’گوشت اگانے‘ کا خیال کوئی آج کا نہیں ہے، بلکہ لگ بھگ ایک صدی پہلے بھی یہ کسی نہ کسی صورت میں موجود تھا۔ 1932ع میں ونسٹن چرچل نے اپنے ایک مضمون ’ففٹی ایئرز ہینس‘ میں لکھا تھا ”ہمیں اس فضول بات سے بچنا ہوگا کہ ہم صرف ’بریسٹ‘ (سینہ) یا پھر ’ونگز‘ (بازو) کھانے کے لیے باقی گوشت کو ضائع کر دیں، ہمیں کسی طریقے سے یہ مختلف حصے علیحدہ علیحدہ اگانے چاہییں‘‘
ممکن ہے اُس وقت چرچل کے اس خیال کو حیرت اور غیر یقینی کے ساتھ سنا گیا ہو لیکن اب یہ خیال حقیقت کا روپ دھار چکا ہے اور جلد ہی لیبارٹری میں تیار شدہ گوشت امریکہ کی مارکیٹوں میں دستیاب ہوگا
حال ہی میں امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے ’اپ سائیڈ فوڈز‘ نامی کمپنی کو لیبارٹری گوشت کی فروخت کے لیے ہری جھنڈی دکھا دی ہے۔ ایف ڈی اے نے فی الحال ’مصنوعات کی حفاظت‘ کا جواز پیش کرتے ہوئے اس بارے میں مزید معلومات فراہم نہیں کی کیں
یہی وجہ ہے کہ عام طور پر لیبارٹری کے گوشت کے بارے میں نہ صرف بہت سارے سوالات کے جوابات نہیں ملتے بلکہ اس حوالے سے بہت سے حقائق مبہم بھی ہیں
کیا لیبارٹری کا گوشت ویگان ہے؟
اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ لیبارٹری میں تیار کیے جانے والے گوشت کا جانوروں سے کوئی لینا دینا نہیں ہوگا، تو جان لیجیے کہ ایسا نہیں ہے، کیونکہ لیبارٹری میں ’گوشت اُگانے‘ کے لیے بنیادی طور پر ایک حقیقی جانور کے خلیے کی ضرورت ہوتی ہے۔ گائے، بکری، بھیڑ، سور یا چکن، لیبارٹری میں کسی بھی قسم کا گوشت تیار کرنے کے لیے ان جانوروں کے پٹھوں کے اسٹیم سیلز لیے جاتے ہیں
اس کے بعد خلیوں کے ساتھ مختلف غذائی اجزاء کو شامل کیا جاتا ہے۔ ان کی نشوونما کے لیے مطلوب عوامل فراہم کیے جاتے ہیں اور اس طرح پٹھوں کے ریشے بڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ جانوروں کے خلیے حاصل کرنے کے عمل کے دوران انہیں تکلیف تو ہوگی، لیکن اس کے لیے کسی بھی جانور کو ہلاک نہیں کرنا پڑے گا
لیبارٹری میں تیار کردہ گوشت کو ’کلچرڈ مِیٹ‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ ایسا گوشت تیار کرنے والی کمپنیوں کا دعویٰ ہے کہ اس طرح روایتی گوشت کا متبادل پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کے لیے نہ تو جانوروں کو نقصان پہنچتا ہے اور نہ ہی ماحول کو کوئی نقصان پہنچایا جا رہا ہے
لیبارٹری کا گوشت صحت کے لیے کیسا ہے؟
لیبارٹری گوشت ابھی تک دنیا میں کہیں بھی بڑے پیمانے پر نہیں کھایا جاتا ہے، اس لیے ہمیں اس سوال کا جواب ابھی تک معلوم نہیں ہے۔ جو ہم جانتے ہیں، وہ یہ ہے کہ سرخ گوشت، خاص طور پر زیادہ مقدار میں کھانا، آپ کو بیمار کرتا ہے۔ دل کی بیماریاں اور کینسر کی کچھ اقسام سرخ گوشت کا نتیجہ ہو سکتی ہیں۔ لیکن کیا لیبارٹری کے گوشت سے بھی ایسی ہی بیماریاں جنم لیں گی، یہ ابھی تک غیر واضح ہے
تاہم یہ بات قابل فہم ہے کہ لیبارٹری کے گوشت میں بیماریوں کا سبب والے عناصر کم ہوں گے کیونکہ اس گوشت کی تیاری میں اینٹی بائیوٹکس کم استعمال ہوتی ہیں۔ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ پیک شدہ گوشت کو انفیکشن سے بچانے کے لیے بھی اینٹی بائیوٹیکس کا استعمال کیا جاتا ہے
لیبارٹری گوشت اور ماحول
اندازوں کے مطابق سطح زمین کا نصف قابلِ استعمال حصہ جانوروں کو پالنے یا پھر ان کے لیے خوراک اگانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ انسانوں کو درکار خوراک اگانے کے لیے زمین کا صرف چار فیصد حصہ استعمال میں لایا جاتا ہے
عام گوشت کے مقابلے میں مصنوعی طریقے سے حاصل ہونے والے گوشت میں ننانوے فیصد کم زمین استعمال ہوتی ہے، جبکہ گوشت کے حصول میں ضرر رساں گیسوں کا اخراج بھی چھیانوے فیصد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ مصنوعی گوشت چین اور بھارت جیسے ان ممالک کی ضروریات پوری کر سکتا ہے، جہاں آبادی انتہائی تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق تمام تر کامیابیوں کے باوجود بھی ابھی یہ بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی کہ عوام اسے کتنی جلدی قبول کریں گے؟