پاکستان میں کئی مسیحی خواتین مذہب کیوں تبدیل کرنا چاہتی ہیں

ویب ڈیسک

مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی صبا (فرضی نام) راولپنڈی کی رہائشی ہیں۔ صبا نے اپنی ایک تصویر سہیلی کے ساتھ شیئر کی، جس میں اس کے چہرے پر نیل پڑا ہوا تھا اور اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ صبا نے اپنی سہیلی کو بتایا کہ ایسے کئی نشانات اس کے جسم اور روح دونوں پر موجود ہیں

صبا کی شادی کو سولہ برس کا عرصہ بیت چکا ہے، لیکن انہیں اپنی ازدواجی زندگی کے حوالے سے کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ صبا کے شوہر موٹر مکینک ہیں جبکہ پانچ بچوں کے ساتھ کنبے کا گزر بسر بھی مشکل سے ہوتا ہے

صبا بتاتی ہیں ”روٹی کا پتا نہیں لیکن مار روز کھانے کو ملتی ہے۔ میرے شوہر کو بس پیسے چاہییں، چاہے میں جیسے بھی لا کر دوں، میں طلاق چاہتی ہوں لیکن لے نہیں سکتی۔ کیونکہ ہم مسیحی ہیں اور ہمارے مذہب میں طلاق ممکن نہیں‘‘

اگر پاکستان میں مسیحی برادری کے طلاق کے معاملات کی بات کی جائے تو یہ مسیحی مذہب میں طلاق ایکٹ 1869 کے تابع ہیں۔ موجودہ شکل میں طلاق کا مسیحی قانون کسی جوڑے کو صرف اسی صورت میں علیحدگی کی اجازت دیتا ہے، جب ان میں سے کوئی ایک ثابت کر دے کہ دوسرا بد چلنی (یعنی ناجائز جنسی تعلقات) کا مرتکب ٹھہرا ہے

پاکستان کے موجودہ قوانین میں اس معاملے کے لیے شامل دفعات ناکافی ہیں۔ لہٰذا بہت سے مسیحی جوڑے ناخوشگوار ازدواجی زندگی سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنے سے قاصر ہیں اور مشکلات میں زندگی بسر کر رہے ہیں

سابقہ ایم این اے اور پاکستان کرسچن فورم کی چیئرپرسن آسیہ ناصر کہتی ہیں ”مسیحی جوڑوں کے لیے مسلم جوڑوں کی نسبت علیحدگی زیادہ مشکل ہے کیونکہ بائبل کے مطابق تنسیخِ نکاح ممکن نہیں‘‘

آسیہ ناصر کے مطابق، ”بائبل طلاق کی اجازت تو نہیں دیتی لیکن علیحدگی کی اجازت دیتی ہے، مسیحی طلاق ایکٹ کے سیکشن 10 کے مطابق صرف زنا کے الزامات لگا کر شادی تحلیل کرنے کے لیے درخواست دی جا سکتی ہے۔ یہ قانون شادی کو تحلیل کرنا مشکل بنا دیتا ہے کیونکہ اس میں زنا کو ثابت کرنا پڑتا ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے اور بہت سے معاملات میں عدالتی کارروائی میں حکم نامے کے حصول میں مہینوں لگ جاتے ہیں۔“

سال 2019ع میں ’کرسچن میرج اینڈ ڈائیوورس ایکٹ 2019‘ کے عنوان سے ایک مسودہ بل تیار کیا گیا، جس میں ’طلاق ایکٹ 1869‘ اور ’کرسچن میرج ایکٹ 1872‘ میں تبدیلیاں کرنے کی تجویز پیش کی گئی، تاکہ قانون میں مسیحی برادری کو طلاق کے حصول کے لیے دیگر بنیادیں یا وجوہات فراہم کی جا سکیں، تاہم اس فریم ورک میں اب تک کوئی تبدیلی نہیں دیکھی گئی اور یہ بل بھی تاحال پارلیمنٹ سے منظور نہیں ہوا

اس بل کے متعلق آسیہ ناصر بتاتی ہیں ”ہم پرائیوٹ ممبر کے طور پر قوانین میں ترمیم کا بل لے کر وزارت کے سامنے گئے لیکن کمیٹی میں اس پر صحیح سے بحث نہیں ہو سکی وہ بل وزارت اور کمیٹی میں ہی گھومتا رہا‘‘

انہوں نے بتایا ”اُس وقت قائمہ کمیٹی برائے اقلیت میں بل لے کر گئے تھے لیکن اب وہ کمیٹی مذہبی امور میں ضم ہو چکی ہے۔ اقلیتوں کی کمیٹی کا ہونا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ اقلیتوں کے مسائل کو بھی اہمیت مل سکے“

گھریلو تشدد کاشکار صبا کا کہنا ہے ”میری دو جاننے والی خواتین علیحدگی لے چکی ہیں، جو ہمارے مذہب میں ممکن ہے لیکن طلاق نہیں۔ تنسیخِ نکاح مذہب تبدیل کرنے سے بھی ممکن ہے، میں نے بھی اپنا مذہب تبدیل کرنے کا ارادہ کیا ہے کیونکہ اب میں اس تعلق سے تنگ آ چکی ہوں“

انسانی حقوق کی کارکن اور ایڈووکیٹ میری گِل کہتی ہیں ”کرسچن میرج لاء یہاں کا لوکل قانون نہیں ہے یہ قوانین انگریز اپنے ساتھ لائے تھے اور بدقسمتی سے انگریز دور کا قانون آج تک پاکستان میں نافذ ہے۔ یہ قوانین آج کے لحاظ سے بہت کمزور ہیں۔ ان قوانین میں ترامیم نہیں ہو سکیں۔ اس کی وجوہات میں ایک یہ بھی ہے کہ مسیحی برادری ان قوانین کو خداوند کے قانون مانتی ہے اور چرچ ان قوانین میں ترامیم کے لیے تیار نہیں‘‘

انہوں نے بتایا کہ مسیحی طلاق میں شوہر کو عدالت میں بیوی کو بدچلن ظاہر کرنا ہوتا ہے اور اس میں زیادہ تر دوست کو پٹیشن میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ دوسرا طریقہ کار، جو بقول ان کے، آج کل بہت زیادہ ہے کہ شوہر مذہب تبدیل کر لیتا ہے اور اس طرح تنسیخ نکاح ہو جاتا ہے اور اس کے لیے بھی عدالت سے ہی طلاق ملتی ہے

میری گِل کے بقول ”بہت سے لوگوں نے طلاق کی وجہ سے مذہب تبدیل کیا ہے، اس کا اصل ڈیٹا نکلنا بہت مشکل ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر چھپ کر اور کسی کو بتائے بغیر مذہب تبدیل کیا جاتا ہے، زیادہ تر لوگ مذہب اسلام اختیار کرتے ہیں‘‘

میری گِل کہتی ہیں ”اس قانون میں ترمیم اور اپنی خواتین کے لیے کام کرنے پر ہماری اپنی کمیونٹی کی طرف سے ہم پر الزام تراشی ہوئی اور جان سے مارنے کی دھمکی تک دی گئی، لیکن یہ ہمارا مشن ہے اور ہمیں کامیابی یہ ملی ہے کہ اب لوگ اس پر بات کرنا شروع ہو گئے ہیں، جس پر پہلے بات کرنے پر ہی لوگ ڈرتے تھے‘‘

واضح رہے کہ پاکستان میں مسیحی برادری سب سے بڑی اقلیت تصور کی جاتی ہے۔ سن 2005ع میں لگائے گئے اندازوں کے مطابق پاکستان میں مسیحی تقریباﹰ 2.5 ملین یا ملکی آبادی کا 1.6 فیصد تھے۔ مسیحی اقلیت کی اکثریت صوب ہپنجاب میں رہتی ہے۔ مسیحی برادری کے لیے طلاق کا معاملہ ایک چیلنج ہے کیونکہ مسیحی مذہب میں طلاق لینا گویا شادی کے رشتے کی بے حرمتی تصور کیا جاتا ہے۔ طلاق کے لیے مسیحی برادری کے بعض لوگ اب مذہب تبدیل کرنے لگے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close