صوبہ سندھ کے ضلع سانگھڑ میں ایک بیوہ خاتون کو بے دردی سے قتل کرنے والے ملزمان کو پولیس نے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ پولیس کے مطابق ملزمان نے جادو ٹونے کے لیے پینتالیس سالہ بیوہ عورت کو قتل کیا اور اس کے جسم کے اعضا نکالے
ایس ایچ او سنجھورو محمد جمن کھوسو نے بتایا کہ 27 دسمبر 2022 کو سندھ کے ضلع سانگھڑ کے تعلقہ سنجھورو کے علاقے ڈپٹی گوٹھ میں کھیتوں سے عورت کی لاش ملی تھی، جسے بے دردی سے قتل کیا گیا تھا
ایس ایچ او کے مطابق ’لاش کی شناخت پینتالیس سالہ دیا بھیل کے نام سے ہوئی تھی، جس کا تعلق ہندو برادری سے تھا۔ مقتولہ کو تشدد کے بعد قتل کیا تھا اور جسم کے اعضاء نہ صرف جدا کر دیے گئے تھے بلکہ چہرے کی کھال اور سر کے بال بھی کاٹے گئے تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ واقعے کے بعد پولیس کے اعلیٰ افسران نے تحقیقات کے لیے ڈی ایس پی جاوید اقبال چانڈیو کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی تھی
پولیس ٹیم نے واقعے کے تمام پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لیا اور کیس سے جڑے افراد سے تفتیش کا آغاز کیا
’مقتولہ کی لاش کا پوسٹ مارٹم کرایا گیا، اس کے ساتھ ساتھ لاش کے قریب سے ملنے والی 17 مختلف چیزوں کا فرانزک اور علاقے کے 42 افراد کا ڈی این اے بھی کروایا گیا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’جائے وقوعہ سے پیری اور کھوجی کتوں کی مدد سے اہم شواہد جمع کیے گئے اور سو سے زائد افراد کو شاملِ تفتیش کیا گیا۔‘
ایس ایچ او کے مطابق ابتدائی طور ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو حراست میں لیا گیا تھا، جس نے دورانِ تفتیش بتایا کہ اس نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ خاتون کا کھیت میں قتل کیا ہے۔ ملزم کی نشاندہی پر پولیس نے دیگر تین افراد کو بھی حراست میں لیا ہے
پولیس کے مطابق ’ملزم نے ساتھیوں کی مدد سے کلہاڑی اور چاقو سے قتل کرنے کے بعد بلیڈ کے ذریعے خاتون کے چہرے اور مختلف جگہ کی کھال اتاری اور سر کے بال کاٹے۔‘
پولیس نے مزید بتایا کہ ملزمان نے مقتولہ کی کھال اور بال جادو ٹونے میں استعمال کے لیے اتارے تھے۔ پولیس نے ملزمان کی نشاندہی پر جائے وقوعہ سے واردات میں استعمال ہونے والا چاقو، بلیڈ اور کچھ بال برآمد کرلیے ہیں
◼️واقعہ کب اور کیسے پیش آیا؟
"اماں نے مجھے کہا کہ تم اب گھر رکو میں باقی گھاس لے کر آتی ہوں، یہ کہہ کر وہ چلی گئیں لیکن پھر لوٹ کر نہیں آئیں۔” یہ کہنا ہے مقتولہ دیا بھیل کی کمسن بیٹی کا جو اپنی ماں کے قتل کی صبح گھاس کاٹنے ساتھ گئی تھی
ضلع سانگھڑ کے علاقے سنجھورو کے گاوں ڈپٹی کی رہائشی دیا بھیل، بیوہ اور پانچ بچوں کی ماں تھی ان کے بچوں میں ایک بیٹا اور چار بیٹیاں شامل ہیں جن میں ایک بیٹی کے علاوہ تمام شادی شدہ ہیں
دیا کے خاندان کا کہنا ہے کہ وہ 28 دسمبر کی صبح معمول کے مطابق گھر سے کچھ فاصلے پر سرسوں کے کھیتوں کے پاس گھاس کاٹنے نکلی تھیں۔
اس وقت ان کی چودہ برس کی بیٹی ان کے ہمراہ تھی۔ گھاس کا ایک گٹھر وہ اپنی بیٹی کے ساتھ گھر لائیں جس کے بعد انہوں نے اپنی بیٹی کو گھر ہی میں رکنے کا کہا اور باقی گھاس لینے کے لیے دوبارہ کھیتوں کا رخ کیا جس کے بعد وہ واپس نہیں آئیں
کئی گھنٹوں کی تلاش کے بعد ان کی لاش گھر سے پانچ سو میٹر کی دوری پر رات میں ان ہی کھیتوں کے قریب سے ملی جہاں وہ گئی تھیں
دیا کے اہلِ خانہ کے مطابق اُن کا سر تن سے الگ تھا جب کہ چہرے، سینے اور بازؤں کی کھال کھینچ لی گئی تھی
پولیس نے لاش کا ابتدائی معائنہ کر کے اسے پوسٹ مارٹم کے لیے سول اسپتال روانہ کیا، جہاں اسپتال انتظامیہ کا کہنا تھا کہ قتل کے لیے تیز دھار آلہ استعمال کیا گیا ہے
ذرائع نے بتایا تھا کہ جمعے کی شام کو پولیس کو دیا کے اس روز زیرِ استعمال گھاس کاٹنے والی داتری اور کپڑا ان کے گھر کے قریب سے ملا ہے جس کے بعد تحقیقات میں مزید تیزی آ گئی
سندھ ٹی وی کے سینئر صحافی انجم آفتاب کا کہنا تھا کہ دیا بھیل کے قتل کے روز وہ جائے وقوعہ پر موجود تھے۔ اُن کے بقول ’’جہاں سے دیا کی لاش ملی وہاں خون کے دھبے نہیں تھے تاہم وہا ں سے ایک گولی کا خول بر آمد ہوا۔ پولیس نے لاش کو سول اسپتال پہنچانے کے بعد سراغ رساں کتوں کی مدد سے کھیتوں کی تلاشی بھی لی۔‘‘
ایک خاتون کے یوں بے دردی سے قتل کیے جانے پر بھیل برادی میں خاصا خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ لیکن دیا بھیل کے بیٹے سومر بھیل کا یہ مؤقف ہے کہ ان کی والدہ اور ان کے خاندان کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی
واقعے کی ایف آئی آر سیکشن 302 کے تحت دیا بھیل کے بیٹے کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کر لی گئی تھی، جس کے بعد تحقیقات میں تیزی آ گئی
واقعے کے چند گھنٹوں کے بعد پولیس نے چھ سے سات گرفتاریاں کیں جن میں دیا بھیل کے خاندان کے کچھ افراد سمیت جادو ٹونے کرنے والے مرد جنہیں مقامی زبان میں (بھوپے)کہا جاتا ہے، کو پولیس نے تحویل میں لے لیا تھا
مقامی افراد کے مطابق دیا بھیل بیوہ ہونے کے باوجود اپنی گزر بسر خود محنت کر کے کیا کرتی تھیں۔ وہ کھیتوں میں کام کرتی تھیں اور کچھ مویشی بھی اُن کی ملکیت تھے۔ جس گھر میں وہ اپنی چھوٹی بیٹی کے ساتھ رہائش پذیر تھیں وہ بھی ان کی ملکیت بتایا جارہا ہے
ان کا شادی شدہ بیٹا ان کے گھر کے نزدیک ہی اپنے خاندان کے ہمراہ رہتا ہے۔ اہلِ محلہ کا کہنا ہے کہ جس طرح سے دیا کو قتل کیا گیا انہوں نے نہ کبھی ایسا واقعہ پہلے سنا نہ دیکھا
جبکہ سانگھڑ کے رہائشی عبدالخالق چانڈیو کا کہنا تھا کہ اس طرح کسی عورت کا قتل پہلی بار نہیں ہوا اس سے قبل بھی کنری، عمرکوٹ اور دیگر علاقوں میں غیرت کے نام پر متعدد عورتوں کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا رہا ہے۔