کیکر کی گم کردہ چھاؤں

عبداللہ خضر

ببول، ام مغیلاں، ایکیشیا ایریبکا، بابلہ یا بارل کا نام لیں تو شاید ہی کوئی سمجھ سکے۔ لیکن جیسے ہی کیکر کا نام لیں تو پاکستان میں اور خاص طور پر پنجاب میں رہنے والا ہر شخص اس سے واقف ہوتا ہے۔ اس کی کئی اقسام ہیں، پاکستان کے علاوہ ہندوستان اور عرب ممالک بھی پایا جاتا ہے

سائنس نے کیکر کے بے شمار فوائد بتائے ہیں۔ طبیب دوا بنا کر علاج کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اور لوگ اس کی شاخ سے مسواک بھی بناتے ہیں۔ لیکن جس کو جو شے مطلوب ہو اس کے لئے وہی فائدہ مند ہوتی ہے۔ ہمیں کیکر سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں وہ شاید دوسروں کے لئے اہمیت نہ رکھتے ہوں۔ البتہ درخت ان چیزوں میں سے ہے، جس کے فائدے ہی فائدے ہیں

پنجاب کے دیہاتی علاقوں میں یہ کثرت سے پایا جاتا ہے اور ڈیرہ داروں کے لئے گھنی چھاؤں والا درخت بڑا ضروری ہوتا ہے، اور ہر ڈیرے پر کوئی نہ کوئی بوڑھ یا کیکر کا درخت ضرور ہوتا جو اس کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ کیونکہ جب ہم چھوٹے تھے تو کئی ڈیروں پر بیر اتارنے جاتے تھے، اور وہ ڈیرے بیری والے ڈیروں کے نام سے مشہور تھے

گرمیوں کے دنوں میں کئی ماہ بعد گھر واپس گیا۔ شدید گرمی میں گرم لو کے تھپیڑے کھانے کے بعد رکشے والے نے رکشہ روک کر کہا، ”لو جناب تہاڈا ڈیرہ آ گیا اے“ ۔ میری آنکھوں کو سارا نقشہ اجنبی لگا لیکن میری نظر سڑک پر لگے بورڈ پر پڑی تو معلوم ہوا اپنا ہی ڈیرہ ہے۔ دن کے پچھلے پہر سفر کی تھکان دور کرنے کے بعد میں گھر سے باہر آیا اور آس پاس دیکھنے لگا۔ دراصل ایک عرصے بعد انسان واپس جائے تو سارا منظر آنکھوں میں بدلا بدلا سا لگتا ہے۔ لیکن اس دن میری آنکھیں بار بار کہہ رہیں تھیں، کہ کچھ تو ایسا ہے جو ہر چیز کھلی کھلی سی لگ رہی ہے

ذرا چہل قدمی کی تو اچانک میری نظر چند لکڑیوں پر پڑی، جو دھوپ میں پڑی سیاہ ہو گئی تھیں، اور وہ یوں بکھری پڑی تھیں، جیسے درزی کپڑا سلائی کرنے کے بعد چھوٹی چھوٹی کتریں پھینک دیتا ہے، کیونکہ وہ لیریں اس کے کسی کام کی نہیں رہتیں۔ اسی طرح وہ لکڑیاں کیکر کے درخت کی کاٹی گئی تھیں جبکہ سارا درخت ہی اکھاڑ دیا گیا تھا

تھوڑی دیر بعد چچا زاد بھائی نے بتایا کہ چچا نے یہ درخت پٹھانوں کے ہاتھوں کٹوا دیا ہے۔ لیکن میں بڑی حیرانی سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس گڑھے کو دیکھ رہا تھا، جہاں سے کیکر جڑوں سمیت اکھاڑا گیا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے میں برہنہ ہو گیا ہوں، میری آنکھوں میں ایک چبھن اور سینے میں خلا سا محسوس ہونے لگا

اس کیکر سے کئی یادیں وابستہ ہیں۔ جب کوئل کیکر پر بیٹھ کر اپنی سریلی آواز میں مدح بیان کرتی تو اس کی آواز خاموشی میں چاروں طرف گونجتی، خزاں میں اس کے چھوٹے چھوٹے پتے ایک ایک کر کے زمین پر گرتے تو سبز موتی معلوم ہوتے اور پیلے رنگ کے پھول زمین کے ہاتھ پیلے کر دیتے

کیکر کی گوند بڑی بھلی معلوم ہوتی، جسے بچے اتار اتار کر کھیلتے تھے، مجھے تو اتنی اچھی لگتی کہ کھانے کو بھی جی چاہتا تھا۔ بارش میں اس کے نیچے بیٹھ کر چاروں طرف برسات کا منظر بڑا خوبصورت نظر آتا

اس کی بالائی شاخوں سے کئی بجلی کی تاریں بندھی تھیں، صبح اٹھ کر سارے اس کی شاخوں سے مسواک بنا کر دانت صاف کرتے، اور سب سے بڑھ کر گرمیوں میں سارے چارپائیاں بچھا کر اسی کی چھاؤں میں بیٹھتے تھے

جب جون جولائی کی شدید گرمی ہوتی تو بھینسیں بھی سارا دن کیکر کے نیچے رہتیں اور ٹھنڈی زمین پر لیٹ کر یوں سکون محسوس کرتیں جیسے بچے ماں کی آغوش میں سکون محسوس کرتے ہیں

بزرگوں کے لئے درخت اولاد اور بچوں کے لئے والدین جیسے ہوتے ہیں۔ میری عمر اکیس سال ہے اور وہ مجھ سے بھی بڑا تھا۔ دادا جی سے لے کر چھوٹے بچوں تک، ہر کسی نے اس کیکر کی ٹھنڈی ہوائیں اپنے سینے پہ محسوس کی تھیں۔ چچا جان سے پوچھا تو انہوں نے نئے مکان بنانے کی غرض سے مجبوری کا اظہار کیا کہ ٹرالی، ٹرک کے گزرنے کے لئے کیکر کا کاٹنا مجبوری تھی۔ اس کے بعد چچا جان کیکر سے چند قدم دور ایک چھوٹی سی بوڑھ کو کئی دن سے پانی دینے لگے اس کے نیچے مٹی بھی ڈالی، کسی وقت بیٹھنا ہوتا تو سارے چارپائیاں بچھا کر اسی چھوٹی سی بوڑھ کے نیچے بیٹھتے۔ لیکن اس کی چھاؤں ابھی کم تھی، اور جب بچے پتے توڑتے تو سارے کہتے پہلے ہی چھاؤں بڑی کم ہے، پتے نہ اتارو

چند دن بعد وہی پٹھان آیا، جس نے کیکر خریدا تھا، مجھ سے پوچھا کہ ”بھائی صاحب تمہارا پاس کوئی بوٹا ہے جو بیچنا ہو؟“ میرا جی تو چاہا کہ اس کا گلا دبا دوں لیکن اسے وہ بوڑھ دکھائی اور پوچھا کہ اس کا کیا ملے گا۔ ”کہنے لگا نہیں بھائی یہ تو ابھی چھوٹا ہے“ ”پھر اس کے بڑے ہونے کا انتظار کرو“ ، میرا یہ جواب سن کر وہ انتظار کرنے چلا گیا

ایک دو بار ڈیرے کی پچھلی جانب شہتوت (توت) کی چھاؤں میں کتاب پڑھنے بیٹھا تو وہاں نیا ٹاؤن بننے کی وجہ سے بہت زیادہ شور آنے لگا اور میں اٹھ کر واپس آ گیا۔ اب چھاؤں کم ہونے کی وجہ سے اس بوڑھ کے نیچے بھی سب کم کم بیٹھتے ہیں۔ شاید جب بوڑھ بڑی ہو جائے تو کوئی اور مکان بنانا پڑ جائے۔ اگر مکان بنانے کا سلسلہ یونہی چلتا رہا اور پلانٹنگ کی خاطر ہم درخت کاٹتے رہے تو صرف پتھروں کی عمارتیں ہی رہ جائیں گی۔ انسان کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ مجھے کبھی اس کی یاد آئے تو میں دو پنجابی اشعار گنگنانے لگتا ہوں جو کیکر کے قتل ہونے کے سوگ میں کہے تھے

ددھاں وچوں پہلاں دی ملائی مک گئی
تے ہڈیاں چوں ساریاں دی رس کوئی نا
ککرے نوں وڈھ اساں مل ویچ چھڈیا
تے بوڑھ ہیٹھ پہلاں دی چس کوئی نا

نہ دودھ میں وہ پہلا سا اثر رہا
نہ وہ مضبوط ہڈیاں باقی ہیں
کیکر کو ہم نے ہاتھوں کاٹ کر بیچا
نہ بوڑھ میں پہلا مزا باقی ہے
(غیر منظوم ترجمہ)

بشکریہ: ہم سب
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close