا ہے۔ پہلے ان کا امیج ایک شہزادے والا تھا۔ اب لوگ ان کو سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں۔“
سروے کے مطابق اب یہ ثابت ہو گیا ہے کہ عوام تک پہنچنے کا ایک دوسرا راستہ بھی ہے۔ ان کے مطابق اب تک میڈیا کے رویے سے ایسا لگ رہا تھا کہ صرف بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ہی عوام تک پہنچنے والی پارٹی ہے اور لوگ صرف وزیرِ اعظم نریندر مودی ہی کی بات سنتے ہیں، اب یہ تاثر ختم ہو گیا ہے
ان کے خیال میں اب عوام کو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ بھارت کا جو نظریہ تھا، یعنی ’آئیڈیا آف انڈیا‘ اس پر گفتگو کی جا سکتی ہے۔ یہ کام راہل گاندھی نے کیا اور اس کے لیے ان کی ستائش کی جانی چاہیے۔ اس کے علاوہ یاترا نے سماجی تحریکوں کی سرگرم شخصیات کو ایک بار پھر پارٹی سے جوڑا ہے
یاد رہے کہ جب 2004ع میں جب کانگریس کی قیادت میں ’یونایئٹڈ پروگریسیو الائنس‘ (یو پی اے) قائم ہوا تھا، تو ا س وقت ’نیشنل ایڈوائزری کونسل‘ (این اے سی) بنائی گئی تھی۔ اس میں سماجی تحریکوں سے وابستہ افراد کو شامل کیا گیا تھا، لیکن بعد میں کونسل غیر فعال ہو کر رہ گئی۔ ان کے بقول یاترا نے اس منقطع رابطے کو بحال کر دیا ہے
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے ڈاکٹر ابھے کمار اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ”حالیہ برسوں میں کانگریس پارٹی اور راہل گاندھی کا امیج خراب ہوا تھا لیکن اب اس میں بہتری آ رہی ہے۔“
وہ کہتے ہیں ”راہل نے اپنی یاترا میں دلتوں، مسلمانوں، کمزور طبقات، خواتین، صحافیوں، سماجی کارکنوں اور زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کو شامل کیا ہے۔ آنے والے دنوں میں بھارت کی سیاست پر اس کے نمایاں اثرات نظر آئیں گے“
ایک سیاسی ریسرچر عاصم علی بھی اس بات سے متفق ہیں کہ ’آئیڈیا آف انڈیا‘ کو دوبارہ زندہ کیا گیا ہے۔ دیگر مبصرین کے مطابق سیکولرازم کانگریس کے سیاسی نظریے کی بنیاد تھا اور پارٹی ایک بار پھر اس بنیاد کی طرف لوٹ رہی ہے۔ راہل گاندھی بار بار اس نظریے کی بات کرتے نظر آتے ہیں
اہم بات یہ بھی نظر آئی کہ اس یاترا میں سرکردہ غیر سیاسی شخصیات اور عوام میں مقبول شخصیات بھی حصہ لے رہی ہیں۔ جن میں ریزرو بینک آف انڈیا کے سابق گورنر رگھورام راجن، مہاتما گاندھی کے پوتے تشار گاندھی، سپریم کورٹ کے سینئر وکیل پرشانت بھوشن، سماجی کارکن میدھا پاٹکر اور یوگیندر یادو، فلم اداکار امول پالیکر، پوجا بھٹ، ریا سین، سوشانت سنگھ، اسٹینڈ اپ کامیڈین کنال کامرا وغیرہ قابلِ ذکر ہیں
مبصرین کے مطابق ایسے بہت سے لوگوں نے بھی یاترا میں حصہ لیا، جو اس سے قبل کانگریس پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ لیکن اب ان کا خیال ہے کہ راہل گاندھی نے بھارت کے بنیادی نظریے کو زندہ کرنے کی کوشش کی ہے، ان کی حمایت کی جانی چاہیے
لیکن بہت سے مبصرین یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا اس یاترا سے کانگریس کو کوئی انتخابی فائدہ بھی ملے گا۔ کانگریس کے ذرائع کے مطابق یومیہ لاکھوں افراد یاترا میں شامل ہو رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یا لوگ کانگریس کو ووٹ بھی دیں گے؟
واضح رہے کہ یاترا کے دوران راہل گاندھی اپنی کئی پریس کانفرنسز میں یہ بات کہہ چکے ہیں کہ ان کی یاترا ووٹ کی سیاست کے لیے نہیں ہے اور نہ ہی یہ یاترا 2024ع کے پارلیمانی انتخابات کو ذہن میں رکھ کر دی گئی ہے۔ بقول ان کے وہ مبینہ نفرت کی سیاست کے خلاف اس سیاسی قوت کا مظاہرہ کر رہے ہیں
لیکن بعض سیاسی مبصرین ان کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت یاترا نکالے گی تو اس کا کوئی نہ کوئی سیاسی مقصد بھی ہوگا۔ ان کے مطابق چوں کہ راہل گاندھی بھی سمجھتے ہیں کہ 2024ع میں کچھ زیادہ بدلاؤ ہونے والا نہیں ہے اس لیے وہ یاترا کو اس سے جوڑنے سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں
ہلال احمد کہتے ہیں کہ یاترا کی بہت سی مثبت باتوں کے علاوہ کچھ منفی باتیں بھی ہیں۔ ان کے مطابق بھارت جوڑو تو کیوں جوڑو؟ ہندوتوا کو ہراؤ تو کیوں ہراؤ؟ بی جے پی حکومت کیوں بری ہے؟ ان سوالوں کے سلسلے میں کانگریس کی جانب سے کوئی پالیسی پیکج ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے
ان کا کہنا تھا کہ سیاست میں ایک چیلنجر ہوتا ہے اور دوسرا ڈیفنڈر یعنی دفاع کرنے والا۔ نریند رمودی ہمیشہ ایک چیلنجر کے کردار میں رہے ہیں۔ کانگریس کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ چیلنجر بننے کی صلاحیت سے ابھی تک عاری ہے
بلال احمد کے مطابق یاترا میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہو رہے ہیں لیکن اس سے کانگریس کو انتخابی فائدہ نہیں پہنچے گا، کم از کم 2024ع میں تو نہیں پہنچے گا۔ آگے اسے فائدہ مل جائے تو نہیں کہا جا سکتا
لیکن ابھے کمار کے مطابق اگلے سال کئی ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں اس یاترا کے اثرات کا مشاہدہ کیا جا سکے گا اور 2024ع کی تصویر بھی بدلے گی
کانگریس کے رہنما یہ دعویٰ نہیں کر رہے ہیں کہ اس سے 2024ع میں بی جے پی کو نقصان اور کانگریس کو فائدہ ہوگا۔ پارٹی کے جنرل سیکریٹری اور کمیونیکیشن انچارج اور پہلے دن سے ہی یاترا کے ساتھ چلنے والے جے رام رمیش کہتے ہیں کہ یہ صرف راہل گاندھی کی یاترا نہیں بلکہ پوری کانگریس پارٹی کی یاترا ہے اور اس میں 135 افراد شروع سے چل رہے ہیں
اُنہوں نے سینئر صحافی آشوتوش کے یو ٹیوب پروگرام ’آشوتوش کی بات‘ میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ یاترا کے کیا نتائج نکلیں گے، ہم نے نہ تو اس پر سوچا ہے اور نہ ہی دھیان دیا ہے
اُن کے بقول یہ طویل مدتی ایشو ہے۔ تاہم وہ یہ دعویٰ ضرور کرتے ہیں کہ اس سے پارٹی کارکنوں میں نیا جوش پیدا ہوا ہے۔