بستی نے کالی قبا اوڑھ رکھی تھی۔۔ گھروں کی خستہ حال چھتوں پر سیاہ برف کی سی چادر تنی تھی۔۔ دھوئیں کے مرغولوں نے فضا کو مکدر بنا رکھا تھا۔ گدلے پانی اور کوئلے کے ملاپ سے بنے گارے نے زمین کو سیاہی میں ڈبو رکھا تھا۔۔ پینتیس ہزار کی اس آبادی میں زندگی، کوئلے کے دھوئیں سے گھٹ کر دم توڑ دیتی یا پھر ضروریات زندگی کی تشنہ کامی ان کی آخری ہچکی بن جاتی۔۔ ان کے نزدیک رنگوں کا کوئی وجود نہ تھا۔۔ زندگی پر جمی کالک تہہ بہ تہہ یوں دکھائی دیتی کہ آسمان پر نظر آنے والے رنگین بادل انہیں جادو نگری محسوس ہوتے۔۔
بدن پر کپڑا دکھائی دے نہ دے مگر سیاہ رنگ اوڑھے، ننگ دھڑنگ وجود اپنی قسمت پر نالاں، حالات کی ناؤ میں ڈولتے پھر تے۔۔ ان کی کھکھلاتی مسکراہٹوں کو ان کی بستی جیسا گرہن لگ چکا تھا۔۔ تنگ و تاریک، تعفن زدہ گلیوں میں انسانی زندگی دھنس رہی تھی۔۔ زمین پر ایک پاؤں رکھتے تو دوسرا پاؤں اٹھانے کے لیے تگ و دو کرنی پڑتی۔۔ چاروں طرف نظر دوڑائیں تو سیاہ رنگ کے سوا کچھ دکھائی نہ دیتا۔۔ گارے سے تر بتر زمین اور کوئلے سے اٹی فضا ماحول کو عجب رنگ سے نواز رہی تھی۔۔ وہ رنگ جو خدا کے بنائے ہوئے رنگوں سے یکسر مختلف تھا۔۔
ساحلِ سمندر پر آباد اس بستی کے مکینوں کی زندگی کوئلہ بند بوری کی طرح تھی، جس میں ہاتھ ڈالیں تو سونا نہیں نکلتا۔ حفاظتی پشتہ سے اچھل کر بستی میں داخل ہونے والے پانی نے قدرتی طور پر ایک نہر بنا دی تھی، جس میں کوئلے کے ذرے، ٹوٹی پھوٹی پلاسٹک کی بوتلیں، شاپر اور کبھی کبھار کٹے پھٹے انسانی اعضاء بھی دکھائی دیتے تھے، جو معاشرے کی ستم ظریفی کا منہ بولتا ثبوت تھے۔۔ شاید سمندر کی بے رحم موجیں بھی تنگیِ داماں سے تنگ آ کر ڈوب جانے والوں کو سہن نہ کر پاتیں اور اچھال کر باہر پھینک دیتیں تھیں۔ رہی سہی کسر گٹروں سے پھوٹنے والا گند مند پوری کر ڈالتا۔۔ یہ ہی نہر چھوٹے چھوٹے بچوں کی تفریح کا واحد ذریعہ اور جانوروں کے پانی پینے کا وسیلہ بھی بنتی۔ اسی پانی سے بستی والے کھانے والے برتنوں کو صاف کرتے تھے۔ ایسا کرنے سے انہیں کیا تسلی ملتی تھی کہ برتن صاف ہو چکے ہیں؟ جبکہ صاف پانی ان کی ہتھیلیوں پر صرف اسی دن ٹپکتا تھا، جس دن بارش ہوتی تھی۔۔
پانی میں تیرنے والے مردہ آبی جانوروں اور انسانی اعضاء کے علاوہ کچھ اور دکھائی دیتا تو ولیم کا پانچ سالہ بیٹا فوراً لکڑی کے تختے پر بیٹھتا اور کسی ایسی چیز کی تلاش میں لگ جاتا، جسے بیچ کر وہ کھانا خرید سکیں۔۔ چھوٹی سی عمر میں زندگی کی قیمت سے زیادہ اسے روکھی سوکھی اور چاولوں کی قیمت معلوم تھی۔۔ پینتیس ہزار کی آبادی کا روزگار ماہی گیری یا پھر کوئلے کی فیکٹری میں بوریوں میں کوئلہ بھرنا تھا۔۔۔ سات بوری کوئلہ بھرنے کے انہیں چار peso ملتے تھے۔۔ سڑانڈ میں بسی اس بستی میں سیلاب اور بارشوں کی زیادتی سے ماہی گیروں کی فشنگ بوٹس آئے دن بے رحم موجوں کی نذر ہو جاتیں۔۔ ابرِ رحمت اکثر و بیشتر ہی ان کے لیے زحمت بن جایا کرتی تھی۔۔ وہاں آنے والے طوفان بھی تو کچھ یوں سر اٹھاتے تھے کہ تناور درختوں کو بھی جڑ سے اکھاڑ ڈالتے۔ بارشیں تباہی مچا کر آسمان کے شفاف آنگن میں سکون کی نیند جا سوتیں اور غربت کا طوق پہنے وہ لوگ ایک نئی تعمیر میں لگ جاتے۔
ولیم کا زیادہ تر وقت مچھلیاں پکڑنے میں گزرتا۔۔ جب اس کی کشتی بارشوں کی زیادتی کی بدولت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی تو اس کی مرمت کے لیے وہ کوئلہ بنانے والی فیکٹری میں کام کرنے لگتا، جہاں پہلے ہی سے اس کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں اپنی نربل ہڈیوں کو رگڑتے ہوئے، پیٹ کا ایندھن جلانے کے اسباب پیدا کرتے۔۔
غیر قانونی طور پر بنائی گئی فیکٹری کے بارے میں مشہور تھا کہ جلد ہی بند ہو جائے گی، اس لیے بستی کا بچہ بچہ دعا کرتا تھا کہ ناجائز کام کرنے والا ٹھیکیدار پولیس کے ھاتھ کبھی نہ آئے۔۔ جائز اور ناجائز کے مفہوم سے کہیں پرے انہیں پیٹ میں جلتی آگ کے معنی معلوم تھے۔۔
ولیم کے شانہ بشانہ چلتی اس کی بیوی سمارتھا، جس کی کوکھ نے گیارہ بچوں کو جنم دیا اور پرورش کے لیے بستی کے گارے میں پھینک دیا۔ سمارتھا اپنی بہن کے ساتھ مل کر لہسن چھیلیتی، انہیں پلاسٹک بیگز میں بند کرتی او دور دراز بنے شاپنگ مالز کے بڑے بڑے اسٹورز پر بھجوا دیتی۔۔ لہسن چھیلنے کے لیے وہ بستی میں موجود گندا پانی ہی استعمال کرتی تھی کہ انہیں وہی میسر تھا۔۔ وہیں سے نکل کر یہ لہسن مالز کے صاف ستھرے اسٹورز میں بھیجا جاتا۔۔ اس پر کتنی مکھیاں، مچھر اور کیڑے مکوڑے بیٹھے ہوں گے، یہ سوچنے کی فرصت ہی کس کو تھی؟ اسٹورز کا لیبل انہیں شفافیت کی سند بخشتا تھا۔۔
ولیم مچھلی پکڑ کر لاتا، پانچ بچے بوریوں میں کوئلہ بھرتے اور سمارتھا سارا دن لہسن چھیل چھیل کر اپنی پوروں کو زخمی کرتی، تب جا کر وہ روکھی سوکھی کھانے کے قابل ہوتے تھے۔۔ مگر یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی اتنے بڑے خاندان کی خوراک کا بندوبست نہیں ہو پاتا تھا۔ اکثر اوقات ایسے حالات کا بھی سامنا کرنا پڑتا تھا کہ لہسن سے اترے چھلکے پکا کر بچوں کو کھلانے پڑتے۔۔ کچھ مکین دو نوالے کھا کر سوتے تو کچھ بھوکے پیٹ نیند کی آغوش میں چلے جاتے۔۔۔ جسم پر ماس بہت کم ہونے کی وجہ سے وہ ہڈیوں کے پنجر دکھائی دیتے تھے۔۔ ایسے پنجر، جنہیں انسان کہتے ہوئے انسانیت بھی شرما جائے۔۔۔
ولیم ، سمندر کی بے رحم موجوں کے بھاری بھرکم وجود پر اپنی چھوٹی سی ناؤ سمیت پڑاؤ ڈالے، بیچ سمندر ہچکولے کھا رہا تھا۔۔ اس کے پاؤں ڈولتی کشتی میں بھی بڑی مضبوطی سے جمے تھے۔۔۔ اس نے جال گھمایا اور سمندر کی گود میں پھینک دیا۔۔ آسمان نیلا، صاف اور کھِلا کھِلا تھا۔۔۔ پرندوں کے چہچہانے کی آوازیں اس کے کانوں میں رس تو نہیں گھول رہیں تھیں البتہ کچھ آبی پرندے سمندر میں غوطہ لگا کر اپنے حصے کا رزق تلاش کرنے کی کوشش کرتے تو ولیم غصیلی آواز نکال کر انہیں سمندر کے بطن سے دور رہنے کی تلقین کرتا۔۔ قسمت کا دوش تھا یا کچھ اور کہ سمندر کے جس حصے پران کا بسیرا تھا، وہاں سارڈین کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا تھا اور شاید وہ بھی ولیم کی غصیلی آواز سے خائف ہو کر سمندر کی آخری تہہ میں جا چھپتیں تھیں۔۔ یا پھر شاید وہ مچھلیوں کو جال تک لانے کے ہنر سے واقف ہی نہ تھا۔
مثل مشہور تھی کہ یہ حصہ منحوس ہے کیونکہ اس حصے کا داتا ’وینزویلا‘ ہے، جو یہاں بسنے والوں سے ناراض ہے، اس لیے کسی کو بھی مچھلیاں نہیں ملتیں اور اس کی ناراضی دور کرنے کا واحد حل کسی موٹی تازہ مچھلی کا نذرانہ پیش کرنا تھا
”ہونہہ! اگر موٹی تازہ مچھلی میرے ہاتھ لگ جائے تو کیا میں اسے اپنے بچوں کے لیے ذخیرہ نہ کر لوں؟“وہ یہ کہتے ہوئے بڑبڑانے لگتا۔۔ خالی جال لیے، کشتی میں گھنٹوں بیٹھے بیٹھے وہ اکڑ سا جاتا، بار بار جال کی طرف دیکھتا اور پھر آسمان کی طرف نظر اٹھا کرسوال کرنے لگتا، جیسے وہ بے سبب برسنے والی بارشوں سے کوئی اجرت مانگ رہا ہو۔۔۔ ایسی اجرت، جو سالہا سال ، ہڈیوں کا گودا الگ ہوجانے پر ملتی ہے۔۔
سورج غروب ہونے کو تھا۔ رنگین بادل آسمان پر پھیلتی شام کو خوش آمدید کہہ رہے تھے مگر وہ حسین شام سمندر کی لہروں پر سایہ کر کے رخصت ہوجاتی تھی اور اس کی گندی مندی زمین پر کبھی نہیں اترتی تھی۔۔ چند مچھلیاں اس کے جال میں پڑی تڑپ رہیں تھیں۔۔ انہی کو غنیمت جان کر اس نے کشتی کو گھر کی طرف موڑ دیا۔۔ گھر پہنچا تو چار مربع ٹین کی بنی چاردیواری میں اپنے بچوں کے علاوہ چار بچے اور دکھائی دیئے، جو سمارتھا کی بہن کلارکا کے تھے۔ انہیں دیکھ کر ولیم کی آنکھوں کی ساری چمک جاتی رہی۔۔ تین مٹھی چاول نکال کر پتیلی میں پکنے رکھے اور تیل پر نظر ڈالی تو گنتی کے چند قطروں کے سوا کچھ دکھائی نہ دیا۔۔ وہ پریشانی کے عالم میں اٹھا اور گھر سے باہر نکل گیا۔
گھومتے گھماتے ،کچرے کے ڈھیر پر مچھلیوں کے چند ڈھانچے دکھائی دیئے۔۔ وہ شیدائیوں کی مانند ان کی طرف لپکا تا کہ اس کی قسمت کسی اور کے ہاتھ نہ لگ جائے۔۔ ڈھانچہ نما وہ چند مچھلیاں، بچوں کو آسرا دینے کے لیے کافی تھیں۔۔
بچے ولیم کو دیکھ کر یوں خوش تھے، جیسے کوئی ان دیکھا دیوتا دھرتی پر اتر آیا ہو اوراس کے ہاتھ میں کوئی ایسی چھڑی ہو جسے گھما کر وہ جو چاہیں مانگ سکتے ہوں مگر ولیم ان کی زندگی کا ایسا دیوتا تھا، جو خالی ہاتھ کی چھڑی سے چند سارڈین اور مٹھی بھر چاولوں کا معجزہ ہی دکھا سکتا تھا۔۔۔
چند قطرے تیل میں جب مچھلی کو ڈالا تو کڑ کڑ کی آواز کے ساتھ ہی تیل کی مقدار میں اضافہ ہو گیا تھا۔۔۔ آنکھوں کی جھلمل میں بچوں کے چہرے مدھم پڑ گئے۔۔ وہ انہیں دیکھتا جا رہا تھا اور تیل بڑھتا جا رہا تھا
اس کے آبا و اجداد بھی اسی بستی میں ایڑیاں رگڑ کر موت کی وادی میں جا سوئے تھے۔۔ وہ بچپن ہی سے ہر رات خواب کے عالم میں جیتا آیا تھا۔۔
چھت پر فانوس لگے ہیں۔۔ فرش ایسا چمک دار، جسے دیکھ کر بھوک کا دم گھٹ جائے۔۔۔ پورا شہر روشنیوں سے جگمگا رہا ہے اور وہ ایک تخت پر بیٹھا انواع و اقسام کے کھانوں سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ سفید لیس دار چاول اسے موتیوں کی طرح معلوم ہوتے ہیں۔۔۔ صاف ستھرے برتنوں میں کھانا میز پوش پر سجا ہوا ہے۔۔ مچھلی خوب بڑی اور موٹی تازہ ہے۔۔۔ چاولوں کی مقدار اتنی زیادہ ہے کہ پوری بستی بھی کھا لے تو کم نہ پڑے۔۔ پانی ایسا شفاف کہ بارش گدلی لگنے لگے۔۔
اسی اثناء میں زوردار آواز اس کی سماعتوں سے ٹکراتی ہے تو وہ ماضی اور مستقبل کے سہانے خوابوں کو قدموں تلے روندتا ہوا، حال کی کرب ناک کرچیوں پرںآن کھڑا ہوتا ہے۔۔۔ سمارتھا ، کندھے پر ہاتھ رکھے اسے عالم خواب سے جگا رہی تھی۔۔۔ اس نے بد حواسی کے عالم میں ادھر ادھر دیکھا تو ٹین کی چھت زور زور سے بج رہی تھی۔۔۔ پلاسٹک ڈال کر بند کیے گئے سوراخوں سے آتی ہوا چھوٹے چھوٹے ٹورنیڈو کی صورت، چار مربع کمرے کی بچی کھچی متاع کو سوراخوں سے باہر پھینک رہی تھی۔۔۔ سمندر کی موجوں پر خون سوار تھا، جیسے حفاظتی پشتہ کو توڑ کر باہر نکل آئیں گی اور پوری بستی کو بہا کر لے جائیں گی۔ دیکھتے ہی دیکھتے بارش نے طوفان کا روپ دھار لیا۔ چھت ہوا کے دوش پر جانے کس جگہ جا گری۔۔
ولیم نے پنگھوڑے میں پڑے چار ماہ کے بیٹے پر تھپڑوں کی مانند برستی بارش کو دیکھا تو اس کی آنکھیں لہو ٹپکانے لگیں۔۔ فیکٹری کا سارا کوئلہ بہتے ندی نالوں کی نذر ہو رہا تھا، جس میں کام کرنے والے کئی بچے بہہ گئے۔ سمارتھا اپنے بچوں کی تلاش میں دوڑتی ہوئی فیکٹری پہنچی تو کئی لاشیں پانی پر تیر رہیں تھیں مگر ننگ دھڑنگ جسموں پر کالک کا لیپ کچھ ایسا تھا کہ ہر چہرہ ایک سا لگ رہا تھا۔ وہ دیوانہ وار تیرتی لاشوں کے چہروں کو مسل مسل کر دیکھنے لگی۔ ولیم نے بیچارگی کے عالم میں رین کوٹ اٹھایا اور سمندر کی طرف دوڑ لگا دی۔۔ اسے یاد آیا کہ یہ برینڈڈ رین کوٹ اس نے کتنی دعاؤں سے حاصل کیا تھا۔ جب ایک دن کوئلہ فیکٹری کا مالک دورہ کرنے آیا تو بڑی تیز بارش ہوئی تھی۔۔ مالک نے گاڑی میں سے رین کوٹ نکالا اور پہن لیا۔ تب ولیم کا بہت دل للچایا کہ وہ اسے چوری کر لے یا پھر کسی طرح مالک رین کوٹ وہیں بھول جائے۔۔ شاید وہ لمحہ قبولیت کا تھا اور مالک رین کوٹ وہیں بھول گیا تھا۔
وہ ہوش سے بیگانہ سمندر کی طرف دوڑ رہا تھا۔ نتیجہ سے بے خبر کہ ایسے طوفانوں میں جہاں صدیوں کے پلے پلائے درخت نہ ٹھہر سکتے ہوں تو اس کی ناتواں کشتی کی کیا اوقات؟ وہ قرضہ جو اس کشتی کو بنانے کے لیے اس نے اٹھا رکھا تھا اور مچھلیوں کے وہ پنجر جو وہ کچرے سے اٹھا کر بچوں کو کھلاتا رہا تھا ، کشتی کے وہ تختے جو اس کے بچوں کے تکیے بنے ہوئے تھے، سب اس کے ذہن میں گردش کر رہے تھے۔۔ انہی سوچوں میں غلطاں وہ بھاگتا چلا گیا۔ پیروں میں پہنی چپل اس کی دوڑ کو سہہ نہ سکی اور ٹوٹ پھوٹ کر زمین کے اسی گارے میں مل گئی، جہاں بے تحاشہ کوڑا کرکٹ جا بجا بکھرا پڑا تھا۔۔۔
سمارتھا کی آنکھیں پتھرا گئیں۔۔ وہ کبھی اژدھا جیسی موجوں کو دیکھتی تو کبھی ندی میں بہتے معصوم کالے سیاہ چہروں کو، جو کوئلے اور گارے کی کالک میں چھپ کر اسی کا حصہ معلوم ہو رہے تھے۔۔ جب بچوں کے وجود، پلک جھپکتے، کوسوں دوری پر کسی دوسری سمت مڑ گئے تو پاگلوں کی طرح بھاگتی سمارتھا ولیم کے تعاقب میں نکل پڑی۔۔ ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے لیے ان دونوں کے ناتواں وجود کی حیثیت ہی کیا تھی؟
بارش تھم گئی، طوفان سنبھل گیا۔۔ سمندر کے پیٹ سے اچھل کر انسانی اعضاء، تعفن زدہ بستی کی کالی ندی پر تیرنے لگے اور حالات کی سنگینی سے بے خبر، ولیم کا پانچ سالہ بیٹا، لکڑی کے تختے پر بیٹھ کر کسی ایسی شے کی تلاش میں نکل پڑا، جسے بیچ کر وہ کھانا خرید سکے۔۔