جمعرات کی شب جب فٹبال کی دنیا کے دو عظیم ستارے لیونل میسی اور کرسٹیانو رونالڈو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے کنگ فہد اسٹیڈیم میں اترے تو ان دونوں کے مداح ایک زبردست مقابلے کی توقع کر رہے تھے، اور پھر ہوا بھی کچھ ایسا ہی
یہ مقابلہ تھا میسی کی ٹیم پیرس سینٹ جرمین (پی ایس جی) اور رونالڈو کی ٹیم ریاض اسٹار الیون کے درمیان
اس میچ کی ایک اور خاص بات یہاں معروف بالی وڈ اداکار امیتابھ بچن کی شرکت تھی، جنہیں اس میچ کے لیے خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا
گو کہ یہ میچ تو میسی کی ٹیم پی ایس جی نے پانچ کے مقابلے میں چار گول سے جیتا لیکن دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں نے مداحوں کے دل جیت لیے
میسی اور رونالڈو نے اسٹیڈیم سمیت دنیا بھر میں یہ میچ دیکھنے والے مداحوں کو ماضی میں ان دونوں کھلاڑیوں کے درمیان ہونے والے دلچسپ مقابلوں کی یاد دلا دی
یہ میچ دونوں ٹیموں کی رینکنگ پر تو کچھ زیادہ اثر انداز نہیں ہوا، تاہم سعودی عرب میں اس میچ کے انعقاد نے اسے یادگار بنا دیا
کرسٹیانو رونالڈو نے سعودی عرب میں اپنے پہلے کھیل میں دو بار گول کیا اور لیونل میسی بھی سکور شیٹ میں شامل تھے۔ سعودی دارالحکومت میں دوستانہ میچ میں دو اسٹار کھلاڑیوں کو ممکنہ طور پر آخری مرتبہ ایک ہی میدان میں کھیلتے دیکھا گیا۔ دونوں کھلاڑیوں کو ایک گھنٹے کے کھیل کے بعد تبدیل کر دیا گیا
میسی کی ٹیم نے زیادہ تر کھیل 10 کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلا کیونکہ جوآن برناٹ کو سالم الدوساری کو گرانے پر سیدھا ریڈ کارڈ ملا تھان ایکشن سے بھرپور اس میچ کے پہلے ہاف میں میسی اور مارکوئنوس کے دونوں گول رونالڈو نے برابر کر دیے
وقفے کے بعد جب مقابلہ دوبارہ شروع ہوا تو سرگیو راموس نے پی ایس جی کو برتری دلوا دی، جسے جنوبی کوریا کے جینگ ہیون سو نے جلد ہی برابر کر دیا
تاہم ایم باپے کے پنالٹی کک اور ہیوگو ایکٹیکے کے مزید دو گولز نے پی ایس جی کو ناقابل شکست برتری دلوا دی اور میچ کے آخری لمحات میں اینڈریسن ٹلسکا کا گول بھی میزبان ٹیم کے کام نہ آ سکا
خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے میچ کے دوران ایک سعودی مداح فیصل الطویس کا کہنا تھا کہ ’یہ رونالڈو اور میسی کے درمیان بہترین کلاسک مقابلہ ہے۔‘
تیونس سے تعلق رکھنے والی فٹ بال کی ایک خاتون مداح سلوا غولی کا کہنا تھا کہ ’میں نے اس میچ کے حتمی سکور کے لیے یہ امید نہیں کی تھی کیونکہ اس میں رونالڈو، میسی اور ایم باپے جیسے کھلاڑی کھیل رہے تھے۔ یہ بہت پرجوش رہا۔ ہر چند منٹ بعد گول ہو رہے تھے اور آپ فاتح ٹیم کا اندازہ نہیں کر پا رہے تھے لیکن یہاں کا ماحول بہت زبردست رہا اور سب سے اچھی بات یہاں کے شائقین اور روشنیاں رہیں۔‘
اسی طرح ایک اور تیونسی خاتون وفا تیمومی کا کہنا تھا کہ ’ماحول بہت زبردست تھا۔ مجھے بہت اچھا لگا کیوں کہ یہ میرا پہلا فٹ بال میچ تھا۔ مجھے بہت اچھا محسوس ہوا۔‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ایک اور مداح نبیل نقیب کا کہنا تھا کہ ’پیرس سینٹ جرمین کی ٹیم کو مبارک ہو، میچ کا نتیجہ جو بھی رہا لیکن یہ ایک اچھا مقابلہ تھا۔‘
کیا سعودی عرب عالمی کھیلوں کا نیا مرکز بننے جا رہا ہے؟
سعودی عرب کے شہر ریاض میں ارجنٹائن اور پرتگال سے تعلق رکھنے والے دو بے مثال کھلاڑیوں کے درمیان ہونے والا یہ میچ ثابت کرتا ہے کہ خلیجی ممالک خاص کر سعودی عرب کا فٹبال میں اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے
سنہ 2011 سے پی ایس جی کی ملکیت قطری سرمایہ کاروں کے پاس ہے جن کا تعلق ملک کے شاہی خاندان سے بتایا جاتا ہے۔ اسی سرمایہ کاری کی وجہ سے پی ایس جی کے پاس میسی، کلیان ایمابپے اور نیمار جیسے عالمی سپر اسٹارز رہے ہیں
اُدھر رونالڈو سعودی آل سٹار الیون کا حصہ تھے اور اس کی وجہ سعودی کلب النصر کے ساتھ ان کا ڈھائی سال کا معاہدہ ہے، جس سے وہ بیس کروڑ ڈالر سے زیادہ کی آمدن کمائیں گے
ایک فین نے نیلامی میں اس دوستانہ میچ کا ٹکٹ چھبیس لاکھ ڈالر میں خریدا ہے، جس کی رقم چیریٹی میں خرچ کی جائے گی۔ یہ اس بات کا بھی اظہار ہے کہ عالمی فٹبال کا مرکز یورپ اور لاطینی امریکہ نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ بنتا جا رہا ہے
ماضی میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی بااثر شخصیات بیرون ملک پراپرٹی اور کاروبار جیسے روایتی اثاثوں میں سرمایہ کاری کرتی تھیں۔ مگر اب ان کی توجہ کھیلوں کی صنعت پر ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ ’سافٹ پاور‘ کے حصول کی سفارتکاری کے ساتھ ساتھ معیشت میں تنوع لانے کا طریقہ ہے
دوسری جانب یورپی فٹبال میں خلیجی ممالک کا اثر و رسوخ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ پی ایس جی وہ واحد یورپی کلب نہیں جسے خلیجی ممالک بلا واسطہ یا بلواسطہ کنٹرول کرتے ہیں،بلکہ ںسنہ 2008 میں مانچسٹر سٹی وہ پہلی بڑی ٹیم تھی جسے خریدا گیا۔ اماراتی ارب پتی شخصیت شیخ منصور بن زاید النھیان نے انگلش پریمیئر لیگ کے اس کلب کو خریدا، وہ شاہی خاندان کے کافی قریب سمجھے جاتے ہیں
گذشتہ برسوں کے دوران ایک کے بعد ایک بڑے انگلش کلبز میں سرمایہ کاری کی جانے لگی۔ جیسے نیو کاسل یونائیٹڈ کو سعودی عرب کے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ نے خرید لیا۔ یوں متنازع ادائیگیوں کی فہرست لمبی ہوتی چلی گئی
بڑی ٹیموں کی ملکیت اور ان میں سرمایہ کاری بڑھانے کے علاوہ خلیجی ممالک اہم میچوں کی میزبانی اور اسپانسرشپ (اشتہاروں) کے بڑے معاہدوں میں بھی نظروں میں آئے
سعودی عرب نے یورپی فٹبال میچوں کے خصوصی ایڈیشنز کو فروغ دینے کے لیے سرمایہ کاری کی ہے۔ جیسے اطالوی اور ہسپانوی سپر کپس جو کہ دونوں ریاض میں کھیلے گئے ہیں
متحدہ عرب امارات کی ایئر لائن ’ایمیریٹس‘ نے ریال میڈرڈ اور اے سی میلان جیسے بڑے کلبوں کے ساتھ لاکھوں ڈالروں کے سپانسرشپ معاہدے طے کیے ہیں
کھیلوں کی عالمی تقاریب کی میزبانی، اسپانسرشپ معاہدے
قطر نے 2022 کے فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کر کے خلیجی ممالک کی جانب سے کھیلوں کی بڑی تقاریب کرانے کی عمدہ مثال قائم کی۔ اب سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور بحرین 2023 میں ایف ون گرینڈ پکس کی مشترکہ میزبانی کریں گے
سعودی عرب نے باکسنگ کے ہائی پروفائل ایونٹ اور ڈبلیو ڈبلیو ای ریسلنگ کی میزبانی کی ہے۔ ایسی قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں کہ ریسلنگ اسپورٹس انٹرٹینمنٹ (یعنی ڈبلیو ڈبلیو ای) کا برانڈ ایک سعودی بااثر شخصیت کو فروخت کیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ بات ابھی قیاس آرائیوں تک ہی ہے
قطر کی جانب سے فیفا ورلڈکپ کی کامیاب میزبانی کو کئی حلقوں نے خلیجی ممالک کی بڑی کامیابی قرار دیا۔ اور اس سے مستقبل میں مزید کھیلوں کی تقاریب یہیں ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے
اطلاعات کے مطابق سعودی عرب مصر اور یونان کے ہمراہ 2030 کے فیفا ورلڈ کپ کی مشترکہ میزبانی پر غور کر رہا ہے۔ جبکہ کھیلوں کے معاملات پر نظر رکھنے والے حلقوں کا خیال ہے کہ قطری دارالحکومت دوحہ 2036 کے اولمپکس اور پیرالمپکس کی میزبانی کر سکتا ہے
یہ شہر دو بار ماضی میں اولمپکس کی میزبانی کا امیدوار رہ چکا ہے۔ فیفا ورلڈ کپ کے دوران دوحہ کا معیاری انفراسٹرکچر اور آمد و رفت کا نیٹ ورک مؤثر ثابت ہوا اور اب یوں دوحہ پہلے سے بہتر امیدوار کے طور پر ابھر سکتا ہے
خلیجی ممالک کی نظریں سرمائی اولمپکس پر بھی ہیں۔ گذشتہ اکتوبر سعودی عرب نے 2029 کی ونٹر ایشین گیمز کی میزبانی کا حق حاصل کیا
شیڈول کے تحت یہ نیوم میں منعقد کیے جائیں گے۔ یہ سعودی عرب کا وہ نیا شہر ہے جسے اطلاعات کے مطابق 500 ارب ڈالر میں تعمیر کیا جا رہا ہے۔ خیال ہے کہ اس شہر کی تعمیر 2026 تک مکمل ہو جائے گی، جس میں صحرا کے بیچ و بیچ ایک اسکی ریزارٹ بنائے جانے کی بھی توقع کی جا رہی ہے
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور بحرین میں تیل اور گیس کی صنعتوں نے عالمی کھیلوں کے حوالے سے بھی ان ملکوں کو مالی اعتباد سے طاقتور بنایا ہے۔