موسمیاتی تبدیلیوں نے جہاں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں پر اپنا اثر جمایا، وہیں شہری منصوبہ ساز بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے تحت اب ایک مختلف انداز میں شہروں میں تبدیلیوں کو دیکھ رہے ہیں۔ کیونکہ ہمارے شہروں کے مستقبل بالخصوص صحت عامہ کے مسائل کا آب و ہوا کی تبدیلی سے انتہائی گہرا تعلق ہے. اس لئے شہری منصوبہ بندی کے مختلف عوامل کا باہمی رشتہ اب انسانی صحت، ارد گرد کے ماحول اور روزمرہ کے معمولات سے نہ صرف جوڑا جارہا ہے بلکہ تحقیق کے نئے دروازے کھل رہے ہیں
جب موسمیاتی تبدیلی کی بات آتی ہے تو سب سے پہلی بات شہروں کی کی جاتی ہے، کیونکہ دنیا کی آبادی تیزی سے شہروں کی جانب بڑھ رہی ہے شہروں پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے. یہی وجہ ہے کہ شہروں کو عالمی سطح پر اخراج کے سب سے بڑے ذرائع میں شمار کیا جاتا ہے جبکہ اس اخراج کے نتائج کے لحاظ سے شہری علاقے ہی ہیں جوکہ خطرے سے دوچار نظر آتے ہیں
پاکستان کے تمام بڑے شہروں کو دیکھیں تو وہ پہلے ہی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نبرد آزما ہیں اور کسی نہ کسی قسم کے خطرات سے دوچار نظر آتے ہیں۔ کراچی اور اسلام آباد کے شہروں میں سیلاب اور شدید بارشیں ہیں تو پنجاب کے شہروں میں دھند ہے۔ کہیں ہوا زہریلی ہوتی جارہی ہے تو کہیں پینے کا پانی میسر نہیں ہے۔ ان سب عوامل کو دیکھتے ہوئے ہمیں ’ماحولیاتی ماسٹر پلان‘ کی جانب بڑھنا ہوگا، ہمیں اپنے کچرے کو تلف کرنے کے نظام میں تبدیلی کرتے ہوئے اس سے توانائی حاصل کرنے پر کام کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہوا اور سورج سے توانائی کے حصول کو فروغ دینا ہوگا۔ دنیا کے بڑے شہر اب ماحولیاتی ماسٹرپلان پر کام کر رہے ہیں اور کاربن کے اخراج کو کم کر رہے ہیں اور قابل تجدید توانائی کے طریقوں کو فروغ دے رہے ہیں اور اپنے روزمرہ کے معمولات کو بدل رہے ہیں۔
ہمیں بھی اس حوالے سے سنجیدگی سے سوچنے اور اس کو منصوبہ بندی کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔ جیسے اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی اور بلوچستان کے شہر کوئٹہ کے ماسٹر پلان بننے کے مراحل میں ہیں تو کیا یہ ماسٹر پلان ماحولیاتی ماسٹر پلان ہوں گے؟ کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ شہر موسمیاتی تبدیلوں کے طاقتور عامل ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ شہری علاقوں کو زمین کے استعمال اور زوننگ، نقل و حمل، سبز جگہیں اور توانائی کی پالیسی میں بامعنی تبدیلیاں کرنے کا اختیار حاصل ہو جو کہ ماحولیاتی اثرات سے مطابقت رکھتی ہوں
پھر شہروں کی تعمیرِ نو پر توجہ کی ضرورت ہے کہ ہم کس طرح شہروں کو سرسبز کریں اور شہریوں کو صحت مند ماحول، صاف ہوا اور پانی فراہم کیا جاسکے۔
کراچی جیسا شہر، جس کی آبادی تین کروڑ ہے، اس میں موجودہ بنیادی ڈھانچے، ساحلی خطوں، محلّوں، گلی کوچوں اور عمارتوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے تناظرمیں لانا اورمستقبل کے خطرات کو کم کرنا ایک دشوارعمل ہے، مگر موافقت کے منصوبے بنانا بھی انتہائی اہم ہے، بس بات نیت، لگن اور ہمت کی ہے
ہمیں اپنے ماسٹر پلان میں پبلک ٹرانسپورٹ کے ایسے نظام کو متعارف کرانے کی ضرورت ہے، جس میں قابلِ تجدید توانائی یا بایو ماس جیسے طریقے استعمال کئے جائیں۔ صنعتی علاقوں کو ایک بار پھر ماحولیاتی اثرات کے لحاظ سے دیکھا جائے۔ شہر کی ساحلی پٹی کو ڈھالنے اور تبدیل کرنے کے لیے مختلف طریقوں پر غور کیا جا سکتا ہے، خاص طور پر تمر کے جنگلات لگانے اور ان کی حفاظت کرنا- اس کے بعد یہ دیکھنا پڑے گا کہ شہر کے بڑھتے درجہ حرارت کو کیسے کم کیا جاسکتا ہے اور شہریوں کو کھلی جگہ تک رسائی میں اضافہ کیسے ممکن ہوگا؟ اس کے لیے شہر میں درخت، سبزہ بڑھانا، پارک اور کھیل کے میدانوں کو بہتر کرنا ہوگا۔ شہری سیلاب اور شدید گرمی کی لہر جیسے بڑے واقعات کے دوران شہریوں کی حفاظت کیسے کیا جا سکتی ہے- عوام میں شہری سیلاب، بارشوں اور شدید گرمی کے دوران اور اس کے بعد کے خطرات سے نمٹنے کے لیے آگاہی اور تیاری یہ سب ماسٹر پلان کا حصہ ہو۔
شہر کے منصوبہ سازوں، ماحولیاتی کارکنوں، معماروں، مختلف برادریوں کے نمائندوں کو شامل کئے بغیر ایک کامیاب ماسٹر پلان نہیں بنایا جا سکتا اور یہ ایک اچھا موقع ہے، کیونکہ لوگ موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں زیادہ فکر مند ہیں۔ اس سلسلے میں پیدل چلنے اور سائیکل سواری کو بھی فروغ دینا ضروری ہے، تاکہ افراد کم از کم قریبی پارک، کھیل کے میدان اور قریبی بازار تک صاف ہوا میں ہم پیدل چلیں۔ اس لیے کہ فطرت تک رسائی ذہنی، جسمانی صحت اور پیداواری صلاحیت کو بہتر بناتی ہے۔ اس لئے ماہرین شہری منصوبہ بندی ہرے بھرے شہروں، صاف اور صحت مند ماحول کی طرف منتقلی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
ماسٹر پلان میں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ لوگ شہر میں کیسے رہتے ہیں اور انہیں کیسے رہنا چاہیے؟ کیا شہری پانی کا درست اور کم استعمال کرتے ہیں؟ کیا اسے دوبارہ استعمال میں لاتے ہیں؟ کیا اپنے کچرے کو کم کرنے پر توجہ دیتے ہیں یا نہیں؟ اگر کچرا جلاتے ہیں تو کیوں؟ کیا ان کی سواریاں دھوئیں کے اخراج کا باعث ہیں؟ کیا وہ پلاسٹک بیگ کا استعمال کرتے ہیں؟ کیا وہ ماحول کو آلودہ کرتے ہیں؟ کیونکہ آلودگی، زہریلے مادوں اور گیسوں کا اخراج کا تعلق براہ راست شہریوں کی صحت سے ہے۔
دیکھنا ہوگا کہ موجودہ وقت میں شہر میں ذرائع آمدورفت کے کیا انتظامات ہیں اور بنیادی انفراسٹرکچر کیا ہے، اسے کیسے بہتر کیا جا سکتا ہے، جس کے نتیجے میں زہریلی گیسوں اور دھوئیں کے اخراج کو کم کیا جا سکے۔ اس کے لئے ماسٹر پلان میں نقل و حرکت کے طریقوں کو تبدیل کر نے کی ضرورت ہے کیونکہ پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی کی وجہ سے اس وقت شہر کراچی میں 40 لاکھ سے زیادہ موٹر سائیکلیں ہیں، 3 لاکھ سے زائد 800 سی سی تک کاریں ہیں، رکشوں کی تعداد 3 لاکھ ملتی ہے، جب کہ 40 لاکھ سے زائد چنگ چی ہیں، اور 50 فیصد سے زائد وہ ہیں، جو بے تحاشا دھواں چھوڑتے ہیں۔ اگر حکومت بہتر پبلک ٹرانسپورٹ فراہم کرے تو کاروں، موٹر سائیکلوں، رکشوں اور چنگ چی کو کم کیا جا سکتا ہے اور وہ جگہیں جو پارکنگ کے لئے استعمال ہوتی ہیں، وہ لوگ کھلی جگہوں کے طور پر یا دیگر مقاصد کے لئے استعمال کر سکیں گے۔ اس کی وجہ سے سڑکوں پر بے ہنگم ہجوم کم ہوگا اور شہر میں ہوا کا معیار بہتر ہو سکے گا۔
ہمیں سمجھنا ہوگا کہ صرف سڑکوں کو چوڑا کرنے سے ٹریفک کے مسائل سے نمٹا نہیں جا سکتا، کیونکہ جتنی چوڑی سڑک ہوگی اتنی زیادہ گاڑیاں اور بھیڑ ہوگی۔ اسی طرح نالوں کو چوڑا کرنا مسئلے کا حل نہیں، جب تک ہم شہر کے کچرے کے انتظام کو بہتر نہ کریں اور لوگوں میں اس حوالے سے آگاہی پیدا نہ کریں کہ کچرا کہاں پھینکنا ہے۔ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ شہر کا 40 فیصد کچرا نالوں میں جاتا ہے تو ایسے میں نالوں کو چوڑا کرنا لوگوں کو دعوت دینا ہے کہ ان میں مزید کچرا ڈالیں۔
اسی طرح تعمیرات اور عمارتوں کے ڈیزائن میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ وافر مقدار میں ہوا اور روشنی میسر آ سکے اور ہوا اور روشنی کے مصنوعی ذرائع کو کم سے کم استعمال کرنا پڑے۔ اسی طرح تعمیرات میں اس مواد کی حوصلہ افزائی کی جائے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے موافقت رکھتا ہو۔ ہر عمارت میں ایک خاص حد تک کھلی جگہ ،کچی زمین، سبزہ اور درخت کا تناسب ہو۔ عمارت کی چھتوں کو شمسی توانائی کے حصول کے لئے استعمال کرنے پر توجہ دینی چاہیئے۔
کراچی ماسٹر پلان 2047 میں اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ کراچی کے مختلف علاقوں کا مقامی موسم، درجہ حرارت، ہوا میں نمی کا تناسب، بارشوں کا انداز ماپنے لے لیے شہر بھر میں پیمانے لگائے جائیں، جس سے مقامی درجہ حرارت، نمی کا تناسب، بارش کی مقدار، ہوا کا معیار، سورج کی شعاعوں کی شدت اور اثرات کو سمجھنے میں مدد ملے، تاکہ مستقبل کے موسمیاتی تغیّرات کے حوالے سے کوئی لائحہ عمل بنایا جا سکے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا شہر بہتر ہو، سرسبز ہو تو اس ڈیٹا کو جمع کرنا اور شیئر کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ شفافیت، موسمیاتی تبدیلیوں کے تصورات اور شہریوں کو شامل کیے بغیر بننے والا ماسٹر پلان شہر کو بہتر نہیں کر سکتا۔
بشکریہ: نیا دور
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)