جنگوں اور جنگی تیاریوں کا ماحولیاتی تباہی میں کردار

عبدالستار

جنگوں، جنگی تیاریوں اور ہتھیاروں کے تجربات سے ماحول کو پہنچنے والے نقصانات پر آج تک بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ جنگوں میں زیادہ اہمیت انسانی جانوں کے ضیاع کو دی جاتی ہے اور ماحولیاتی تباہی کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے

روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی طرف سے یوکرین پر حملے کے بعد نہ صرف براعظم یورپ پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں بلکہ یوکرین میں جاری تصادم کی وجہ سے دنیا بھر میں امن پسندوں کو یہ فکر بھی لاحق ہوگئی ہے کہ کہیں جوہری جنگ کا عفریت اپنے جبڑے کھولے انسانی لہو سے غرارے کرنے کے لیے بے تاب نہ ہو جائے

انہیں خوف ہے کہ یوکرین اور یورپ کے سر پر منڈلا تے جنگی بربریت کے یہ سائےکہیں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لیں۔ ایک طرف اس ممکنہ جنگ سے انسانی جانوں کو پہنچنے والے نقصانات کے تخمینے لگائے جا رہے ہیں اور دوسری جانب دنیا بھر میں ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے کام کرنے والے کارکنان اس بات پر بھی غور کر رہے ہیں کہ یہ جنگ قدرتی ماحول کو کس طرح متاثر کر سکتی ہے

امن پسندوں کا یہ بھی شکوہ ہے کہ جنگ سے ہونے والے انسانی جانوں کے نقصانات پر تحقیق کی جاتی ہے۔ اس سے انفراسٹرکچر کی تباہی پر بھی بات کی جاتی ہے لیکن بہت کم تحقیقی مقالے اور کتابیں اس بات کا تفصیل سے ذکر کرتی ہیں کہ کس طرح جنگی تیاریاں، جنگی مشقیں، ہتھیاروں کے تجربات اور دفاعی اخراجات ماحولیات کا جنازہ نکالتے ہیں

کرس ہیجیز کی مشہور تصنیف ’ہر شخص کو جنگ کے بارے میں کیا جاننا چاہیے‘ شاید ان چند ایک کتابوں میں شامل ہے، جو ماحولیاتی نقصان پر تفصیل سے بات کرتی ہیں لیکن اس کتاب کا محور بھی انسانی ہلاکتیں اور دوسرے عناصر ہیں

مثال کے طور پر مذکورہ بالا کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ تقریباﹰ ساڑھے تین ہزار سالوں پر محیط معلوم انسانی تاریخ میں ابن آدم نے صرف 248 سال حالت امن میں گزارے ہیں، جو ریکارڈ ڈ ہسٹری کا صرف آٹھ فیصد بنتا ہے

اس کتاب کا یہ دعویٰ ہے کہ صرف بیسویں صدی میں ایک سو آٹھ ملین افراد جنگوں میں ہلاک ہوئے، جو کہ ناقدین کے مطابق ایک محتاط اندازہ ہے کیونکہ یہ تعداد اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہو سکتی ہے۔ پوری انسانی تاریخ میں جنگوں سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کا اندازہ پندرہ ملین سے لے کر ایک ارب تک کا ہے

واضح رہے کہ یہ اعدادوشمار 2003ء تک کے ہیں۔ اس کے بعد بھی دنیا میں بہت سارے مسلح تصادم ہوئے ہیں اور اس کے علاوہ کئی ملک خانہ جنگی کا شکار بھی ہوئے اور ان پر بیرونی حملے بھی کیے گئے۔ 2003ءکے بعد بھی ایک اندازے کے مطابق 15 لاکھ سے زائد افراد جنگ، مسلح تصادم اور خانہ جنگی کی وجہ سے ہلاک ہوئے

ہیجز کی اس تصنیف میں جنگ کی ہولناکیاں تفصیل سے بیان کی گئی ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ بھی بتایا جائے کہ جنگ سے کس طرح ماحول اور ماحولیات کو نقصان پہنچتا ہے کیونکہ ہمیں زندگی گذارنے کے لئے ہوا سے لے کر پانی اور پانی سے لے کر تمام دوسرے قدرتی وسائل درکار ہوتے ہیں، جو قدرتی ماحول کا ایک حصہ ہیں

ناقدین کا خیال ہے کہ ہمیں اکثر یہ تو بتایا جاتا ہے کہ اگر ایک پلاسٹک کا ڈبہ فلاں جگہ پر رکھ دیا جائے تو اس کا ماحولیات پر کیا اثر ہوتا ہے یا کوئی کچرے کا ڈبہ کسی سمندری حدود میں پھینک دیا جائے تو وہ ماحول کو کس طرح متاثر کرتا ہے۔ یعنی وہ عمل جو شاید ماحول کو اتنی بری طرح متاثر نہیں کرتے ہیں، ان کا تذکرہ تو ہوتا ہے لیکن جنگ، دفاعی اخراجات، جنگ کی تیاریاں، حربی مشقیں اور ہتھیاروں کے تجربات کس طرح ماحولیات کو ایک ناقابل تلافی تباہی کا شکار کر تے ہیں، اس پر بہت کم بولا اور لکھا جاتا ہے

تیل اور ہتھیاروں کی تجارت
شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں ہتھیاروں اور تیل کی خریدوفروخت میں ملوث لابیا ں بہت مضبوط ہیں اور ان دونوں لابیوں کا آپس میں بہت گہرا رشتہ ہے۔ مثال کے طور پر دنیا کی افواج کو اگر مختلف ادارہ جاتی اکائیوں میں سے ایک اکائی سمجھا جائے تو شاید یہ واحد اکائی ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ تیل استعمال کرتی ہے اور جس کے جلنے اور جلانے سے ماحولیات پر بہت برا اثر پڑتا ہے

بالکل اسی طرح پینٹاگون بحیثیت ایک ادارے کے دنیا کا وہ واحد ادارہ ہے، جو شاید سب سے زیادہ تیل استعمال کرتا ہے۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ چند جنگی طیاروں میں جتنا ایندھن استعمال ہوتا ہے وہ شاید روڈ پر چلنے والی سینکڑوں بسوں یا ممکنہ طور پر ہزاروں بسوں سے بھی زیادہ ہو

کیوں کہ دنیا بھر کی مسلح افواج اور ان کے اضافی تربیت یافتہ دستے عالمی افرادی قوت کا ایک اچھا خاصا حصہ ہیں، اس لیے یہ تصور کیا جاتا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی پھیلانے اور ماحول کو خراب کرنے میں ان کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے

یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں مسلح افواج کی تعداد دو کروڑ دس لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔ اسی طرح کیونکہ یہ افواج کھربوں ڈالر خرچ کرتی ہیں اس لیے اس بات کا بھی امکان ہے کہ اس خرچ سے ماحولیات پر بہت برے اثرات پڑتے ہیں

مثال کے طور پر کر س ہیجز کی مذکورہ بالا کتاب میں کیے گئے ایک دعوے کے مطابق امریکہ نے 1975ء سے لے ک 2003 تک اپنے اپنی قومی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کا اوسطاﹰ تقریبا تین سے چھ فیصد حصہ قومی دفاع پر لگایا ہے، جو وفاقی بجٹ کا سالانہ 15 سے 30 فیصد حصہ بنتا ہے

اکیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں یہ بجٹ تقریباﹰ 350 بلین ڈالر سالانہ تھا۔ جب کہ تعلیم کے لیے سالانہ 60 بلین ڈالرز اور ریاستی و بین الاقوامی معاونت کے لیے صرف 15 بلین ڈالر مختص تھے۔ انیس سو چالیس سے لے کر انیس سو چھیانوے تک امریکہ نے فوج پر 16.3 ٹریلین ڈالر خرچ کیے، جس میں سے پانچ ٹریلین ڈالر سے زیادہ جوہری ہتھیاروں پر خرچ کیے گئے تھے

اتنے وسیع پیمانے پر اخراجات سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے ماحولیات پر کیا اثرات مرتب کیے ہوں گے۔ یہ خرچہ اس کے علاوہ ہے جو عراق اور افغانستان کی جنگوں میں کیا گیا۔ براؤن یونیورسٹی کے واٹسن انسٹی ٹیوٹ کے مطابق امریکہ ان جنگوں میں پانچ ٹریلین ڈالر سے زیادہ خرچ کر چکا ہے۔ کچھ اور اندازوں کے مطابق یہ خرچہ آٹھ ٹریلین ڈالر کا ہے

لہٰذا اس سیریز میں ہم کوشش کریں گے کہ یہ بتایا جا سکے کہ جنگی تیاریاں، جنگی مشقیں، ہتھیاروں کے تجربات، دفاعی بجٹ اور خانہ جنگی کس طرح ماحولیات کو متاثر کر رہی ہے۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close