اسرائیل کی ایک جیل سے ایک ایسے فلسطینی کو بالآخر رہا کر دیا گیا ہے، جو وہاں طویل ترین قید کاٹنے والے قیدیوں میں سے ایک تھا۔ کریم یونس نامی اس فلسطینی کو اسے سنائی گئی چالیس سال کی سزائے قید پوری ہونے پر رہا کیا گیا
کریم یونس کی عمر اس وقت ساٹھ برس ہے، انہیں 1983ع میں چالیس برس قید کی سزا سنائی گئی تھی، جب وہ صرف بیس سال کے تھے۔ انہیں یہ سزا گولان کی پہاڑیوں کے مقبوضہ شامی علاقے میں اوراہام برومبرگ نامی ایک اسرائیلی فوجی کے اغوا اور قتل کا الزام لگا کر سزا سنائی گئی تھی
کریم یونس کو جمعرات پانچ جنوری کو شمالی اسرائیل کے ضلع حیفہ کی وادی عارہ میں عارہ جیل سے رہا کیا گیا
اس فلسطینی قیدی کا شمار اسرائیلی جیلوں میں طویل ترین سزائے قید کاٹنے والے فلسطینیوں میں ہوتا تھا۔ اس کے برعکس فلسطینی قیدیوں کی ایسوسی ایشن پی پی اے نے کہا ہے کہ کریم یونس ایسے واحد فلسطینی ہیں، جنہوں نے کسی بھی اسرائیلی جیل میں آج تک کی طویل ترین دورانیے کی مسسل قید کاٹی ہے
کریم یونس کا تعلق حیفہ میں عارہ ہی سے ہے، جو شمالی اسرائیل کا ایک عرب گاؤں ہے اور اس فلسطینی کی جائے پیدائش بھی
جیل سے رہائی کے بعد یہ ساٹھ سالہ فلسطینی گزشتہ روز جب اپنے آبائی گاؤں پہنچے، تو وہاں کی مقامی آبادی نے اس کا ایک ہیرو کی طرح کا استقبال کیا
کریم یونس نے روایتی فلسطینی رومال اوڑھا ہوا تھا۔ ان کا خیرمقدم کرنے والوں میں اس کے اہل خانہ، دوست اور بہت سے مقامی باشندے شامل تھے، جو نعرے لگا رہے تھے اور جنہوں نے اسے کندھوں پر اٹھا کر عارہ کی گلیوں میں مارچ کیا
کریم یونس نے اپنے آبائی گاؤں لوٹنے کے بعد کہا ”میں نے جو چالیس برس جیل میں گزارے، وہ بے شمار ایسی کہانیوں، قیدیوں کی کہانیوں سے بھرے ہوئے چار عشرے ہیں، جن میں سے ہر کہانی ایک قوم کی کہانی ہے۔‘‘
اس موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے فلسطین کے لیے جو بھی قربانیاں دیں، اُنہیں اِن پر فخر ہے
اسرائیل کی مجموعی آبادی میں عربوں کا تناسب تقریباً بیس فی صد بنتا ہے۔ یہ اسرائیلی عرب باشندے زیادہ تر ان مقامی فلسطینیوں کی موجودہ نسل کے ارکان ہیں، جنہوں نے 1948ع میں اسرائیلی ریاست کے قیام کے وقت وہاں سے چلے جانے کے بجائے، وہیں رہنے کا فیصلہ کیا تھا
ان مقامی عرب باشندوں کے اسرائیلی سیاست میں مقام پر بھی طویل عرصے تک بحث ہوتی رہی ہے کیونکہ انہیں اپنی فلسطینی میراث اور اسرائیلی شہریت دونوں کے درمیان توازن رکھنا ہوتا ہے۔ ان اسرائیلی عربوں کی بہت بڑی اکثریت یا تو خود کو فلسطینی کہتی ہے یا پھر فلسطینیوں اور ان کی جدوجہد سے ہمدردی رکھتی ہے
کریم یونس کو بیس سال کی عمر میں گرفتار کر کے چالیس سال جیل میں رکھ کر ساٹھ سال کی عمر میں رہا کرنے کے بعد بھی اسرائیل کے کلیجے میں ٹھنڈ نہیں پڑی اور اب اسرائیل میں ابھی حال ہی میں انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے تعاون سے اقتدار میں آنے والی نئی حکومت کے کئی ارکان نے مطالبہ کیا ہے کہ کریم یونس کو جیل سے رہا تو کر دیا گیا ہے، لیکن اب ان کی اسرائیلی شہریت بھی منسوخ کر دی جانا چاہیے۔ نئے اسرائیلی وزیر داخلہ ارییہ درعی نے مطالبہ کیا ہے کہ کریم یونس کی اسرائیلی شہریت منسوخ کی جائے
وزیر داخلہ ارییہ درعی نے اسرائیلی اٹارنی جنرل کے نام اپنے ایک خط میں لکھا، ”کریم یونس کی شہریت منسوخ کیے جانے سے ہر کسی کو ایک اہم پیغام ملے گا۔‘‘