وہ امریکی صحافت کے سب سے باوقار انعام کے فاتح تھے اور ان کی زندگی پر مبنی فلم میں بین ایفلیک نے کردار ادا کیا۔
وہ جارج کلونی کو جانتے ہیں، جن کا مبینہ طور پر انھیں ان کے تازہ ترین کام کے موضوع سے متعارف کروانے میں بھی ہاتھ ہے۔
اس کے باوجود جے آر موہرنگر ان امیروں، شاہی شخصیات اور مشہور لوگوں میں شامل نہیں ہیں جو پرنس ہیری کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب سپیئر میں نظر آتے ہیں۔ لیکن موہرنگر نے یہ کتاب لکھنے میں مدد کی ہے۔
مشہور شخصیات کی یادداشتوں کی دنیا میں یہ ان کا پہلا قدم نہیں ہے — انھوں نے آندرے اگاسی کی کتاب بطور گھوسٹ رائٹر لکھی، اور جوتے بنانے والی معروف کمپنی نائیکی کے بانی فلا نائٹ کی سوانح عمری کے بھی گھوسٹ رائٹر ہیں۔
امریکی میگزین پیج سکس کے مطابق انھوں نے شہزادہ ہیری کی کتاب سپئیر کے لیے 10 لاکھ ڈالر معاوضہ لیا ہے۔
جب انھوں نے اگاسی کے ساتھ ان کی کتاب اوپن پر کام کیا تو موہرنگر ان کے ساتھ لاس ویگاس چلے گئے تاکہ دونوں ایک ساتھ 250 گھنٹے گزار سکیں۔ اُنھوں نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ آگاسی کی نفسیات کے اندر جانے کے لیے اُنھوں نے ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ اور کارل جنگ کا کام پڑھا۔
امریکی میگزین پیج سکس کے مطابق انھوں نے شہزادہ ہیری کی کتاب سپئیر کے لیے ایک ملین ڈالر معاوضہ لیا ہے
وہ کہتے ہیں ’فرائیڈ سے بہت مدد ملی تھی، خاص طور پر ’تہذیب اور اس کے عدم اطمینان‘ اور موت کا خیال۔ آندرے کی شخصیت کا ایک ستون ان کی خود ساختہ تباہی تھی، اور میں نے محسوس کیا کہ میں اس خیال کو ہوا دے رہا تھا کہ یہ ان کی فطرت کا ایک حصہ ہو سکتا ہے۔‘
لیکن اگاسی اور اب شہزادہ ہیری کے بارے میں موہرنگر کی کچھ بصیرتیں یکساں ہیں۔ مثال کے طور پر دونوں ہی پیچیدہ والدین کے تعلقات کے ساتھ پیچیدہ شخصیات نکلیں اور یہ ممکن ہے کہ یہ بصیرتیں موہنگر کے اپنے والد کے ساتھ پیچیدہ تعلقات سے پیدا ہونے سے سامنے آئی ہوں۔
موہرنگر کی 2005 میں اپنی سوانح عمری دی ٹینڈر بار میں بچپن کے بارے میں بات کی گئی ہے۔ نیو یارک کے علاقے لانگ آئلینڈ میں ان کی پرورش ان کی ماں نے کی اور ان کے انکل چارلی میں انھیں باپ کی شخصیت ملی۔
ان کے اپنے والد ایف ایم ریڈیو کے ابتدائی دنوں میں ایک راک این رول ڈی جے تھے اور بعد میں انھوں نے اپنے خاندان کو چھوڑ دیا۔
انھوں نے این پی آر کے ٹیری گراس کو بتایا، ’ریڈیو نے انھیں رسائی فراہم کا ذریعہ فراہم کیا ہوا تھا۔ اس لیے میں ہمیشہ انھیں سننے کی کوشش کر رہا ہوتا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ان کے پاس ہر روز ایک خاص شفٹ ہوتی ہے جس میں وہ پروگرام کرتے ہیں۔ میں باہر سٹاپ پر بیٹھ جاتا اور میرے پاس یہ ٹرانزسٹر ریڈیو تھا اور میں ان کی آواز کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دھیرے دھیرے ڈائل کو گھما رہا ہوتا۔‘
جب انھوں نے مسٹر اگاسی کے ساتھ ان کی کتاب اوپن پر کام کیا تو مسٹر موہرنگر ان کے ساتھ لاس ویگس چلے گئے تاکہ دونوں ایک ساتھ 250 گھنٹے گزار سکیں۔
ان کی کتاب دی ٹینڈر بار پر فلم جارج کلونی نے پروڈیوس کی جس میں بین ایفلیک نے انکل چارلی کا کردار ادا کیا۔
کتابوں کی دنیا کی طرف آنے سے پہلے موہرنگر ییل یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ پھر انھوں نے معروف اخبار نیویارک ٹائمز میں بطور نیوز اسسٹنٹ کام کیا۔ اس کے بعد 1994 میں کولوراڈو اور لاس اینجلس ٹائمز میں کام کیا گیا۔ سنہ 2000 میں انھوں نے اپنی تحریر کراسنگ اوور کے لیے پلٹزر پرائز جیتا، یہ تحریر اس تنازع کے بارے میں ہے جو الاباما میں ایک چھوٹی سی الگ کمیونٹی میں ایک فیری کھلنے پر پیدا ہوا۔
ٹینڈر بار اور گھوسٹ رائٹنگ کے علاوہ انھوں نے بینک ڈکیت ولی سوٹن کے بارے میں ایک ناول ’سوٹن‘ بھی لکھا ہے۔
بہترین گھوسٹ رائٹرز نہ صرف اچھا لکھتے ہیں بلکہ وہ اپنے مضامین کو مجسم کرنے کے قابل بھی ہوتے ہیں۔
بک ایجنٹ میڈلین موریل نے دی آبزرور کو بتایا: ’وہ عروج پر ہیں، مجھے یقین ہے کہ ہر کوئی ان جیسا بننے کی خواہش رکھتا ہے۔ وہ اتنے شاندار مصنف ہیں۔ کتاب لکھنا بہت مشکل ہے اور کسی سطح پر ایسا کبھی نہیں لگتا کہ اسے کسی اور نے لکھا ہو۔‘
لیکن نفیس ترین گھوسٹ رائٹرز میں شامل ہونے کا مطلب کبھی کبھی پردے میں رہنا بھی ہوتا ہے۔ سنہ 2009 میں اگاسی کے اوپن کی ریلیز کے قریب موہرنگر نے نیویارک ٹائمز کو بتایا: ’دائی بچے کو لے کر گھر نہیں جاتی۔‘
بشکریہ: بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)