فرانز فینون: جائزہ اور افادہ، وفات کے ساٹھ برس بعد (5)

ڈاکٹر اختر علی سید

فینون کا یہ بیان اس کی کتاب کے زیر نظر باب سے میل نہیں کھاتا۔ میسی نے فینون کی تحلیل نفسی میں ناقص تربیت پر کئی سوال اٹھائے ہیں۔ لیون کے جس میڈیکل کالج میں فینون نے تربیت حاصل کی تھی وہاں تحلیل نفسی کا کوئی ماہر فیکلٹی میں نہیں تھا۔ تحلیل نفسی میں تربیت کے لیے ان دنوں پیرس یا جنیوا جانا پڑتا تھا۔ فینون نے مینونی کی طرح اپنے آپ کو تحلیل نفسی کے ذریعے تجزیے کے لیے کسی ماہر کے سامنے پیش بھی نہیں کیا۔ اس پوری کتاب میں فرائیڈ کے کام کا صرف دو جگہ براہ راست حوالہ دیا گیا ہے۔ اور یہ دونوں اقتباسات اسی باب میں ہیں۔ یہ دونوں حوالے فرائیڈ کے 1909ء میں دیے گئے پانچ میں سے پہلے اور دوسرے لیکچرز سے لیے گئے ہیں۔ برائر (Breuer) کے حوالے سے بیان کیے گئے ان لیکچرز میں اپنے خیالات سے فرائیڈ نے بعد ازاں دوری اختیار کرلی تھی اور بظاہر فینون اس امر سے ناواقف نظر آتا ہے

فینون نے اس باب میں یہ استدلال کیا ہے کہ خاندان اپنی موجودہ ہیئت میں ریاست کے ادارے کے ایک آلہ کار کے طور پر کام کرتا ہے۔ ریاست ایک بڑی سطح پر جس طرح انسان اور انسانی خواہشات پر جبر کا اہتمام کرتی ہے خاندان چھوٹی سطح پر بالکل وہی کام کرتا ہے۔ یورپ میں خاندان کا سربراہ باپ ہے اور معاشرہ پدر سری۔ اس لیے ایسے معاشرے میں میں بچوں کو شروع ہی سے اتھارٹی کو من و عن تسلیم کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ فینون ایک نیگرو معاشرے میں موجود خاندان کے لیے یہ بات ماننے پر آمادہ نہیں ہے۔ اس کے خیال میں ایک نیگرو معاشرے میں خاندان کی ہیئت یورپ سے مختلف ہے۔ میلی نووسکی نے ٹروبرائنڈ قبائل میں موجود خاندان کو مختلف ثابت کرنے کے لیے علم البشریات کا سہارا لے کر شواہد اور دلائل فراہم کیے تھے جن سے اتفاق اور اختلاف دونوں ممکن ہے۔ نائل گبسن کے نزدیک میلی نووسکی کی طرح فینون کا تحلیل نفسی سے اختلاف بنیادی طور پر ایڈیپس کمپلیکس کے حوالے سے ہی ہے۔ (Gibson، 2003۔ p۔ 44 ) مگر اس اختلاف کے حق میں فینون کے دلائل میلی نووسکی سے کہیں کمزور ہیں۔ کیونکہ ایک نیگرو خاندان کس طرح یورپ کے پدرسری خاندان سے مختلف ہے فینون اس کے لیے دلائل فراہم نہیں کرتا بلکہ نیگرو کے احساس کمتری اور اس جیسی دیگر نفسیاتی پیچیدگیوں کی ذمہ داری براہ راست استعمار پر ڈال دیتا ہے

تحلیل نفسی کے ساتھ فینون کی نفرت اور محبت سے گندھی وابستگی کو اگر گفتگو سے باہر رکھ کر استعماریت کے تجزیے میں تحلیل نفسی کے کردار کو دیکھا جائے تو مجموعی طور پر ابتدائی کامیابیوں کے علاوہ تحلیل نفسی پیچیدگیوں کے علاوہ استعماریت کے مطالعے کو اور کچھ فراہم نہیں کر سکی۔ مینونی اور لاکان کے تعلق پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ مینونی نے استعماریت کے نفسیاتی مطالعے میں فرائڈ کے بجائے لاکان کے نظریات پر اپنے مطالعے کی بنیادیں استوار کی ہیں۔ ”غیر“ The other کا مشہور تصور (جس پر آج استعماریت کے مطالعے کی پوری عمارت کھڑی ہے ) لاکان ہی کے نظریات سے لیا گیا ہے۔ ”غیر“ کے بارے میں لاکان کے نظریات جیسا کہ ظاہر ہے ہیگل کی جدلیات سے ماخوذ تھے۔ اور لاکان کی نفسی نشوونما کے ( mirror stage) میں بیان ہوئے ہیں۔ لاکان کا یہ مضمون1936ء میں لکھا گیا تھا لیکن اس نے یہ مضمون1949ء میں زیورخ میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں پیش کیا تھا۔ لاکان کے اس تصور کا حوالہ اور تعارف فینون نے اس کتاب کے صفحہ 124 پر تفصیل سے فراہم کیا ہے۔ آج استعماریت کے مطالعے سے ”غیر“ کے اس تصور کو نکالنا ممکن نہیں رہا۔ اس تصور نے محکوم کو استعمار گرد کے مقابلے میں احساس کمتری اور استعمار گرد کو محکوم کے خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ محکوم اور استعمار گرد کو اس مریضانہ تعلق میں باندھنے کا سہرا بجا طور پر لاکان کی تحلیل نفسی کے سر بندھتا ہے۔ فینون تحلیل نفسی پر اپنی تنقید میں یہ پہلو نہیں دیکھ سکا۔ استعماریت کا نفسیاتی مطالعہ اب بجا طور پر پر تحلیلی نفسیات کے علاوہ کسی اور نظریاتی فریم ورک کا شدت سے منتظر ہے

”غیر“ کے تصور پر اور لاکان کے نظریات پر استوار نفسیاتی تجزیے کے نقصانات کا اولین تخمینہ فینون کی اسی کتاب کے ساتویں باب میں موجود ہے۔ جہاں ایک نیگرو کو ہمیشہ کسی کے ساتھ موازنہ میں ہی دیکھا جاتا ہے۔ فینون نے ”غیر“ کا حوالہ لاکان یا مینونی کا نام لیے بغیر دیا ہے۔ وہ سیاہ فام (محکوم) معاشروں کو ابنارمل کہتا ہے کیونکہ یہاں ہر وقت موازنہ ہو رہا ہوتا ہے۔ وہ ایسے معاشرے کو a society of comparison کہتا ہے۔ (Fanon، 1956۔ p۔ 165 ) اس معاشرے میں سب کچھ ”غیر“ کے لیے ہوتا ہے اور ایسا صرف اس لیے ہوتا ہے کیوں کہ محکوم اپنی شناخت کے لیے ”غیر“ کی دی گئی وقعت کا محتاج ہے

اپنی شناخت کے لیے محکوم اور استعمار گرد کا اس طرح ایک دوسرے پر محتاج ہونا نظری طور پر ہیگل کی جدلیات سے وابستہ تصور ہے۔ فینون بجا طور پر اس کی کتاب ذہن کی مظہریت (Phenomenology of Mind) کا حوالہ دے کر غلام اور آقا کے تعلق کی جدلیات بیان کرتا ہے جہاں دونوں اپنی اپنی شناخت کے لیے ایک دوسرے پر منحصر اور محتاج نظر آتے ہیں۔ غلامی کے خاتمے نے فینون کے مطابق اس تعلق کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ اب غلام (محکوم) آقا (استعمار گرد) کی غلامی صرف ظاہری اسلوب میں نہیں کرتا بلکہ اب یہ غلامی اس کے لاشعور میں بیٹھ چکی ہے۔ وہ صرف اس کے ظاہری احکامات کی تعمیل نہیں کرتا بلکہ عملاً اور ذہنی طور پر اس جیسا بننے کی کوشش کرتا ہے۔ استعماریت کا محکوم پر یہ تصرف غلامی کی ماضی کی صورتوں سے زیادہ پیچیدہ اور خطرناک ہے۔ اب آزادی اور انصاف کی تحریکیں کسی بھی صورت ترک استعماریت (decolonisation) تک نہیں پہنچ پاتیں کیوں کہ ان تحریکوں کا بظاہر مقصد غلامی کی صرف قابل مشاہدہ صورتوں سے نجات hota ہے۔ یہاں وہ واضح لفظوں میں امریکی سیاہ فام افراد کی جنگ کو آسان مگر فرانسیسی سیاہ فارم کی جنگ کو مشکل قرار دیتا ہے۔ اس کی یہ پیش گوئی آپ ستر سال کے بعد بھی سچ ہوتا دیکھ سکتے ہیں اس کے خیال میں فرانس میں مختلف نسلوں کے درمیان ایک جعلی اور مصنوعی یک جہتی کا تاثر دیا جاتا ہے جو ترک استعماریت کی جنگ کو محکوموں کے لیے مشکل تر بنا دیتی ہے

”سماجی انقلاب، اپنی شاعری ماضی سے نہیں بلکہ مستقبل سے کشید کر سکتا ہے“ کال مارکس کی اس سطر سے فینون اس کتاب کے آخری باب کا آغاز کرتا ہے۔ جبکہ محکوم اپنے ماضی کے غلام ہیں۔ محکوم کا استعمار سے انسانی حرمت کے نام پر اپیل کرنا یا عقلی دلائل سے کام لینا، فینون کی رائے میں بے معنی ہے۔ بسا اوقات آزادی کے لیے براہ راست تصادم کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ اپنی کتاب افتادگان خاک کے پہلے باب میں اس نے اس براہ راست تصادم پر اپنے انتہائی متنازعہ نظریات کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اس کے مطابق دنیا کے مختلف خطوں میں استعماریت کے شکار افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مخصوص حالات کے مطابق لائحہ عمل اختیار کریں۔ براہ راست تصادم کی بات کرنے والے فینون کو جب اس کے ایک فوجی دوست نے سولہ سترہ سال کے نوجوانوں کے بارے میں یہ بتایا کہ وہ فائرنگ سکواڈ کے سامنے کس قدر سکون کے ساتھ موت کو گلے لگاتے ہیں جبکہ ان پر گولیاں چلانے والوں کے ہاتھ کانپ رہے ہوتے ہیں لیکن ایسے میں ان نوجوانوں کا اطمینان دیدنی ہوتا ہے۔ فینون اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ نوجوان ماضی کے احیاء کے لیے نہیں بلکہ مستقبل کی امیدوں کے لیے جان دیتے ہیں۔ اپنے مستقبل کے لیے نہیں بلکہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے مستقبل کے لیے۔

اس کتاب کا خاتمہ ترک استعماریت کے اپنے تجویز کردہ طریقہ کار کے خلاصہ پر کرتا ہے۔ اس کے خیال میں محکوم اور استعمار گرد دونوں کو اپنے پرکھوں کی ماضی کی روایات کو چھوڑ کر کمتری اور برتری کے احساسات سے اوپر اٹھنا ہو گا۔ اس کی آخری خواہش پر یہ کتاب ان الفاظ میں ختم ہوتی ہے

”اے میرے جسم۔ مجھے ہمیشہ ایک سوال اٹھانے والا انسان بنا“
قریب المرگ استعماریت ( A Dying Colonialism)

فینون کی یہ کتاب1959ء کے اواخر میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کے بارے میں فینون اور الجیریا کے ایک مصنف مصطفی لیکراف کے درمیان1955ء میں ابتدائی گفتگو ہوئی تھی۔ مصطفیٰ کا خیال تھا کہ یہ کتاب دونوں مل کر لکھیں گے۔ لیکن فینون نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ کتاب کی تکمیل پر فینون نے ایف ایل این کے ایک نامی گرامی رہنما فرحت عباس سے اس کا مقدمہ لکھنے کی درخواست کی جو انتہائی شائستگی کے ساتھ رد کر دی گئی۔ فینون نے بعد ازاں یہ تعارف خود لکھا۔ ہمارے سامنے اس کتاب کا انگریزی ترجمہ ہے جو فرانسیسی سے براہ راست ہاکن شیوالئر ( Haakon Chevalier) نے کیا ہے۔ اس ترجمہ میں فینون کا تحریر کردہ مقدمہ بھی شامل ہے۔ جو اس کتاب کے بعض نسخوں میں شامل نہیں تھا۔ 1959 میں تحریر کیے گئے اس مقدمے میں فینون صاف لفظوں میں الجیریا کی جنگ آزادی کی کامیابی کی خوشخبری سناتا ہے۔ اس کے مطابق استعماریت الجیریا میں شکست سے دوچار ہے اور الجیریا کے لوگوں کی فتح اب سامنے نظر آ رہی ہے۔ اس کتاب کے پانچ ابواب میں فینون نے الجیریا کے معاشرے اور باشندوں کا وہ مطالعہ پیش کیا ہے جس کی بنیاد پر اس نے مندرجہ بالا پیش گوئی کی تھی۔

پہلا باب ”الجیریا بے نقاب“ اس کتاب کی غالباً سب سے اہم اور جرات آمیز تحریر ہے۔ یہ بات ہم فینون کی پہلی کتاب کے جائزے میں دیکھ چکے ہیں کہ اس کا اہم ترین تعصب صرف اور صرف استعمار گرد کے حوالے سے ہے۔ یہ تعصب اس کی آخری کتاب اور آخری تحریر کے آخری صفحے تک پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ وہ انسانوں کے مابین ”استعمار گرد“ اور ”محکوم“ کے علاوہ وہ کسی اور تفریق کا قائل نظر نہیں آتا۔ اس کا ایک ثبوت اس باب میں بہت وضاحت سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کتاب کا یہ باب فینون کی ان تحریروں میں سے ایک ہے جو آج بھی زندہ اور حالات حاضرہ سے براہ راست متعلق ہیں۔

یہ باب الجیریا کی جنگ آزادی (1954ء۔ 1962ء) کے پانچویں سال1959ء میں شائع ہوئی تھی۔ الجیریا کے عوام نے استعمار کے خلاف اپنی جنگ میں جن تبدیلیوں کو گلے لگایا، فینون ان کو محکوم کے نقطۂ نظرسے دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کتاب کا سب سے پہلا تعارف ایڈلفو گبی ( Adolfo Gibby) نے لکھا تھا۔ گبی فینون کے نقطۂ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ الجیریا کے باشندے اپنی عورتوں کو پردے میں اس لیے نہیں رکھتے تھے کیوں کہ وہ پسماندہ تھے بلکہ استعمار کے خلاف ان کی مزاحمت کا یہ ایک طریقہ تھا۔ وہ اس طرح اپنے کلچر اور اپنی تہذیب کا تحفظ کر رہے تھے۔ کیوں کہ کسی بھی معاشرے میں لوگوں کے لباس اس معاشرے کی شناخت کا سب سے پہلا اور سب سے زیادہ قابل مشاہدہ مظہر ہوتے ہیں۔ عرب معاشروں میں عورت کا پردہ اور مردوں کی پوشاک سب سے پہلے غیر عربوں کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔ استعمار محکوم کے کلچر اور اس کی اہم علامات کو جس طرح سے حقارت اور پسماندگی کا نشان بنانے کی کوشش کرتا ہے فینون اس کوشش کو فرانس کی پردے کے خلاف چلائی گئی مہم سے واضح کرتا ہے۔ یہ مہم 1930ءکی دہائی میں شروع کی گئی (اور جو آج تک جاری ہے ) ۔ فرانسیسی حکام پر الجیریا کے عوام کا اپنی انفرادیت پر انحصار اور اصرار بہت گراں گزرتا تھا۔ استعماری معاشرے محکوم معاشروں سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ان کے رہن سہن، طرز بودوباش کو اعلیٰ و بالا اور زیادہ مفید سمجھ کر اختیار کرتے چلے جائیں۔ لیکن 1830ء سے جاری استعماری راج نے الجیریا کے عوام کو سو سال بعد بھی اس پر راضی اور آمادہ نہیں پایا۔ پردے کے خلاف مہم فرانسیسی حکام کی کوئی لاشعوری خواہش اور اس کے نتیجے میں وقوع پذیر ہونے والا کوئی اضطراری شامل نہیں تھابلکہ اس کے پیچھے ماہرین عمرانیات اور عرب کلچر کے ماہرین کی ذہنی کاوش شامل تھی۔ ان کا خیال تھا کہ پردے سے آزادی کو الجیریا کی عورت فرانس کی مہربانی سمجھ کر قبول کرے گی اور اگر عورتیں فرانس کی ہمنوائی اختیار کرتی ہیں تو معاشرے کے دیگر گروہوں کی حمایت جیتنا آسان ہو جائے گا۔

فرانسیسیوں کے خیال میں پردہ عربوں کے پدرسری سماج کی ایک علامت ہے۔ جبکہ الجیریائی باشندوں کے لیے یہ مدرسری روایات کی موجودگی کو ظاہر کرتا تھا۔ عربوں کے معاشرے میں ماں، دادی، نانی، خالہ، پھوپھی اور دیگر بزرگ خواتین معاشرے کی انتہائی اہم اور طاقتور ترین افراد میں شمار ہوتی ہیں۔ (Fanon، 1965۔ p۔ 38 ) الجیریا کی عورت کو اس مقصد کے لیے صدیوں کی ”غلامی“ کے خلاف ابھارا گیا۔ پوری طرح سے یہ اندازہ لگایا جا چکا تھا کہ الجیریا کا معاشرہ سماجی ڈھانچے کے اس انہدام پر مزاحمت کرے گا۔ عورت کے نئے رول اور پرانے ثقافتی ڈھانچے کے مابین کشمکش کو معاشرے میں توڑ پھوڑ کے مقاصد کی خاطر پوری قوت سے ابھارا گیا۔ ایک فرانسیسی اپنے الجیریائی رفیق کار سے پوچھتا ہے ”کیا تمھاری بیوی پردہ کرتی ہے؟ اگر کرتی ہے تو یہ الجیریائی باشندے کے لیے کتنی شرم ناک بات ہے؟“ لیکن بات اتنی سادہ اور اس کو سمجھنا اتنا آسان نہیں ہے۔ فینون اس پیچیدگی کی وضاحت کرتا ہے۔ الجیریا کی عورت کے پردے کے خلاف فرانسیسی مہم میں بھی فینون کے مطابق استعماری جارحیت کار فرما ہے۔ وہ فرانسیسی جارحیت جس کا نشانہ الجیریا کی عورت پورے استعماری دور میں رہی تھی، اس کو بے نقاب کر کے استعمار اس کی خوبصورتی اور اس کی پراسراریت کو آشکار کرنا چاہتا ہے۔ عورت کا چھپا ہوا چہرہ اور جسم فرانسیسیوں میں ایک انتہائی پیچیدہ اور پریشان کن خواہش اور تحریک پیدا کرتا ہے۔

اس پیچیدگی کو تین مختلف سطحوں پر دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔

1۔ فرانسیسی پردے کے خلاف مہم چلاتے ہیں۔ پردہ کرنے والی عورت اور اس عورت سے متعلق مردوں کو حقارت سے دیکھتے ہیں۔ الجیریائی باشندے یا تو اس سے متاثر ہو کر یورپی طور طریقے اختیار کرتے ہیں اور اس طرح استعماری طعن و تشنیع سے اپنے کو محفوظ بنانے کے اقدامات اٹھاتے ہیں۔ یا پھر استعماریت کی مہم کے ردعمل میں پردے کے دفاع پر مجبور ہو کر پردے کو اپنی ثقافتی بقا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔

2۔ دوسری سطح پر الجیریائی باشندے پردے کو آزادی کی جنگ میں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ خواتین اپنے پردے کے اندر ہتھیار چھپا کر مجاہدین کے مختلف گروہوں تک پہنچانا شروع کر دیتی ہیں۔ لیکن جب پردہ پوش خواتین کی تلاشی لیا جانا معمول بن گیا تو انھی خواتین نے پردے اتار کر پیغام رسانی کا کام شروع کر دیا۔ یوں استعمار کا نشانہ بننے والی ایک ثقافتی علامت کو الجیریائی باشندوں نے ایک جنگی حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا۔

3۔ تیسری سطح پر بہت سے لوگوں کے لیے پردے کا ایک خاص وقت میں ثقافتی علامت ہونا، اس کا جنگی حکمت عملی کا حصہ ہونا، اور فرانسیسیوں کا اس کے خلاف پروپیگنڈا بھلا دیا گیا اور اس کو ماضی سے کاٹ کر ایک نئی صورت حال میں ایک نئے قضیے کے طور پر دیکھا جانے لگا۔

فینون کی بیان کردہ ان سطحوں کو اگر محکومین کے تین مختلف گروہوں کے رویے یا استعمار کے خلاف تین مختلف طرح کے ردعمل سمجھ کر دیکھا جائے تو آج یہ بات شاید زیادہ وضاحت اور زیادہ آسانی سے سمجھ میں آ سکے۔ محکومین کا ایک گروہ استعمار کی ہر بات اور ہر عمل پر ایک مخالف ردعمل دیتا ہے۔ جبکہ دوسرا گروہ استعمار کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے میں اپنی بقا اور مفاد دیکھتا ہے۔ تیسرا گروہ استعمار کے خلاف بدلتے وقتوں میں بدلتے ہوئے طریقے اور حکمت عملی اختیار کرنے پر زور دیتا ہے تاکہ مزاحمت میں کامیابیاں حاصل کی جا سکیں۔ لیکن محکومین کے بعض گروہ استعمار کے خلاف جدوجہد میں سیکھے گئے رویوں سے ماورا جانا چاہتے ہیں۔ یہ ایک خاص وقت میں زیادہ مفید رویہ اور طریقہ اختیار کرتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن کیا یہ رویے ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا نتیجہ ہوتے ہیں یا اضطراری طور پر سہولت کی خاطر اختیار کر لیے جاتے ہیں؟ فینون نے اس امر پر تبصرہ نہیں کیا لیکن آج کی صورت حال دیکھ کر بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ استعمار کے ساتھ جاری کشمکش کو نظر انداز کر کے یا اس کشمکش سے ماورا جانے کی ہر کوشش کا اختتام ایک ناقابل دید، ناقابل مشاہدہ اور ناقابل شناخت استعماریت پر ہوتا ہے۔ اور بلاشبہ استعماریت کی یہ سب سے خطرناک ترین قسم ہے اور دنیا بھر کے محکومین کو آج اسی کا سامنا ہے۔

قریب المرگ استعماریت کا دوسرا باب الجیریا کی جنگ آزادی کے دوران میں ریڈیو کے بدلتے ہوئے استعمال پر ہے۔ ابتدا میں ریڈیو صرف فرانسیسی پروپیگنڈے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ الجیریا میں رہنے والے فرانسیسی یا الجیریا کے متوسط طبقہ کے لوگ ریڈیو سنتے تھے کیونکہ صرف یہی دو طبقے اس وقت ریڈیو سیٹ خریدنے کی استطاعت رکھتے تھے۔ 1954ء تک ریڈیو کو استعماریت کی ایک علامت کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ ریڈیو اس وقت عوام میں مقبول ہوا جب دمشق اور دیگر عرب ممالک کی نشریات الجیریا پہنچنی شروع ہوئیں۔ الجیریائی باشندوں نے یہ نشریات اس لیے سننا شروع کیں کیونکہ ان سے انھیں جنگ آزادی کی کارروائیوں کے بارے میں سچی خبریں ملتی تھیں۔ اس کے برعکس فرانسیسی ریڈیو مسلسل جنگ آزادی کی ناکامی کے بارے میں من گھڑت اطلاعات نشر کرتا رہتا تھا۔ مقصد ظاہر ہے کہ عام الجیریائی باشندے کا حوصلہ پست کرنا تھا۔ ایک عام آدمی کو اس حقیقت کا ادراک تھا، اس لئے جب تک کہ وہ خبروں کی سچائی کے بارے میں مطمئن نہیں ہوا تب تک اس نے ریڈیو سننے اور وہاں سے نشر ہونے والی خبروں پر یقین اور انحصار کرنا شروع نہیں کیا۔ (جاری ہے)

بشکریہ: ہم سب
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)۔


  1. فرانز فینون: جائزہ اور افادہ، وفات کے ساٹھ برس بعد (1)

  2. فرانز فینون: جائزہ اور افادہ، وفات کے ساٹھ برس بعد (4)


Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close