جنوبی بھارت کے شہر چنئی کی ایک گلی میں ارجن وشیواناتھن ہاتھ جوڑے ایک مندر کے سامنے ہندو مت کے دیوتا گنیش کی مورتی پر نظریں جمائے کھڑے ہیں
اس چھوٹے سے مندر میں صرف اتنی جگہ ہے، جس میں ہندو دیوتا گنیش کی مورتی کے بعد بمشکل پوجا کرانے والے پنڈت کے کھڑے ہونے کی جگہ بنتی ہے
آئی ٹی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ارجن وشوا ناتھن صبح سویرے مندر کے باہر بے چینی سے اپنی باری کا انتظار کرنے والے درجنوں افراد میں شامل ہیں۔ یہ سب ایک ہی مقصد کے لیے مندر آئے ہیں کہ امریکہ کے ویزا کے لیے انٹرویو میں انہیں کامیابی مل جائے۔ وشوا ناتھن کو بھی اگلے روز اپنی ملازمت کے ویزے کے انٹرویو کے لیے جانا تھا
یہاں ویزا کے امیدواروں کے جمع ہونے کی وجہ بھی یہی ہے۔ اس مندر کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں ویزا انٹرویو کے لیے آنے والوں کو کامیابی نصیب ہوتی ہے۔ اس مندر کا نام ہی ’شری لکشمی ویزا گنپتی مندر’ ہے اور یہ چنئی(سابق مدراس) کے ایئر پورٹ سے چند کلومیٹر کی دوری پر ہے
وشوا ناتھن کہتے ہیں ”دس برس قبل یہاں پوجا کرنے کے بعد میرے بھائی کو برطانیہ کا ویزا ملا تھا۔ جب کہ دو سال پہلے ان کی اہلیہ کو بھی اس مندر میں آکر پوجا کرنے کی وجہ سے امریکہ کا ویزا ملا۔ اس لیے میرا اعتقاد ہے کہ میں بھی اس مندر پر آنے کی وجہ سے اپنے ویزا انٹرویو میں کامیاب ہو جاؤں گا“
اس ’ویزا مندر‘ کو گزشتہ ایک دہائی کے دوران امریکی ویزے کے خواہشمند افراد میں تیزی سے مقبولیت حاصل ہوئی ہے، لیکن یہ اس طرح کا واحد مندر نہیں
رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق بھارت کے جس جس شہر میں امریکہ کا قونصلیٹ ہے، وہاں ایسے ’ویزا مندر‘ بن چکے ہیں۔ ایک دوسرے کی زبانی سن کر پھیلنے والی کامیابی کی داستانوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے ان مندروں کو ویزا کی کامیابی سے متعلق شہرت حاصل ہوتی ہے
گنپتی ویزا ٹیمپل سے ایک میل کے فاصلے ہی پر ’شری لکشمی نرسیمہا نوانیتھا کرشنن مندر‘ ہے، جہاں ہندو دیوتا ہنومان کی مورتی بھی رکھی ہے۔ ہنومان دیوتا کا ایک نام ’انجنیا‘ بھی ہے
اس مورتی کے بارے میں بھی وہاں لوگوں میں یہ اعتقاد پایا جاتا ہے کہ یہاں ویزا کے لیے پوجا کرنے سے کامیابی حاصل ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مورتی کو ’ویزا انجنیا‘ اور ’امریکی انجنیا‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے
طویل عرصے سے اس مندر کے سیکریٹری چلے آرہے جی سی سرینواسن کا کہنا ہے کہ اس مندر کو 2016 سے ’ویزا مندر’ کے طور پر شہرت ملی
وہ بتاتے ہیں ”ایک ماہ قبل ایک شخص کو انجنیا مورتی کے گرد عقیدت سے پھیرے لگاتے ہوئے ویزا منظور ہونے کی خبر ملی تھی۔“
ویزا کی مرادیں پوری ہونے سے شہرت پانے والے شری لکشمی ویزا گنپتی مندر کی دیکھ بھال موہن بابو جگن ناتھ اور ان کی اہلیہ کے پاس ہے۔ یہ مندر جگن ناتھ کے دادا نے 1987ع میں تعمیر کیا تھا
اس مندر کی تعمیر کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔ جگن ناتھ کا آبائی گھر، جس میں یہ مندر قائم ہے، ایک بند گلی کے آخری سرے پر ہے۔ بھارت میں گلی کے بند کنارے پر بنے گھروں کو منحوس سمجھا جاتا ہے، اس لیے چنئی میں اکثر ایسے گھروں کو برائی اور نحوست سے بچانے کے لیے وہاں گنیش مندر بنا دیے جاتے ہیں
جگن ناتھ کے دادا نے بھی اسی مقصد کے تحت یہ مندر بنایا تھا، جہاں صرف آس پڑوس کے لوگ ہی پوجا کے لیے آیا کرتے تھے
جگن ناتھ بتاتے ہیں ”گزشتہ چند برسوں سے اس مندر کی شہرت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ یہاں ویزا کی کامیابی کی آرزو لے کر آنے والوں کی مراد پوری ہوئی تو انہوں نے دوسروں کو بھی بتایا اور اس طرح شہرت بڑھتی گئی“
وہ بتاتے ہیں کہ 2009ع میں ان کے والد جگن ناتھ رادھا کرشنن نے اس مندر کی تعمیرِ نو کرا کر اس کے نام میں ’ویزا‘ بھی شامل کر دیا
جگن ناتھ کے مطابق ویزا میں کامیابی کی کہانی دل گرما دینے والی ہیں اور کئی مرتبہ لوگ ان کے پاس آ کر باقاعدہ شکریہ ادا کرتے ہیں
جگن ناتھ کی اہلیہ سنگیتھا کا کہنا ہے ”کئی بار بہت درد انگیز کہانیاں بھی سامنے آتی ہیں۔ ایک مرتبہ ایک بزرگ آٹھ سال بعد اپنے پوتے کو دیکھنے کے لیے ویزا کی خواہش لے کر مندر آئے تھے۔ اسی طرح ایک خاتون نے انہیں روتے ہوئے بتایا تھا کہ ان کی بیٹی کا ویزا مسترد ہو گیا تھا“
سنگیتھا کا کہنا ہے کہ سبھی کو کامیابی نہیں ملتی۔ کئی مرتبہ ویزا نہیں بھی ملتا۔ ان کے بقول ”بھگوان ہی جانتا ہے ایسا کیوں ہوتا ہے۔“
اپنی بیٹی کے ویزا کے لیے گنیش مندر پر پوجا کے لیے آنے والی مونیشا کنن کا کہنا تھا کہ جب ہم اپنی اولاد کے لیے دعا کرتے ہیں تو ان کے لیے آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں ”ہمارے بچے جب خود زندگی مشکلات سے گزرتے ہیں تو دعاؤں کی طاقت کو تسلیم کرلیتے ہیں۔“
امریکہ کے ویزا کی خواہش لے کر گنیش مندر آنے والے وشیواناتھن کا کہنا ہے کہ وہ پہلے ایسی باتوں پر یقین نہیں رکھتے تھے کہ مندر آنے سے کوئی کام بن جائے گا۔لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ یہاں آنے پر دس سال پہلے ان کے بھائی کو برطانیہ اور دو برس قبل ان کی اہلیہ کو امریکہ کا ویزا مل گیا تو ان کے دل میں بھی اس مندر کے بارے میں اعتقاد پیدا ہو گیا۔