یہاں جن کا ذکر ہونے والا ہے ممکن ہے وہ آپ ہوں یا پھر آپ کا کوئی جاننے والا۔۔۔ جو ”ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں، میں ہر اک کام کرنے میں“ کی جیتی جاگتی تصویر ہو۔ یعنی
ہر کام میں ہمیشہ ہی لیٹ
ہم کام میں دیر کرنے یا کہیں لیٹ پہنچنے پر کوئی نہ کوئی بہانہ بھی بنا لیتے ہیں، دوسروں کو یقین دلاتے اور خود سے عہد کرتے ہیں کہ آئندہ سے ایسا نہیں کریں گے، لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات
کیا یہ بہانے واقعی جھوٹے بہانے ہوتے ہیں یا ہمیشہ لیٹ ہونے والے افراد اپنی ’عادت کے ہاتھوں مجبور‘ ہوتے ہیں؟
اس بارے میں سائنسدانوں کا خیال ہے کہ کچھ حد تک لیٹ ہونا انسانی شخصیت کا خاصہ ہوتا ہے اور لیٹ ہونے والے افراد ذہنی طور پر مختلف انداز میں سوچتے ہیں
سنہ 2014ع کے ایک سروے کے مطابق: پانچ میں سے ایک امریکی ہر ہفتے میں کم از کم ایک مرتبہ لیٹ ہو جاتا ہے یعنی ہفتے کے دوران ایک نا ایک موقع ایسا ضرور آتا ہے، جب وہ مقررہ وقت پر کہیں پہنچ نہیں پاتا
اسی موضوع پر مصنفہ گریس پیسی نے ایک کتاب ’لیٹ!‘ کے نام سے لکھی ہے۔ وہ کہتی ہیں ”عام افراد دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک ٹائم کیپر یعنی وقت کے پابند جو ہمیشہ وقت پر پہنچنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں، اور دوسرے ٹائم بینڈر، یعنی جو ہمیشہ وقت سے پیچھے رہتے ہیں“
گریس پیسی کا کہنا ہے ”ٹائم بینڈر (یعنی ہمیشہ وقت سے پیچھے رہنے والے) افراد کو روٹین پسند نہیں ہوتی اور اُنہیں یکسانیت سے بہت کوفت ہوتی ہے، اس لیے وہ بہت جلدی بور ہو جاتے ہیں“
اُن کے مطابق: ”ٹائم بینڈر افراد کو اگر کسی کام میں دلچسپی ہو تو وہ اس پر بھرپور توجہ مرکوز کر سکتے ہیں اور اگر ان کے پاس وقت کی کمی ہو تو ان کا کام نہایت مؤثر ہو جاتا ہے۔“
گریس پیسی کہتی ہیں ”اگر آپ دفتر میں ٹائم بینڈرز کا پتا چلانا چاہیں تو یہ وہ افراد ہوں گے، جن کے ڈیسک ہمیشہ بے ترتیب اور مختلف چیزوں سے بھرے ہوئے ہوں گے کیونکہ وہ ایک کام ختم کرنے سے پہلے ہی دوسرا کام شروع کر دیتے ہیں“
کتاب ’دی ایکسپیکٹیشن افیکٹ‘ کے مصنف ڈیوڈ رابسن کہتے ہیں ”ہر کام نفاست سے اور وقت پر کرنا شخصیت کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے۔ اس کا پتا آپ لوگوں سے یہ پوچھ کر چلا سکتے ہیں کہ وہ زندگی میں کتنی ترتیب پسند کرتے ہیں۔“
ہو سکتا ہے کہ ہمیشہ دیر کر دینے والے لوگوں میں یہ چیز تھوڑی سی کم ہو، مگر کیا بات یہیں ختم ہو جاتی ہے یا اس سے بھی بڑھ کر کچھ ہے؟
گریس پیسی کہتی ہیں ”ٹائم بینڈر (لیٹ ہونے والے) افراد کو وقت کا احساس مختلف انداز میں ہوتا ہے اور ان کا ہر منٹ ایک جتنا طویل نہیں ہوتا۔ ایسے افراد کے لیے وقت تیز بھی ہو سکتا ہے اور سست بھی، اس لیے ہو سکتا ہے کہ وہ کسی چیز میں انتہائی متوجہ ہوں اور اُنہیں وقت کے گزرنے کا احساس بھی نہ ہو، اور یہ بھی ان کے لیے عام ہے کہ جب ڈیڈلائن ان کے سر پر کھڑی ہو تو وہ بہترین انداز میں کام کرنے لگیں“
سنہ 2016ع میں واشنگٹن یونیورسٹی کے محققین نے اس بات کا جائزہ لیا کہ مختلف افراد اپنے ذہن میں وقت کی کتنی اچھی پیمائش کر سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے لوگوں کو کچھ ٹاسک دیے گئے اور ساتھ میں گھڑی بھی، تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ کتنا وقت گزر چکا ہے
مگر یہ ٹاسک اتنے توجہ طلب تھے کہ اُنہیں گھڑی دیکھنا یاد ہی نہ رہے
تو سائنسدانوں نے پایا کہ کچھ لوگ ذہنی طور پر وقت کے گزرنے کا زیادہ بہتر اندازہ رکھتے تھے
کئی لوگوں کا جہاز یا ٹرین کبھی نہیں چھوٹتی، لیکن اگر اُنہیں اپنے بچوں کو وقت پر اسکول چھوڑنا ہو تو یہ کام وہ نہیں کر پاتے۔ ایسا کیوں ہے؟
گریس پیسی کہتی ہیں کہ ٹائم بینڈر افراد ہر چیز کے لیے لیٹ نہیں ہوتے بلکہ صرف وہاں لیٹ ہوتے ہیں، جہاں انہیں لگے کہ اس کے نتائج نہیں بھگتنے ہوں گے
اس لیے ہم سب سے زیادہ تاخیر اس وقت کرتے ہیں، جب ہمیں کسی چیز کی ڈیڈلائن نہ دی گئی ہو اور نہ ہی ہمیں اسے پورا نہ کرنے کے نتائج سے آگاہ کیا گیا ہو، مثلاً سماجی ملاقاتیں اور ایونٹس وغیرہ
اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ ہم تب وقت پر پہنچتے ہیں جب یہ اہم ہو، تو ہمارے آس پاس کے لوگوں کو یہ سوچ کر تکلیف پہنچ سکتی ہے کہ کیا وہ اہم نہیں جنہیں انتظار کرنا پڑ رہا ہے؟
چنانچہ گریس پیسی کا کہنا ہے کہ ڈیڈلائن کی اہمیت سمجھنی چاہیے اور ایسے افراد کو چاہیے کہ وہ ڈیڈلائن یا تو خود طے کریں یا پھر دوسروں سے کہیں، تاکہ ہم اسے سنجیدگی سے لیں اور یہ ضروری ہے کہ ڈیڈلائن پوری نہ کرنے کے نتائج ہوں کیونکہ دوسری صورت میں ہم نے اس پر عمل نہیں کرنا
کیا کیا جا سکتا ہے؟
ہمارے لیٹ ہونے پر سب سے زیادہ الجھن ہمارے دوستوں کو ہوتی ہے اور دوستوں کے ہر گروپ میں کوئی نہ کوئی ایسا دوست ہوتا ہی ہے جو ہمیشہ لیٹ ہو۔۔ اگر آپ کے گروپ میں آپ کو ایسا کوئی نظر نہیں آتا، تو ہو سکتا ہے کہ وہ آپ خود ہی ہوں
ویسے اگر کوئی شخص اپنے دوستوں میں لیٹ ہونے کے لیے مشہور (یا بدنام کہیں) ہے تو مسئلہ مزید خراب ہو سکتا ہے
ڈیوڈ رابسن کہتے ہیں کہ لیٹ ہونے والے افراد اس کا قصوروار اپنے جینز کو اتنا زیادہ ٹھہراتے ہیں کہ وہ خود کو ٹھیک کرنے کی ضرورت تک محسوس نہیں کرتے، اس لیے ہمارے اپنے بارے میں خیالات حقیقت کا روپ دھارنے لگتے ہیں اور یہ چیز بہت پریشان کن ہو سکتی ہے حالانکہ ہم تھوڑی سی کوشش سے اپنے اندر بہتری بھی لا سکتے ہیں
لیکن نفسیات میں تازہ ترین تحقیقات ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ عادات و اطوار کو بدلنا ناممکن نہیں ہے بلکہ کچھ محنت کے ذریعے یہ کیا جا سکتا ہے۔۔ اگر ایسا ہے تو کیا ہم خود کو وقت اور ترتیب کا پابند بنا سکتے ہیں؟
ڈیوڈ رابسن کہتے ہیں کہ کئی تحقیقوں میں یہ دیکھا گیا کہ جب لوگوں سے کہا جاتا کہ وہ کچھ ہفتوں اور کچھ مہینوں کے لیے روزانہ اپنا ایک شیڈول ترتیب دیں اور اسی کے مطابق اپنا کام کریں، مثلاً ڈیسک کو ترتیب میں لانے کے لیے وقت مختص کریں، تو یہ دیکھا گیا کہ کچھ ہی عرصے بعد لوگوں کے ذہنوں میں یہ عادت کے طور پر پختہ ہونے لگیں
تو اگر آپ بھی ٹائم بینڈر ہیں تو کچھ حد تک ضرور ایسا ہے کہ یہ آپ کی شخصیت کا حصہ ہے اور کچھ لوگ ذہنی طور پر وقت کے گزرنے کا بہتر احساس رکھتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ آپ اسے اپنی تقدیر مان لیں، بلکہ کچھ محنت کے ذریعے یہ مسئلہ حل بھی کیا جا سکتا ہے۔