پولیس کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں سزائیں ہمیشہ نان گزیٹیڈ افسران و ملازمین کو ہی دی گئی ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پولیس میں صرف اور صرف یہی کرپٹ اور نا اہل ہیں، جب کہ یہ حقیقت سب ہی جانتے ہیں کرپشن کیوں ہوتی ہے اور وہ کون سے عوامل ہیں جو کسی سرکاری افسرکو کرپشن پر مجبور کرتے ہیں لیکن ان عوامل کے خلاف لکھاری بھی لکھنے سے کتراتے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے ان کے’ ’ تعلقات‘‘ سینئر افسران سے خراب ہو سکتے ہیں
یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کسی علاقے میں آرگنائزڈ کرائم ہو رہا ہو اور اس کے بارے میں علاقے کے ڈی ایس پی / اے ایس پی یا ایس ایس پی کو علم نہ ہو۔ آرگنائزڈ کرائم سے ملنے والا پیسہ سب کو بقدر جثہ جاتا ہے، لیکن جب پکڑ ہو تو سب سے پتلی گردن ایس ایچ او کی ملتی ہے جسے ٹانگ دیا جاتا ہے اور اس کا نام کرپٹ افسران کی لسٹ میں چڑھا دیا جاتا ہے
میرا نہیں خیال کہ کسی سینئر افسر کو اس کو کرپشن میں ملوث ہونے کی مصدقہ اطلاعات کے باوجود اس کے محکمے نے اسے کوئی سزا دی ہو۔ ایک خاتون رپورٹر کے بارے میں علم ہوا جنہیں ایک ایس ایس پی رینک کے افسر رات میں سرور میں آنے کے بعد نازیبا پیغامات کیا کرتے تھے ۔ اس رپورٹر نے ان میسجز کے اسکرین شارٹ لے کر آئی جی صاحب کو بھیج دیے
مصدقہ ثبوت موجود تھے لیکن وہ ایس ایس پی آج تک اپنی سیٹ پر براجمان ہیں۔ یہی شکایت اگر کسی ڈی ایس پی یا اس سے کم رینک کے افسر کے خلاف ہوتی تو سب سے پہلے تو اسے معطلی کا سامنا کرنا پڑتا اور پھر آیندہ کے لیے فیلڈ پوسٹنگ بھی نہ دی جاتی۔ اس امتیازی سلوک اور انصاف کے دہرے نظام کی بے شمار مثالیں موجود ہیں
گو یہ کہ ایس ایس پی موصوف کی یہ حرکت اخلاقی کرپشن میں شمار ہوتی ہے لیکن کیا ایک ایسے شخص کا اتنے اہم عہدے پر موجود رہنا جائز ہے جو رات میں اپنے حواس کھو بیٹھتا ہو؟ اگر کوئی بہت سخت مزاج آئی جی آ بھی گئے تو (جو کم ہی دیکھنے میں آیا ہے) تو وہ بھی زیادہ سے زیادہ ایسے کرپٹ سینئر افسر کو صرف فیلڈ کی پوسٹنگ سے ہٹا دیں گے لیکن اگر افسر با اثر ہو تو یہاں تک بھی بات نہیں پہنچ پائے گی
سزا دینا تو دور کی بات کبھی ایسے اخلاقی کرپٹ افسر کی اے سی آر (سالانہ خفیہ کارکردگی رپورٹ) بھی غلط نہیں لکھی گئی جو کہ اصولی طور پر خالصتا افسران کی دیانتداری اور کارکردگی کی بنیاد پر لکھی جانی چاہیے
ہم نے تو اپنے پوری نوکری کے دوران مشہور زمانہ کرپٹ افسران کو بھی ان کے وقت پر ہی ترقیاں پاتے ہوئے دیکھا۔ حقیقت کیا ہے، یہ میں اپنے گزشتہ بتیس سالہ پولیس کی نوکری کے تجربے کی بنیاد پر بتانا چاہتا ہوں۔ میری آبزرویشن کے مطابق ہمارے سرکاری محکموں میں تین قسم کے کرپٹ یا ایماندار افسران ہیں
پہلی قسم ان افسران کی ہے جو کسی ماتحت سے پیسہ نہیں لیتے مگر سرکاری فنڈ کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور اس کا ایک پیسہ سرکاری کام پر خرچ نہیں ہونے دیتے۔ یہ افسران سب سے زیادہ ایماندار کہلاتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے خصوصا بہت چھان پھٹک کر ایک زیرک اکاؤنٹنٹ کا انتخاب کرتے ہیں، جو جعلی بلز اور واوچر بنانے کا ایکسپرٹ ہو
فنڈز کے معاملات درست رکھنے اور اے جی سندھ سے ان بلز کو پاس کروانے کی ذمے داری اسی اکاؤنٹنٹ کی ہوتی ہے۔ ایسے افسران عموما ایماندار مشہور ہوتے ہیں۔حال ہی میں سکھر حیدرآباد موٹر وے کے فنڈز میں دو ارب چودہ کروڑ روپے کی کرپشن کا انکشاف ہوا ہے جس میں سے 42 کروڑ روپے ایک اسسٹنٹ کمشنر سے برآمد بھی کیے گئے ہیں
ایسا نہیں ہے کہ سندھ حکومت اس کرپشن پر ناراض ہوئی بلکہ لگتا ایسا ہے کہ ’’صاحب‘‘ کا حصہ ان تک نہیں پہنچا ورنہ اینٹی کرپشن سندھ کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ دوسری قسم ان افسران کی ہے جو براہ راست ہر ماتحت سے پیسہ نہیں لیتے بلکہ وہ اپنے کسی زیرک ماتحت افسر( جو کلرک یا کانسٹیبل عہدے کا بھی ہو سکتا ہے) کو اپنے ’’ پی ایس او‘‘ کا درجہ دے دیا جاتا ہے
(یاد رہے کے کسی بھی محکمے کے قوانین میں پی ایس او نام کا کوئی عہد ہ نہیں ہوتا)۔ یہ پی ایس او آپ کو اس سینئر افسر کی ہر پوسٹنگ ایک ڈائری ہاتھ میں لیے اس کیساتھ ساتھ نظر آئے گا گویا اگر یہ ان کیساتھ نہ رہا تو ’’گلشن کا کاروبار‘‘ بند ہو جائے گا
ان کے بارے میں ماتحت ملازمین کو جلد ہی علم ہو جاتا ہے ہے اور پھر انھی کے ذریعے تمام ماتحت اس سرکاری افسر سے اپنے تمام کام کرواتے ہیں اور پھریہی مخلوق اپنے ان افسران کے تمام ذاتی اخراجات پورے کرنے کے ذمے دار ہوتی ہے ۔ویسے ایسے افسران بھی فنڈز پر ہاتھ صاف کرتے رہتے ہیں
تیسری قسم، ان شدید کرپٹ افسران کی ہے, جو براہ راست ماتحت سے ہفتہ یا ماہانہ بھی لیتے ہیں اور پھر اپنے دیگر کاموں کے لیے ’’ فٹیگ‘‘ بھی دیتے ہیں، یعنی وہ سینئر افسر کوئی بھی کام دے چاہے وہ پانچ روپے کا ہو یا پچاس ہزار کا، ہر صورت میں ہونا چاہیے
ایسے افسران کے مصاحب یہ مشہور کر دیتے ہیں کہ ’’صاحب کو انکار پسند نہیں ہے۔‘‘ ایسا بھی نہیں کہ اب تک کوئی بھی سینئر افسر ایماندار نہ گزرا ہو، لیکن بدقسمتی سے اب ایسے افسران انگلیوں پر ہی گنے جا سکتے ہیں۔ مو جودہ دور میں وہ مار دھاڑمچی ہوئی ہے کہ الامان الحفیظ۔ خبر ہے کہ اس وقت ضلع کی سطح پر معاملات پچاس پچا س فیصد پر چلائے جا رہے ہیں
کئی ایس ایچ اوز یہ رونا روتے نظر آتے ہیں کہ ’’کچھ بچتا ہی نہیں ہے۔‘‘ لیکن اس پچاس فیصد والی کرپشن کیخلاف نہ تو اسپیشل برانچ کی کوئی ’’آئی آر‘‘ جاری کی جا رہی ہے نہ کسی اور ایجنسی کی جانب سے کوئی رپورٹ۔ یعنی ’’ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے…باغ تو سارا جانے ہے۔‘‘اگر میں یہ سب اپنی کسی’’ فرسٹریشن ‘‘ کی وجہ سے لکھ رہا ہوں تو پھر مجھے کوئی صرف یہ بتا دے کہ جہاں ایک سترہ گریڈ سے اکیس گریڈ کے افسر کی تنخواہ تمام الاؤنس ملا کر بھی ڈھائی لاکھ سے زیادہ نہیں ہو سکتی اور ایک ایس پی کی تنخواہ ڈیڑھ لاکھ سے دو لاکھ کے درمیان ہو
ان کے ہاتھوں میں دو سے ڈھائی لاکھ کا موبائل فون کیا جنات پکڑا جاتے ہیں؟ ان کے بچے بہترین مشنری اسکولزاور پرائیویٹ یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔بلکہ بہت سے افسران کے بچے تو امریکا یا لندن میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں
میں کراچی میں تقریباً دوسال تک ایک بڑے عہدے پر رہنے والے ایک سینئر افسر کو جانتا ہوں جن کی صاحبزادی امریکا کے ایسے کالج میں زیر تعلیم ہے جہاں کی سالانہ فیس ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے ۔جس کا نہ صرف کراچی میں ایک لگژری گھرہے بلکہ امریکا میں بھی ایک گھر انھی گزشتہ کئی سالوں کے دوران تعمیر ہو ا ہے جب وہ اعلیٰ عہدے پر براجمان تھے
اس کے علاوہ، اندرون سندھ میں ایک ’’فارم ہاوس‘‘ اور کراچی کے صنعتی ایریا میں ایک فیکٹری بھی ہے۔ اب ذرا صرف یہ دیکھ لیں کہ جب انہوں نے پولیس سروس جوائن کی تھی تو ان کے اس وقت ان کے اثاثے کتنے تھے تو میری بات کی صداقت کا اندازہ ہو جائے گا
میں ایسے نام نہاد ایماندار افسران کا نام لینے سے بھی نہیں گھبراتا لیکن میں پہلے بھی اپنے کالموںمیںبتا چکا ہوں کہ میں ’’کسی کی شخصیت کے نہیں بلکہ اس کرپٹ اور بوسیدہ سسٹم کیخلاف ہوں۔‘‘جب تک انصاف اور احتساب کا دہرا نظام ختم نہیں ہو گا اس ملک کے98 فیصد طبقے کی قسمت نہیں بدل سکتی
اس لیے کسی جونیئر افسر کر کرپٹ اور نا اہل قرار دینے سے پہلے ایک لمحے کے لیے اپنے گریبان کا جائزہ بھی لینا ضروری ہے۔
بشکریہ: ایکسپریس نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)