معاشیات کے طالب علم اسلم پچھلے دو سال سے سن رہے ہیں کہ پاکستان دیوالیہ ہونے کی قریب ہے، لیکن وہ ابھی تک مکمل طور پر سمجھ نہیں پائے کہ دیوالیہ پن کسے کہتے ہیں، ملک دیوالیہ کیوں ہوتے ہیں، اگر ملک دیوالیہ ہو جائے تو اس سے عوام پر کیا فرق پڑتا ہے اور کیا دیوالیہ ہونے کے بعد ملک دوبارہ نارمل حالت میں واپس آ سکتا ہے یا نہیں؟
اسلم کو ابھی تک اپنے سوالوں کے جواب نہیں ملے ہیں، ان سمیت اکثر پاکستانی اس بارے جاننا چاہتے ہیں
اس حوالے سے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ کہتے ہیں ”جب کوئی ملک اپنے بیرونی قرضے کی قسطیں اور اس پر سود کی ادائیگی سے قاصر ہو تو اس ملک کو دیوالیہ قرار دیے دیا جاتا ہے۔ اندرونی قرضوں کی عدم ادائیگی سے ملک کے دیوالیہ ہونے کے خدشات کم ہوتے ہیں۔ عمومی طور پر سرکار مزید نوٹ چھاپ کر اندرونی قرضے ادا کر دیتی ہے، اصل مسئلہ بیرونی قرضوں اور ڈالرز کا ہے کیوں کہ وہ کمانے پڑتے ہیں اورچھاپے نہیں جان سکتے“
ڈاکٹر سلیمان شاہ کا کہنا ہے ”اگر کوئی ملک ڈالرز نہیں کما پا رہا اور وہ دیوالیہ بھی نہیں ہونا چاہتا تو پھر ضروری ہے کہ دوست ملک یا ادارہ ملکی خزانے میں ڈالرز جمع کروائے، جس سے وہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کر سکے۔ اگر یہ سہولت بھی میسر نہ آئے تو بھی ملک دیوالیہ ڈکلئیر کر دیا جاتا ہے۔ دیوالیہ ہونے کی صورت میں کرنسی کی قدر روازنہ کی بنیادوں پر بہت تیزی سے گرنا شروع ہو جاتی ہے جیسا کہ وینزویلا میں ہوا کہ جب یہ ملک دیوالیہ ہوا تو اس کی کرنسی اس قدر بے وقعت ہو گئی تھی کہ یہ سڑکوں پر بکھری رہتی تھی اور لوگ اس پر چلا کرتے تھے۔ ڈالر ہی ملکی کرنسی بن جاتی ہے۔ ممکن ہے کہ ملک سے جانے والا تجارتی مال ضبط کر لیا جائے اور آپ کے ملک کے ہوائی جہاز اور بحری جہاز کسی دوسرے ملک میں قبضے میں لے لیے جائیں“
سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا نے بتاتے ہیں ”ملک دیوالیہ اس لیے ہوتے ہیں کیونکہ وہ برآمدات کی بجائے درآمدات پر زیادہ انحصار کرنے لگتے ہیں۔ تجارتی خسارہ اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ غیر معمولی حد تک بڑھتا ہے۔ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہونے لگتے ہیں۔ کریڈٹ ریٹنگز نچلی سطح پر پہنچ جاتی ہیں۔ کریڈٹ ڈیفالٹ سویپ سو فیصد تک بڑھا جاتا ہے۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں قرضے لینے کے لیے جاری کیے جانے والے بانڈز بھی زیادہ شرح سود پر لیے جاتے ہیں یعنی ملک کو ان بانڈذ میں انویسٹ کرنے والوں کو زیادہ منافع دینا پڑتا ہے۔ قرضوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوجاتا ہے“
ان کا کہنا ہے ”دیوالیہ ہونے کے بعد عوام کی قوت خرید انتہائی کم ہو جاتی ہے۔ افراطِ زر پچاس فی صد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ زندگی بچانے والی ادویات دستیاب نہیں ہوتیں۔ پیٹرولیم مصنوعات درآمد نہیں ہو پاتیں۔ چودہ سے پندرہ گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ معمول بن جاتی ہے۔ فیکٹریاں اور ہوٹلز بند ہونے لگتے ہیں اور سرمایہ بیرون ملک منتقل ہونے لگتا ہے“
ڈاکٹر فرخ سلیم پہلے معیشت دان ہیں، جنہوں نے سری لنکا کی طرز پر پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے خدشے کا اظہار کیا تھا۔ وہ سری لنکا کے حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا ”دیوالیہ ہونے کے بعد سری لنکا میں صبح سے شام تک کی زندگی کسی جنگ سے کم نہیں۔ مہنگائی سو فیصد بڑھ چکی ہے۔ زندگی بچانے والی ادویات ناپید ہو چکی ہیں اور اگر کہیں مل بھی رہی ہیں تو ان کی قیمت اتنی زیادہ ہے کہ امیر طبقہ بھی خریدنے سے پہلے دس بار سوچتا ہے“
وہ کہتے ہیں ”بنیادی ادویات نہ ملنے کی وجہ سے متعدد لوگوں کی موت واقع ہو چکی ہے۔ ایک نوجوان کو سانپ نے ڈس لیا۔ لیکن دوائی نہیں مل سکی اور وہ مر گیا۔ پیٹرول ڈلوانے کے لیے اڑتالیس گھنٹوں تک لائن میں کھڑے ہونا معمول بن گیا ہے۔ لوگ سونے کا سامان گاڑی میں رکھ کر لاتے ہیں اور لائن میں رہتے ہوئے نیند پوری کرتے ہیں۔ بچوں کی پوری نسل پروٹین سے بھرپور کھانا کھانے سے محروم ہو رہی ہے۔ دال بھی لگژری آئٹم بن چکی ہے۔ سری لنکن عوام کی اکثریت مخصوص سبزیاں اور پتے کھانے پر مجبور ہے۔ وہ چکن، فش اور گوشت خریدنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے“
ڈاکٹر فرخ سلیم کا مزید کہنا تھا ”بچوں کے دل، دماغ، پٹھے اور ہڈیوں کو وہ نہیں مل رہا، جس کی انہیں اشد ضرورت ہے۔ دودھ کا پاؤڈر درآمد ہوتا ہے۔ اس لیے وہ بازاروں میں غائب ہے۔ سبزیاں اور پھل اگانے کے لیے فرٹیلائزر درآمد کرنا پڑتا ہے۔ ڈالرز نہ ہونے کی وجہ سے درآمد بہت مشکل ہو چکی ہے جس کی وجہ سے عمومی استعمال ہونے والی سبزیوں اور پھلوں کی قلت پیدا ہو رہی ہے۔ پاکستان میں بھی عوامی حالات سری لنکا جیسے ہو سکتے ہیں“
کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن کے جزل سیکٹری ظفر پراچہ نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ جس ملک میں ڈالرز ختم ہو جائیں اسے دیوالیہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ چاہے ملک اعلان کرے یا نہ کرے۔ دیوالیہ پن خطرناک صورتحال ہے۔ خوراک کی مہنگائی پہلے ہی تقریبا پنتالیس فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ دیوالیہ ہونے کے بعد یہ ستر فی صد تک بڑھ سکتی ہے۔ دیوالیہ ہونے کے بعد واپسی کا سفر کافی لمبا اور کٹھن ہوتا ہے۔ عوام کی معاشی حالت ببہت دیر کے بعد ٹھیک ہوتی ہے۔ یونان تقریبا دس سال قبل دیوالیہ ہوا تھا۔ یورپی یونین کی مکمل سپورٹ کے باوجود وہ آج تک پرانی حالت میں بحال نہیں ہو سکا ہے۔ ڈیفالٹ سے بچنے کا واحد حل آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کرنا ہے۔ جو ملک آئی ایم ائف کے پینل پر رہے ہیں وہ کبھی ڈیفالٹ نہیں کیے۔