دسمبر کے مہینے میں ایک عجیب سی اداسی چھائی رہتی ہے۔ خزاں کی رت سبز و شاداب پتوں سے نمی آور ہریالی کھینچ کر خشک، زرد اور بوڑھے ہو جانے والے پتوں کو غمگین درختوں سے آخری بار گلے ملنے کے لیے چھوڑ چکی ہوتی ہے جنہیں وقتاً فوقتاً، ہوا کا کوئی ہلکا سا جھونکا ٹہنیوں سے جدا کرتا ہوا آگے نکل جاتا ہے۔
پھر یہ مرتے ہوئے پتے زمین پر گرتے ہوئے یہ بھی نہیں جانتے کہ انہیں کب اور کس کس کے قدموں تلے چرمراتے ہوے رزقِ خاک ہو جانا ہے۔
یہ عین قدرت سہی لیکن ہے اداس کر دینے والا موسم!
ختم ہوتے ہوئے کیلنڈری سال کا احساس بھی دل میں عجیب ملال کا سرمئی رنگ بھرتا رہتا ہے۔ انٹرنیٹ کی دنیا سے پہلے کاغذی ڈائری لکھنے کے زمانے میں احمد ریاض نے کہا تھا؎
ختم ہوتی ڈائری، گرتے ہوے پتے ریاض
آگیا ماہ دسمبر، سال بوڑھا ہو گیا!
اب یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ ملال ختم ہوتے سال کے بڑھاپے کی وجہ سے ہے، سرد موسم کا اثر ہے یا ہمارے ملک میں پچھلے پچاس سال میں ہونے والے مختلف سانحات کا شاخسانہ ہے یا پھر ان سب کا ملا جلا ردعمل ہے۔
ویسے تو اس مہینے دنیا بھر میں کرسمس اور نئے سال کی رات کے جشن کا انتظار خوشی کے جذبات پیدا کرتا ہے لیکن پاکستان کے اندر کچھ سانحات کی تلخ یادیں پرانے لیکن گہرے زخم تازہ کرتی رہتی ہیں۔
اور سانحات بھی ایسے ویسے۔۔
چلیے دسمبر 1971 سے شروع کرتے ہیں۔ 16 دسمبر کو مشرقی پاکستان الگ ہو کر بنگلہ دیش بننے کی راہ پہ چل نکلا، ہتھیار ڈالنے کی ہزیمت نے زندہ دل قوم کو دل شکستہ کر دیا۔ 90 ہزار جنگی قیدی بھارت میں محصور ہو گئے تو بچے ہوئے ملک میں آزادی کے پرندے اپنے پروں میں دبک کے رہ گئے۔
سقوطِ ڈھاکہ کے ذمہ داران کے بارے میں جاننے والے اس زمانے کے چیف جسٹس آف پاکستان حمود الرحمٰن کی سربراہی میں تیار کیے گئے کمیشن کی رپورٹ پڑھ چکے ہوں گے اور جنہوں نے اب تک نہیں پڑھی، ان کو ضرورت ہو تو انٹرنیٹ کی دنیا کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
اس سانحے پر ہر کوئی اپنے طریقے سے اظہارِ خیال کرتا رہا ہے اور کیا کیجیے کہ شاعر بھی ہر موقع پر کچھ نہ کچھ کہتے رہتے ہیں اور مجھے وہ اس وقت یاد بھی آ رہے ہیں۔
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
فیض
وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے
وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے
ناصر کاظمی
ایک فکرمند طبقے کا دعویٰ ہے کہ ہم نے غم تو منایا، پرچم سر نگوں بھی کیا لیکن اس اندوہناک واقعے سے سبق نہیں لیا۔
رائیگاں ہی گیا وہ سانحہ جس کے غم میں
سرنگوں سوگ میں ہم کرتے رہے پرچم بھی
اب اسے خوفناک اتفاق کہیے یا بد قسمتی کا بارِ دگر حملہ کہ دوسرا بڑا سانحہ بھی 16 دسمبر کو ہی رونما ہوا گو کہ درمیان میں 43 سال کا وقفہ ہے۔ 16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک اسکول پشاور میں ہونے والا واقعہ محض لفظی طور پر ہی نہیں بلکہ حقیقتاً دلوں کو زخمی اور روحوں کو گھائل کرتا ہوا گزر گیا
وہ جو پیلی رت میں گھر سے صبح کے وقت اسکول پڑھنے گئے اور واپس نہیں لوٹے ان کے بچھڑنے کی یادوں کے غم سدا ہرے ہی رہیں گے۔ کہتے ہیں کہ چھوٹے تابوت سب سے زیادہ وزنی ہوتے ہیں جن کے بوجھ سے ماں باپ کے شانے مرتے دم تک بوجھل اور دل خالی پن سے بھرے رہتے ہیں۔
تیرے بعد نہیں اٹھتا یہ مجھ سے من کا بوجھ
کتنا بوجھل ہوتا ہے یہ خالی پن کا بوجھ
ان دو بڑے سانحات کے درمیان ایک اور واقعہ ایسا ہے جس نے پاکستان کی سیاسی تاریخ پہ گہرے اثرات چھوڑے اور جو دسمبر میں ہی رونما ہوا۔ 27 دسمبر 2007 کو ایک ایسی خاتون کی روح کو بدن کی قید سے آزاد کر دیا گیا جو اپنی ذہانت، جرات اور استقلال میں واقعی بےنظیر تھی
سچ ہے کہ کبھی کبھی کوئی گھڑی قبولِ دعا کی گھڑی ہوتی ہے۔ جب بے نظیر کا نام رکھا جا رہا تھا تو شاید وہ ایسا ہی وقت تھا جب منہ سے نکلی بات پوری ہو جاتی ہے۔ بے نظیر اپنی کٹھن زندگی کے ہر رنگ میں بے مثال ہی رہی۔ باپ کو جیل جاتے، پھانسی چڑھتے دیکھنے کا غم جھیلنے والی، مارشل لا کے خلاف سیاسی جدوجہد کے دوران بدترین ذہنی تشدد برداشت کرنے سے لے کر خوفناک جیل کی سختیاں جھیلنے والی اور پھر جلاوطنی کے باوجود ہار نہ ماننے والی آہنی اعصاب کی مالک عورت تھی جو دو بار ملک کی وزیراعظم رہی لیکن دونوں دفعہ حکومت سے زبردستی الگ کر دی گئی۔ل
کسی بھی سیاسی پارٹی اور وہ بھی کئی بار حکومت میں رہنے والی سیاسی پارٹی کے طرزِ حکومت اور نتائج سے اختلاف رکھنا عوام کا اور اپوزیشن کا جمہوری حق ہے لیکن منتخب جمہوری حکومتوں کو قبل از وقت اور بار بار اقتدار سے نکال باہر کرنے کا عمل ایسا ہے جس کا خمیازہ نہ صرف سیاسی نظام بلکہ ساری قوم بھگت رہی ہے
لیجیے پھر منظوم خیال آنے لگے۔ اس بار صحافی عباس اطہر کا نوحہ یاد آ گیا:
بھٹو دی بیٹی آئی سی،
انج جاں وی نذر چڑھائی سی،
سارے جگ وچ پئی دہائی سی،
بھٹو دی بیٹی آئی سی
ترجمہ: بھٹو کی بیٹی آئی تھی جس نے جان کا نذرانہ اس طرح پیش کیا کہ ساری دنیا میں دہائی مچ گئی۔
بات ہو رہی تھی دسمبر کے سانحات کی، تو کچھ اور غم بھی ہیں جن کی باز گشت اس موسم میں زیادہ صاف سنائی دینے لگتی ہے
26 دسمبر کو الگ الگ وقتوں میں اردو زبان کے دو نامور پاکستانی شاعر بھی ہمیں داغِ مفارقت دے گئے۔ پروین شاکر اپنی شہرت کے عروج پہ 42 سال کی عمر میں ایک حادثے کا شکار ہو گئیں اور 1994 میں سال کے آخری ہفتے میں سب کو اداس کر گئیں
ہمہ جہت اور جدا گانہ اسلوب کے شاعر منیر نیازی بھی اسی تاریخ کو 2006 میں جدا ہوئے اور مداحوں کو دل گرفتہ کر گئے۔ ان کی عمر 78 سال تھی
ان کے علاوہ بھی کچھ واقعات ہیں جو دسمبر میں یاد آتے ہیں تو ملال کا رنگ لے کر آتے ہیں لیکن پھر بھی دل چاہتا ہے کہ نیا موسم اپنے ہاتھوں سے پیلی رت کے ہرے زخم بھر دے
کس موسم کا رنگ بھرے
پیلی رت کے زخم ہرے
یقیناً زندگی آگے بڑھنے اور بہتر مستقبل کی امید رکھنے کا نام ہے لہٰذا نئے سال کی خوشیوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے دل میں اور لبوں پر یہی دعا ہے کہ آپ اور ہم سب کو آنے والا نیا سال بہت بہت مبارک ہو۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)