ڈالر مہنگا ہونے سے بیرونِ ملک زیرِ تعلیم پاکستانی طلبہ کے اخراجات میں دو گُنا اضافہ

ویب ڈیسک

سیالکوٹ کے تجمل محمود کمپیوٹر سائنس کے شعبے میں ماسٹرز کے لیے امریکہ جانا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے سال 2021ع کے اواخر میں ایک کنسلٹنٹ سے رابطہ کیا۔ امریکی ریاست الاباما کی جس یونیورسٹی میں داخلے کا مشورہ ان کے کنسلٹنٹ نے دیا، اس کی سالانہ فیس بارہ ہزار ڈالرز تھی۔ اسی طرح ایک اندازے کے مطابق وہاں تعلیمی اخراجات کے علاوہ ان کے پہلے سال کا خرچ تقریباً گیارہ ہزار ڈالر تھا

تجمل بتاتے ہیں ”گزشتہ برس جس وقت میں نے امریکہ جانے کا ارادہ کیا تھا، تب 23 ہزار ڈالرز کی پاکستانی روپوں میں مالیت تقریباً 40 لاکھ روپے بنتی تھی۔ مگر جب تک داخلے کا عمل مکمل ہوتا، ڈالر کی قیمت 220 روپے سے بھی بڑھ چکی تھی۔
مسئلہ صرف وہاں جا کر پہلے برس کے اخراجات کا نہیں تھا بلکہ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ایئر لائنز کے ٹکٹس وغیرہ سبھی کچھ مہنگا ہوا۔ ایسے میں بینک کی بیلنس شیٹ جہاں چالیس پچاس لاکھ روپے موجود ہونے پر ویزا ملنے میں آسانی ہو سکتی تھی۔ وہاں اب ستر اسی لاکھ روپے ہونا ضروری تھے۔“

یونیورسٹی میں داخلے اور ویزا پراسیس کے عمل میں بینک اسٹیٹمنٹ دکھانے کے لیے تجمل نے پچاس لاکھ روپے جمع کیے تھے، لیکن روپے کی قدر میں گراوٹ سے یہ سارا عمل رائیگاں چلا گیا۔ اب انہیں پہلے مزید رقم اکٹھا کرنی ہے، تبھی وہ دوبارہ اپلائی کر پائیں گے

حال ہی میں انگلینڈ سے بیرسٹر کی ڈگری حاصل کرنے والے مانسہرہ کے حسیب خان بتاتے ہیں ”میں جب ستمبر 2019ع میں انگلینڈ گیا تو ایک پاؤنڈ دو سو روپے سے کم تھا، جو آج دو سو پچھتر روپے سے بڑھ چکا ہے“

بیرسٹر حسیب خان نے انگلینڈ سے قانون میں تین مختلف ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ اپنی ڈگریوں کے دوران انہوں نے تعلیمی اخراجات کے لیے رقم پاکستان سے منگوائی ہے۔ لیکن لندن آنے سے قبل انہوں نے ذہن میں تعلیمی اخراجات کا جو بجٹ بنایا تھا، اس میں اب کہیں زیادہ اضافہ ہوچکا ہے۔ جس کی واحد وجہ روپے کی قدر میں کمی ہے

انہوں نے سب سے پہلے ماسٹرز ان فراڈ اینڈ فنناشل کرائمز میں داخلہ لیا، جس کی فیس نو ہزار پاؤنڈ تھی۔ اس کے بعد ’پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ اِن لا‘ کی فیس تقریباً گیارہ ہزار پاؤنڈ اور ’بار ایٹ لاء‘جو انہوں نے حال ہی میں مکمل کیا، اس کی مد میں تقریباً چودہ ہزار پاؤنڈ کی فیس ادا کی

ان کے مطابق بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے طلبہ کی نہایت کم تعداد ہی ایسی ہوتی ہے، جو مکمل تعلیمی اخراجات پاکستان سے منگواتی ہے۔ زیادہ تر طلبہ پہلے سمسٹر کی فیس گھر سے لے کر آتے ہیں جو ڈالر کی قدر میں اضافے کے بعد اب کئی گنا بڑھ گئی ہے

اس ساری صورتحال میں مڈل کلاس طلبہ کے لیے بیرون ملک تعلیم کے مواقعوں میں کمی آئی ہے

اسلام آباد میں ایک نجی ایجوکیشنل کنسلٹنٹ کمپنی چلانے والے ڈاکٹر عقیل کا کہنا ہے ”روپے کی قدر میں گراوٹ سے بیرون ملک جانے والے طلبہ کے اخراجات میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ ایلیٹ کے علاوہ بھی اپر مڈل اور مڈل کلاس کے بہت سے لوگ یہ خواش رکھتے ہیں کہ ان کا بچہ بیرونِ ملک سے تعلیم حاصل کرے۔ جو موجودہ حالات میں اپنی اس خواہش کی تکمیل نہیں کر سکتے۔ اور اخراجات بڑھنے کی وجہ سے بیرونِ ملک حصول تعلیم کے لیے جانے والے طلبہ کی تعداد میں واضح کمی ہوگی“

ڈاکٹر عقیل کے مطابق امریکی یونیورسٹیوں میں اوسطاً سترہ اٹھارہ ہزار ڈالرز تک تعلیمی اخراجات آتے ہیں، جب کہ رہائش وغیرہ کے دس ہزار ڈالر علیحدہ ہیں

زیادہ تر ممالک میں مقامی لوگوں کو تعلیمی اخراجات کے لیے قرضے بھی مل جاتے ہیں، لیکن یہ سہولت پاکستان سے جانے والوں کو میسر نہیں ہوتی۔ اس لیے اب زیادہ سے زیادہ طلبہ کو اضافی اخراجات پورے کرنے کے لیے نوکریاں کرنا پڑ رہی ہیں

ڈاکٹر عقیل کہتے ہیں ”مالی مشکلات کے سبب ان سے دس میں سے سات ایسے طلبہ رابطہ کرتے ہیں، جو یورپ کی یونیورسٹیوں میں اسکالرشپ پر جانا چاہتے ہیں“

تاہم ایک اور فارن ایجوکیشن کنسلٹنٹ زارا فضا کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں گراوٹ سے طلبہ کی مشکلات میں اضافہ تو ہوا ہے مگر یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ زارا سمجھتی ہیں کہ بیرون ملک تعلیم کے لیے زیادہ تر وہی والدین اپنے بچے بھیج سکتے ہیں، جو معاشی طور پر نہایت خوشحال ہوں۔ اب اگر دس بیس لاکھ کا فرق پڑ بھی جائے تو ایسے خاندانوں کے لیے یہ رقم بہت معمولی ہے

جبکہ بیرسٹر حسیب خان کے مطابق پاکستان سے بیرون ملک پڑھنے کے لیے جانے والے طلبہ کی انتہائی قلیل تعداد ایسی ہوتی ہے، جو اپنے تمام اخراجات پاکستان سے منگواتی ہے۔ اکثریت کو باہر جاتے ہی ڈگری کے ساتھ کوئی چھوٹی نوکری ڈھونڈنا پڑتی ہے۔ طلبہ کی اکثریت مالی اعتبار سے اتنی مضبوط نہیں ہوتی کہ وہ یہاں کی تعلیم کا مکمل خرچہ اٹھا سکیں۔ اس لیے مجبوراً ساتھ نوکری کرنا پڑتی ہے

حسیب خان کے مطابق برطانیہ میں فیسوں کے علاوہ مہینے کا خرچ کم از کم سات سے آٹھ سو پاؤنڈ ہوتا ہے اور اگر کچھ عرصہ پہلے تک کوئی یہ اخراجات برداشت کر بھی سکتا تھا تو اب یہ ان کی استطاعت سے باہر ہے۔ تعلیم اور دیگر اخراجات کے لیے یہاں آنے والے طلبہ کی اکثریت باقی اوقات میں سکیورٹی، ہوم ڈیلیوری ، ریٹیل اور ریسٹورینٹس وغیرہ کے شعبوں میں معمولی نوکریاں کرتی ہے۔
اس سارے عمل میں طلبہ امتحانات پاس تو کر لیتے ہیں مگر اچھے گریڈز اور علمی قابلیت میں اضافے کا وقت نہیں بچتا۔ اس کے علاوہ پاکستان سے حاصل کی ہوئی تعلیم کا بھی کوئی خاص معیار نہیں اس لیے یہاں کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے ڈگریاں لینے کے بعد بھی اس درجے کا فائدہ نہیں ہو پاتا

حسیب خان کہتے ہیں ”جو اخراجات پاکستانی روپوں میں پہلے دس لاکھ تک تھے، اب وہ پندرہ لاکھ تک جا چکے ہیں“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close