برطانیہ کے صوبے شمالی آئرلینڈ کے دارالحکومت بیلفاسٹ کی یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات ڈنکن مورو کے مطابق گزشتہ چند دہائیوں کے مقابلے میں آئرلینڈ کے منقسم جزیرے کا دوبارہ اتحاد اب کہیں زیادہ ممکن نظر آنے لگا ہے
ڈنکن مورو کا کہنا ہے کہ صوبے شمالی آئرلینڈ اور جنوبی حصے پر مشتمل جمہوریہ آئرلینڈ کی آبادی میں باہر سے جا کر وہاں سکونت اختیار کرنے والے تارکینِ وطن کا تناسب مسلسل زیادہ ہوتا جا رہا ہے
اس کے علاوہ آئرلینڈ کی مجموعی آبادی میں ایسے باشندوں کی تعداد بھی مسلسل زیادہ ہوتی جا رہی ہے، جن کی سوچ یہ ہے کہ اس جزیرے کی تقسیم اب بالآخر ختم ہونا چاہیے
ڈنکن مورو نے جرمن شہر میونخ سے چھپنے ہونے والے اخبار زُوڈ ڈوئچے سائٹُنگ میں منگل ستائیس دسمبر کو شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ یہ بات بعید از امکان نہیں کہ آئرلینڈ کے شمالی اور جنوبی حصوں کا دوبارہ اتحاد اگلے دس سے پندرہ برس تک کے عرصے میں ہی حقیقت کا روپ دھار لے
بیلفاسٹ یونیورسٹی کے اس ماہر سیاسیات کے مطابق آئرلینڈ کے دونوں حصوں میں اب زیادہ سے زیادہ لوگ یہ کہنے لگے ہیں کہ وہ خود کو مسیحیت کے دونوں بڑے فرقوں یعنی کیتھولک یا پروٹسٹنٹ عقیدوں سے جڑا ہوا محسوس نہیں کرتے
یہ رویہ دیگر یورپی معاشروں میں بڑھتی ہوئی لادینیت کی طرح آئرلینڈ میں بھی مضبوط ہوتے جا رہے سیکولرزم کی نشاندہی کرتا ہے اور یہ رجحان بزرگ آئرش شہریوں کے مقابلے میں نوجوانوں میں کہیں زیادہ ہے
تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو شمالی آئرلینڈ میں مسیحی عقیدہ سیاسی تقسیم کی وجہ بننے والا عمل بھی رہا ہے۔ اسی لیے آئرش کیتھولک اور پروٹسٹنٹ باشندوں کی شناخت نے بھی دو مختلف خطوط پر نشو ونما پائی
ڈنکن مورو کے الفاظ میں، ”آئرلینڈ کے تنازعے میں مذہب ایک اہم سماجی، اقتصادی اور ثقافتی پہلو کا حامل رہا ہے، جس نے وہاں رونما ہونے والے پُرتشدد واقعات کی روشنی میں عام لوگوں کی یونین پسند یا ریبپلکن سوچ کے حامیوں کے طور پر سیاسی شناخت تشکیل دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔‘‘
شین فین کی پارلیمانی طاقت
شمالی آئرلینڈ کی اسمبلی کے اس سال مئی میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں ریپبلکن سوچ کی حامل کیتھولک پارٹی شین فین جس طرح سب سے بڑی پارلیمانی طاقت بن کر ابھری، وہ ایک تاریخی واقعہ تھا
ڈنکن مورو نے انٹرویو میں زور دے کر کہا کہ شین فین تو واضح طور پر شمالی آئرلینڈ کی برطانیہ سے علیحدگی کی حامی ہے
اس پیش رفت کے بعد شمالی آئرلینڈ کی یونین پسند پروٹسٹنٹ پارٹی ڈی یو پی کے رہنما بھی یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ شمالی آئرلینڈ میں نیا عوامی رجحان آئرلینڈ کے جزیرے کے مستقبل میں ممکنہ اتحاد ہی کی طرف ایک واضح اشارہ ہے
شمالی آئرلینڈ میں پہلی بار کیتھولک اکثریت میں
ماضی میں آئرلینڈ کی شمالی اور جنوبی آئرلینڈ کے طور پر سیاسی تقسیم دراصل کیتھولک اور پروٹسٹنٹ آبادیوں کی ان کی اپنی اپنی اکثریت کی بنیاد پر جغرافیائی تقسیم بھی تھی، مگر اس سال ستمبر میں باقاعدہ طور پر یہ بھی کہا گیا کہ شمالی آئرلینڈ کی آبادی میں پہلی مرتبہ پروٹسٹنٹ باشندوں کے مقابلے میں اکثریت کیتھولک شہریوں کی ہو گئی ہے
ڈنکن مورو کے مطابق ”شمالی آئرلینڈ میں کیتھولک شہریوں کی یہ نئی اکثریت بھی ایک وجہ ہے کہ آئندہ جب بھی کوئی ریفرنڈم کرایا گیا، تو یہ اکثریت بھی شمالی آئرلینڈ کے جنوبی حصے کی جمہوریہ آئرلینڈ کے ساتھ مل جانے اور آئرلینڈ کے جزیرے کے دوبارہ اتحاد ہی کی حمایت کرے گی۔“