ازبکستان کی وزارت صحت نے کہا ہے کہ 18 بچوں کی ہلاکت کا سبب بننے والی بھارتی دوا کے معاملے میں ابتدائی جانچ سے معلوم ہوتا ہے کہ زیر بحث شربت میں ایتھائیلین گلائیکول (ای جی) نامی زہریلا مادہ شامل ہے
واضح رہے کہ ادویات کی صنعت میں اکثر پولی ایتھائیلین گلائیکول (پی ای جی) کا استعمال ہوتا ہے، جسے ایک عام سالوینٹ (جس میں ادویات کے مختلف عناصر ملائے جاتے ہیں) کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے
’پی ای جی‘ کی طرح، ’ای جی‘ بھی بغیر رنگ کا ہوتا ہے اور اس کی ساخت ’پی ای جی‘ کی طرح ہوتی ہے، جس کی وجہ سے آسانی سے دونوں بنا فرق کے ایک دوسرے کے ساتھ یا ایک دوسرے کی جگہ استعمال کیے جا سکتے ہیں
اگرچہ ازبکستان کے اعلامیے میں اشارہ دیا گیا ہے کہ سیرپ میں پی ای جی کی جگہ غلط کمپاؤنڈ ای جی پایا گیا لیکن اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بچوں کو یہ سیرپ ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر دیا گیا اور جو مقدار اُنھیں دی گئی تھی وہ بھی بچوں کی معیاری خوراک سے زیادہ تھی
چند مہینوں کے اندر یہ دوسری ایسی مثال ہے، جب ادویات بنانے والی ایک بھارتی کمپنی اپنے قابل اعتراض معیار کی وجہ سے زیر بحث ہے۔ اکتوبر میں گیمبیا میں ایک اور بھارتی کمپنی کے تیار کردہ کھانسی کے شربت سے ستر بچے ہلاک ہوئے تھے
سیرپ کے متعدد برانڈز میں اس زہریلے سالوینٹ کی موجودگی نے بھارت میں ادویات کے ریگولیٹری نظام پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں
واضح رہے کہ گیمبیا اور ازبکستان جیسے واقعات اس سے پہلے بھارت میں بھی رونما ہو چکے ہیں جن کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک ہو ئے تھے
’فارمیسی آف دی ورلڈ‘ بننے کے خواہشمند بھارت کی ادویاتی صنعت کی مالیت چالیس ارب ڈالر ہے اور یہ اپنی مصنوعات کو دو سو سے زائد ممالک کو برآمد کرتی ہے جن میں امریکہ، برطانیہ اور یورپ جیسی ترقی یافتہ منڈیاں شامل ہیں۔ یہ ادویات پیدا کرنے والا دنیا کا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے
لیکن ماہرین کے مطابق عالمی سطح پر بھارت کا جینیریک (یعنی پیٹنٹ کے بغیر) ادویات میں ایک مسابقتی نام ہونے کی وجہ سے اس طرح کے الزامات بھارتی ادویات کی صنعت پر سنگین اثرات مرتب کریں گے
’آل انڈیا ڈرگ ایکشن نیٹ ورک‘ کی شریک کنوینر مالینی آئسولہ کے مطابق بھارت کی ادویاتی صنعت میں اس طرح کی ناکامیوں کی کئی وجوہات ہیں مثلاً اس میں ملوث کمپنی کی جانب سے آسان راستہ اختیار کرنا یا حکومت کی جانب سے لازمی اقدامات کی تعمیل کو یقینی بنانے میں ناکام ہونا
وہ کہتی ہیں ’ہم عام طور پر یہ نہیں جان پاتے ہیں کہ کیا ریگولیٹرز نے کمپنیوں کا معائنہ کیا، معائنے کے نتائج کیا نکلے اور یہ کیسے کیا گیا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ ایک معلوماتی بلیک ہول کی طرح ہے۔‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں سے کوئی اہم جان کاری باہر نہیں آتی
بھارت کی ادویاتی صنعت سے متعلق ریگولیٹری نظام کے تحت ایک مرکزی اتھارٹی ہوتی ہے اور ساتھ ہی ہر ریاست میں الگ الگ ریاستی اتھارٹی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ مزید دوسرے ادارے ہیں جن کا کردار ادویات کی صنعت پر نظر رکھنا ہے لیکن کئی مرتبہ ادویات بنانے والی کمپنیاں ان اداروں کی رسہ کشی کا فائدہ اٹھاتی ہیں
ادویاتی صنعت کو ریگولیٹ کرنے والے قوانین بھی پوری طرح سے خامیوں کے بغیر نہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ جہاں واضح طور پر ہدایات موجود ہیں وہاں بھی ان پر ہمیشہ عمل درآمد نہیں کیا جاتا
بھارت میں گیمبیا اور ازبکستان جیسے معاملات کو روکنے کے لیے تحفظات موجود ہیں لیکن وہ ریگولیٹری نظام کے نفاذ میں کمی کی وجہ سے اُنھیں روکنے میں ناکام رہے
تکشاشیلا تھنک ٹینک کے صحت کے شعبے سے منسلک پالیسیوں کے محقق اور تجزیہ کار ہرشیت ککریجا کا کہنا ہے کہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اس طرح کے واقعے بھارت میں ادویات کے ضوابط اور کنٹرول کی ناکامی ہیں
وہ کہتے ہیں ’اگرچہ ہمارے پاس ایک حد تک نظام موجود ہے لیکن ادویات کے پیداوار مین شامل کمپنیوں کے ذریعے اس نظام کی تعمیل کو باقاعدگی سے چیک نہیں کیا جاتا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اگر جانچ ہوتی بھی ہے تو اس پر آگے کوئی کارروائی نہیں ہوتی
اس شعبے کے ماہرین ریاست ہریانہ کی ’میڈین فارما‘ کا مثال دیتے ہیں جو گیمبیا معاملے میں ملوث تھی۔ دیگر ریاستی ریگولیٹری ایجنسیوں نے کمپنی کی غیر معیاری اور ملاوٹ شدہ ادویات کی اطلاع ریگولیٹرز کو دی تھی لیکن کمپنی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ریاستی حکومتیں ایسی منافع بخش صنعت کو راغب کرنے کی بھرپور کوشش کرتی ہیں اور وہ اکثر اپنے دائرہ اختیار میں ان کمپنیوں کو مخصوص مراعات دیتی ہیں
قانون کے مطابق کوئی بھی دوا بازار میں آنے سے پہلے جانچ کے متعدد سخت مراحل سے گزرتی ہے اور ہر ایک دوا لازمی طور پر تجویز کردہ ترکیب پر مشتمل ہوتی ہے۔ وہ اس لیے کہ دوا کی پیداوار اور ترسیل کے سلسلے میں ایک چھوٹی غلطی بھی جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے
مثال کے طور پر اگر ادویات کی تیاری میں استعمال ہونے والے کیمیائی مادوں پر غلط نام کا لیبل لگا دیا جائے، جیسے کہ ’ای جی‘ پر ’پی ای جی‘ تو یہ اس دوا کے صارف کے لیے مہلک ہو سکتا ہے
ایسا غلطی سے ہو سکتا ہے لیکن جہاں یہ غلطی سے نہ ہوا ہو وہاں ریگولیٹری نظام میں موجود سقم کی وجہ سے کمپنیاں ایسا اپنی لاگت کم کرنے کے لیے کر سکتی ہیں
تجزیہ کار اور سائنس سے متعلق معاملوں کے مصنف دنیش شرما کہتے ہیں ’اسی لیے یہ ضروری ہے کہ ان ادویات کو بنانے کے لیے درکار خام مال کی معیار کی بھی جانچ کی جائے، نہ کہ صرف حتمی پروڈکٹ کی جو لوگ استعمال کرتے ہیں۔‘
ان کے مطابق معیار کی جانچ چھوٹی کمپنیوں کے لیے خاص طور پر ایک ایسا چیلنج ہے جو ان کے لیے دوا بنانے کے عمل کو مہنگا بناتا ہے اور جس کے نتیجے میں وہ آسان راستے اختیار کرتے ہیں
اگرچہ گیمبیا اور ازبکستان کے معاملوں میں حکومتِ ہند نے کمپنی کے پلانٹس کو بند کر دیا لیکن اس کے باوجود بھی حکومت نے ان ہلاکتوں کو بھارتی کمپنیوں کے ذریعے بنائے گئی ادویات سے جوڑنے کی یا ان کے معیار پر سوالوں کی شدید مخالفت کی ہے
اگرچہ دنیا میں کئی اہم ادویاتی کمپنیاں قابل اعتراض کاموں میں ملوث رہی ہیں مگر بھارتی کمپنیوں پر اٹھتے سوالات بھی نئے نہیں۔ گذشتہ برسوں میں عالمی ادارہ صحت اور کئی دوسرے ممالک نے بھارت کی کئی نامور ادویاتی کمپنیوں کے مینوفیکچرنگ طریقوں پر سگین سوال اٹھائے ہیں
سنہ 2013ع میں امریکی ریگولیٹرز نے جینیریک دوائی بنانے والی کمپنی ’رین بیکسی‘ پر پچاس کروڑ ڈالر کا جرمانہ عائد کیا تھا۔ کمپنی پر الزام تھا کہ اس نے ریکارڈ میں ہیر پھیر کی اور ناقص پیداواری طریقے اپنائے ہیں
ایک اور بھارتی ادویاتی کمپنی پر 2021ع میں تین کروڑ ڈالر کا جرمانہ عائد کیا گیا تھا، جب اس نے 2013ع میں امریکی ریگولیٹری ایجنسی ’فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمینیسٹریشن‘ (ایف ڈی اے) کے معائنہ سے پہلے ریکارڈ چھپانے اور اسے تباہ کرنے کا جرم قبول کیا
لیکن مغربی ممالک کا اپنا ریگولیٹری نظام ہے، جسے وہ خاص طور پر ان خلاف ورزیوں کی صورت میں سختی سے نافذ کرتے ہیں جس سے وہ براہ راست متاثر ہوں۔ دراصل امریکی ’ایف ڈی اے‘ کا بھارت میں دفتر موجود ہے، جو ان بھارتی کمپنیوں میں باقاعدہ معائنہ کا اہتمام کرتا ہے جو امریکہ کو ادویات برآمد کرتی ہیں
کئی ماہرین کا خیال ہے کہ بھارتی کے ریگولیٹری نظام کا امریکہ سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً بھارت کے ڈرگس کنٹرولر جنرل جی این سنگھ نے 2014ع میں بزنس اسٹینڈرڈ اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا تھا ’اگر بھارتی مارکیٹ میں سپلائی کرنے والی کمپنیوں کا امریکی معیار کے حساب سے معائنہ کیا جائے تو ہمیں تقریباً ان سبھی کمپنیوں کو بند کرنا پڑے گا۔‘