جنیوا میں اقوام متحدہ اور پاکستان کے زیرِ اہتمام امدادی کانفرنس میں پاکستان کے لیے دس بلین ڈالرز سے زیادہ کے قرضے اور امداد کے وعدے کیے گئے ہیں۔ تاہم سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ آخر اس امداد کو استعمال کس طرح کیا جائے گا اور اہم سوال اس کے شفافیت سے استعمال کے متعلق ہے۔ اس حوالے سے معاشی ماہرین کی رائے منقسم نظر آتی ہے
کچھ ناقدین ان قرضوں سے کچھ زیادہ پر امید نہیں ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ قرضے آئی ایم ایف کی شرائط سے مشروط ہیں، جس کے ملک اور عوام پر تباہ کن اثرات ہوں گے
کیا جا رہا ہے کہ یہ قرضے اور گرانٹس اگلے تین برسوں میں پاکستان کو مل جائیں گے، لیکن معاشی امور کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان نے اپنا ہوم ورک وقت پر نہیں کیا، تو پھر اس رقم کے آنے میں وقت لگ سکتا ہے۔ سابق مشیر خزانہ سلمان شاہ کا کہنا ہے ”پاکستان میں عموماً پروجیکٹس کے حوالے سے کام بہت سست ہوتا ہے، اس لیے ممکن ہے کہ پیسہ آنے میں وقت لگ جائے“
سلمان شاہ کہتے ہیں ”ہونا تو یہ چاہیے کہ پاکستان کو اپ فرنٹ ادائیگی ہو تاکہ وہ جلد از جلد سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے کام کر سکے لیکن کیونکہ حکومتی کاموں میں تاخیر ہوتی ہے، اس لیے اس رقم کے پہنچنے میں بھی تاخیر ہوگی‘‘
وہیں سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے ”رقم کی ادائیگی کی مدت تین برس ہے لیکن اس میں ممکنہ طور پر چار سے ساڑھے چار سال لگ سکتے ہیں‘‘
سلمان شاہ کا مزید کہنا ہے ”عالمی مالیاتی ادارے یا پیسے دینے والے ممالک کی طرف سے ایسی کوئی شرط نہیں ہوتی کہ اس رقم کو کہاں رکھنا ہے۔ یقیناً یہ پیسے ڈالرز یا غیر ملکی کرنسی کی شکل میں آئیں گے، جنہیں اسٹیٹ بینک میں رکھوایا جائے گا۔ اس سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگا۔م‘‘
مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ پاکستان کو آٹھ بلین ڈالرز چاہیے تھے۔ لیکن پاکستان کو ڈس بلین ڈالرز کا وعدہ کیا گیا ہے، تو پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر اس سے یقیناً بڑھیں گے
سلمان شاہ کا کہنا ہے ”یہ رقم زیادہ تر سڑکوں، گھروں، پلوں، عمارتوں کی تعمیر اور دیگر تعمیرِ نو کے منصوبوں پر استعمال ہوگی۔ حکومت پروجیکٹس ڈیزائن کرتی ہے اور اس کے تمام تر لوازمات پورے کرتی ہے۔ پھر امداد یا قرضہ دینے والے ممالک و ادارے ان منصوبوں کی منظوری دیتے ہیں اور وہ اصرار کرتے ہیں کہ مانیٹرنگ سسٹم ان کا قائم کیا جائے‘‘
سلمان شاہ کا کہنا تھا ”حکومت کو اگر بڑے پیمانے پر اشیاء درآمد کرنی پڑیں، تو پھر زرِمبادلہ کے ذخائر کم ہو جائیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر ہم کوئی پروجیکٹ بنا رہے ہیں تو اس میں کنسلٹنٹس ہمارے اپنے ہونے چاہییں، فزیبلٹی رپورٹ بھی پاکستانی فرم کو ہی تیار کرنا چاہیے، جبکہ سامان بھی ہماری اپنی صنعتوں کا ہونا چاہیے، اگر ایسا نہیں ہوتا، تو پھر ذخائر متاثر ہوں گے‘‘
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ڈویلپمنٹ سیکٹر کے ماہر عامر حسین کا کہنا ہے کہ امریکہ، برطانیہ یا یورپی ممالک جو گرانٹس دیں گے، وہ ان کے اپنے اداروں یا این جی او کے ذریعے استعمال ہو گی
وہ کہتے ہیں ”پاکستان میں اگر امریکا کوئی گرانٹ دے گا، تو ممکنہ طور پر یو ایس ایڈ یا کسی اور بین الاقوامی این جی او کے ذریعے کام کرایا جائے گا۔ بالکل اسی طرح برطانیہ اور یورپی ممالک کے اپنے اپنے ادارے اور این جی اوز ہیں‘‘
عامر حسین کے مطابق: ”قرضوں میں سے بھی ایک ’چھوٹی سی رقم‘ ٹریننگ اور تربیت کے لیے استعمال کی جاتی ہے، تاکہ مقامی عملے کی صلاحیتوں کو بہتر سے بہتر بنایا جائے‘‘
جہاں حکومت اور مالی امور کے کچھ ماہرین کا ان قرضوں اور امداد کی آمد پر مثبت رد عمل ہے، وہیں کچھ معاشی امور کے ماہرین ان قرضوں کے پیچھے چھپے ہوئے طوفان کی نشاندہی کر رہے ہیں
کراچی سے تعلق رکھنے والی ماہر معیشت ڈاکٹر شاہدہ وزارت کہتی ہیں ”یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ دس بلین ڈالرز سے زیادہ کے یہ قرضے آئی ایم ایف کی شرائط سے اور اس کے پروگرام سے مشروط ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ بہت آسانی سے مل جائیں گے بلکہ ہمیں آئی ایم ایف کی سخت شرائط ماننی پڑیں گی، جن میں سرِفہرست یہ ہے کہ ہمیں ڈالر کو مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑنا پڑے گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ ڈالر ممکنہ طور پر تین سو روپے پر چلا جائے گا، جبکہ انرجی کی قیمتوں اور شرح سود میں بھی اضافہ کرنا پڑے گا۔ جس سے مہنگائی کا طوفان آئے گا۔ پیداواری لاگت شرح سود کے بڑھنے سے آسمان سے بات کرے گی اور صنعتیں تباہ ہوں گی‘‘
پاکستان کے بیرونی قرضے ایک سو تیس بلین ڈالرز سے زیادہ ہیں۔ سلمان شاہ اور شاہدہ وزارت دونوں کا خیال ہے کہ اس میں مزید اضافہ ہوگا
واضح رہے کہ پیر 9 جنوری کو جنیوا کانفرنس میں مختلف ممالک اور علاقائی و عالمی مالیاتی اداروں نے ان قرضوں کا اعلان سیلابوں سے تباہ شدہ پاکستانی علاقوں کی تعمیر نو اور بحالی کے لیے کیا تھا۔ اس سلسلے میں اسلامی ڈویلپمنٹ بینک کی طرف سے چار اعشاریہ دو بلین ڈالرز، عالمی بینک کی طرف سے دو بلین ڈالرز، ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی طرف سے ایک اعشاریہ پانچ بلین ڈالرز، یورپی یونین کی طرف سے پانچ سو ملین یورو، فرانس کی طرف سے 380 ملین یورو، چین اور امریکہ کی طرف سے ایک ایک سو ملین ڈالرز، یو ایس ایڈ کی طرف سے سو ملین ڈالرز جب کہ جرمنی کی طرف سے 84 ملین یورو کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جاپان سمیت کئی دوسرے ممالک نے بھی امداد کا اعلان کیا ہے۔