بائیں بازو کے پاکستانی اور بھارتی دانشور عموماً یہ تاثر رکھتے ہیں کہ جن وجوہات کی بنیاد پر تقسیم ہوئی، ان کی بنیاد اسی دن رکھی گئی تھی جب ایک روشن خیال ولی عہد شہزادہ دارا شکوہ کو ان کے متعصب بھائی اورنگ زیب نے قتل کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا
حقائق اس سے مختلف ہیں۔ اورنگ زیب، دارا شکوہ کی طرح فن و ادب کے رسیا نہیں تھے لیکن طاقت کے اپنے اصول ہوتے ہیں، جن پر اورنگ زیب کو اپنے بھائیوں پر فوقیت حاصل تھی۔ تاریخ کو دائیں بازو یا بائیں بازو کی آنکھ سے نہیں بلکہ ہمیشہ حقائق کی آنکھ سے پرکھنا چاہیے
انگریز دور میں مؤرخین نے ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کے تحت اس معاملے میں تاریخ کو اتنا مسخ کیا کہ تقسیم کے وقت ہونے والے فسادات کی وجہ بھی جو کانفرنس بنی، وہ 1946 میں کہوٹہ کے گردوارے میں ہوئی تھی جس میں اورنگ زیب عالمگیر پر کافی تنقید کی گئی تھی۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں میں شدید غصہ پایا جاتا تھا جو مارچ 1947 میں کہوٹہ کے دیہات میں اتنے بڑے فساد کی وجہ بن گیا، جس میں آگے چل کر لاکھوں لوگ قتل ہو گئے اور ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو ہجرت کرنی پڑی
کیا اورنگ زیب نے واقعی مندر منہدم کروائے؟
اورنگ زیب کے بارے میں سب سے متعصب رائے بنگالی مصنف سر جدو ناتھ سرکار کی پانچ جلدوں پر مشتمل کتاب ’ہسٹری آف اورنگ زیب‘ کی پانچ جلدیں ہیں، جو 1919 میں شائع ہوئیں۔ اس میں انہوں نے اورنگ زیب کو بدترین حکمران ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور لکھا کہ انہوں نے قرآن کے نظام سیاست پر عمل کر کے ہندوؤں کی زندگی کو ناقابل برداشت بنا دیا
حالانکہ اس سے پہلے ہی مولانا شبلی نعمانی اپنی کتاب ’اورنگ زیب عالمگیر پر ایک نظر‘ میں ان اعتراضات کا جواب دے چکے تھے، جو ان پر کیے جاتے تھے
مولانا نے اس دور کے معروضی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا کہ ’اورنگ زیب عالمگیر نے مرہٹوں، ہندوؤں، دکن کی ریاستوں اور پھر اپنے باپ اور بھائیوں کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا وہ کوئی بھی حکمران ہوتا تو یہی سب کچھ ہوتا۔‘
شبلی کا ایک شعر بھی بڑا مشہور ہوا کہ
ہمیں لے دے کے ساری داستاں میں یاد ہے اتنا،
کہ اورنگ زیب ہندوکش تھا، ظالم تھا، ستمگر تھا
ڈاکٹر اوم پرکاش اپنی کتاب ’اورنگ زیب، ایک نیا زاویہ نظر‘ میں بھی ان اعتراضات کو جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’ہندوستان کی تاریخ نویسی میں کچھ ایسی غلطیاں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے ہمیں کئی طرح کے اختلافات اور بیجا جانبداریاں دیکھنے کو ملتی ہیں
’مثال کے طور پر اگر اشوک کے بارے میں صرف اتنا ہی بتایا جائے کہ اس نے گدی حاصل کرنے کے لیے اپنے 100 بھائیوں کو جان سے مار دیا۔ جنگ کلنگ میں اس نے ایک لاکھ لوگوں کو قتل کیا۔ ڈیڑھ لاکھ لوگوں کو قید کیا۔ وہ ایک کٹر مذہبی حکمراں تھا کیونکہ اس نے بدھ مت کی تبلیغ اور توسیع کے لیے اپنے رشتہ داروں کو سرکاری مناسب پر تعینات کیا، اس کام کے لیے سرکاری خزانے کا استعمال کیا اور برہمنوں کا کافی تکالیف پہنچائیں۔‘
لیکن اشوک کو تاریخ میں اس کے اچھے اور رفاہی کاموں کی وجہ سے اشوکِ اعظم کا خطاب دیا گیا ہے۔ پروفیسر خورشید نعمانی اپنے ایک مقالے ’تاریخِ ہند کو مسخ کرنے کی کوشش،‘ جسے 1998 میں خدا بخش لائبریری پٹنہ نے شائع کیا ہے اور جو ریختہ پر موجود ہے، میں لکھتے ہیں کہ سر جدوناتھ اور اس قبیل کے مؤرخین نے جو الزامات اورنگ زیب عالمگیر پر لگائے ہیں، غیر جانبدار مؤرخین ان کی تردید کرتے ہیں اور ایسے بیسیوں فرامین کا حوالہ دیتے ہیں، جن میں اس نے ہندوؤں کے مندروں کے لیے جائیدادیں وقف کی ہیں اور ان کے تحفظ کے احکامات جاری کیے ہیں
ان میں اجین کے مہامکیشور مندر، چتر کوٹ کے بالاجی مندر، گوہاٹی کے امانند مندر، شتر نجیہ کے جین مندر اور گردوارے، جو شمالی ہند میں پھیلے ہوئے تھے، شامل ہیں
اورنگ زیب عالمگیر پر وشوناتھ مندر کے انہدام کو رنگ آمیزی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے کہ اصل معاملہ کہیں دب کر رہ گیا ہے۔ اصل واقعہ کچھ یوں ہے کہ اورنگ زیب اپنے ہندو راجاؤں کے ساتھ بنارس سے گزر رہے تھے کہ ان ہندو راجاؤں نے اورنگ زیب سے گزارش کی کہ اگر وہ ایک دن کے لیے بنارس میں قیام کر لیں تو ان کی رانیاں بنارس جا کر گنگا جی کا اشنان اور وشوناتھ مندر میں پوجا پاٹ کر لیں
اورنگ زیب نے یہ تجویز فوراً قبول کر لی۔ رانیوں نے مندر میں پوجا پاٹ کی اور گنگا میں اشنان کیا۔ تمام رانیاں واپس لوٹ آئیں مگر کچھ کی رانی غائب ہو گئی، جس پر ان کی تلاش شروع کی گئی
اورنگ زیب نے اس پوجا پاٹ کے لیے اپنے خصوصی فوجی دستے بھی تعینات کیے تھے، اس لیے جب رانی غائب ہوئی تو اسے سخت غصہ آیا۔ آخر کار اسے بتایا گیا کہ ہر جگہ تلاش کر لیا گیا ہے مگر رانی نہیں ملی۔ اب ایک ہی جگہ رہ گئی ہے اور وہ گنیش جی کا عظیم بت ہے، جو دیوار میں نصب ہے اسے ہٹایا جا سکتا ہے
اورنگ زیب نے بت کو ہٹانے کا حکم دیا۔ جب بت کو سرکایا گیا تو اس کے نیچے تہہ خانے تک جانے کے لیے زینے بنے ہوئے تھے۔ جب سپاہی زینے سے نیچے اترے تو رانی کے چیخنے کی آوازیں آ رہی تھیں، جن کی عزت لوٹی جا رہی تھی۔ راجاؤں نے اس معاملے پر اورنگ زیب سے سخت تادیبی کارروائی کی گزارش کی۔ اورنگ زیب نے حکم دیا کہ جب یہ متبرک جگہ ناپاک کر دی گئی ہے تو وشوناتھ کی مورتی تو کہیں اور منتقل کر دی جائے لیکن مندر کو مسمار کر دیا جائے اور مہنت کو گرفتار کر کے سزا دی جائے
مندر کی طرح مسجد کی مسماری کا واقعہ بھی ایسا ہی ہے، جس میں مسجد کا تقدس مجروح ہو رہا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ گولکنڈہ کے حکمراں جو تانا شاہ کے نام سے مشہور تھے، وہ اپنی ریاست کے محصولات کو وصول کرتے لیکن دہلی کچھ نہ بھیجتے۔ چند برسوں کے اندر کروڑوں کی رقم جمع ہو گئی۔ تانا شاہ نے اس کو زمین کے اندر دفن کر دیا اور اس کے اوپر ایک جامع مسجد بنا دی۔ اورنگ زیب کو جب اس کی خبر ہوئی تو انہوں نے مسجد کو مسمار کروا دیا اور خزانے کو ضبط کرکے رفاہِ عامہ میں صرف کر دیا
یہ دونوں مثالیں یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ اورنگ زیب انتظامی اور عدالتی امور میں مسجد اور مندر کے بارے میں کوئی امتیاز نہیں رکھتے تھے
سکھوں کا اورنگ زیب کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟
سکھوں کے مغل بادشاہوں سے تعلقات کشیدہ رہے ہیں، جس کی ابتدا تو پہلے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کے ہندوستان پر حملے سے ہو چکی تھی۔ پنجاب پر حملے کے دوران ایمن آباد میں جو جنگی قیدی بنائے گئے ان میں بابا گرونانک بھی تھے لیکن جب بابر کو بابا گرونانک کا پتہ چلا تو انہوں نے نہ صرف بابا کو رہا کر دیا بلکہ اپنے کیے کی معافی بھی مانگی
اس کے بعد مغل بادشاہ جہانگیر کے دور میں سکھوں کے پانچویں گرو ارجن دیو کو قتل کیا گیا کیونکہ انہوں نے جہانگیر کے باغی بیٹے خسرو کی مدد کی تھی۔ جہانگیر کے عہد میں حضرت مجدد الف ثانی کو بھی گرفتار کیا گیا تھا، جو اس عہد کی سب سے اہم مسلم شخصیت تھے۔ اسی طرح اورنگ زیب کے عہد میں سکھ گرو تیغ بہادر کے قتل کے محرکات بھی مذہبی نہیں سیاسی تھے، جس میں سکھ خود بھی شامل تھے
واقعہ کچھ یوں ہے کہ جب سکھ گرو رائے جی کا انتقال ہوا تو ان کے دو بیٹوں میں مسند نشینی کی جنگ چھڑ گئی۔ سکھوں نے اس مسئلے پر اورنگ زیب عالمگیر سے رجوع کیا، جنہوں نے ان کے بیٹے ہرکشن کے حق میں فیصلہ دیا۔ ہر کشن کی وفات کے بعد ان کا بیٹا گرو تیغ بہادر مقرر ہوا، جس نے ہانسی اور ستلج کے علاقے میں لوٹ مار شروع کی اور مغل سلطنت کو جزیہ دینا بند کر دیا، جس پر مغل افواج نے سکھ افواج کو شکست دی اور گرو کو گرفتار کر کے مغل دربار لایا گیا
اس دوران اورنگ زیب اور گرو تیغ بہادر کے درمیان جو مکالمہ ہوا وہ ان کے قتل کا باعث بنا۔ جو کچھ یوں ہے کہ اورنگ زیب نے انہیں کہا کہ اگر وہ کوئی کرامت دکھا سکیں تو انہیں معاف کر دیا جائے گا، جس پر گرو نے کاغذ پر کوئی منتر لکھ کر اسے تعویز بنا کر گلے میں باندھ لیا اور کہا کہ جب تک یہ تعویز ان کے گلے میں ہے، کوئی ان کا سر تن سے جدا نہیں کر سکتا
اورنگ زیب نے ان کے ہی ایک پیرو کار کو تلوار چلانے کا حکم دیا جس کی اجازت گرو نے خود دی تھی۔ جب تلوار چلائی گئی تو ان کا سر تن سے جدا ہو گیا۔ تعویز کھولا گیا تو اس پر لکھا تھا کہ ’انہوں نے اپنا سر تو دے دیا لیکن اپنا راز نہیں دیا۔‘
بہت سے ہندو اورنگ زیب سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟
ہندو جہاں اپنے کئی مندروں کے انہدام کا ذمہ دار اورنگ زیب کو سمجھتے ہیں، وہیں وہ اورنگ زیب کی پالیسیوں کو اپنے مذہبی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہیں۔ اورنگ زیب نے اپنے دور میں ستی کی رسم کے بارے میں ایک قاعدہ یہ بنایا کہ کسی عورت کو اس وقت تک ستی نہ کیا جائے، جب تک کہ اس کی اجازت متعلقہ صوبیدار نہ دے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اگر کوئی عورت ستی نہ ہونا چاہے تو اسے اس کے رشتہ دار اور میکے والے مجبور نہ کریں
اس قاعدے کے بعد ستی کا رواج اگرچہ ختم نہیں ہوا تو بہت کم ہو گیا جس کا ہندوؤں کو رنج تھا۔ اسی طرح اورنگ زیب اور مرہٹہ سردار شیوا جی کی جنگ کو بھی ہندو مسلم جنگ بنا کر پیش کیا گیا حالانکہ اس کے محرکات مکمل سیاسی تھے۔ شیوا جی کے خلاف اورنگ زیب کے کمانڈر راجپوت راجہ جے سنگھ تھے۔ علامہ شبلی نعمانی نے ایسے ہندو راجوں مہاراجوں کی تعداد 26 بیان کی ہے، جو شیوا جی کے خلاف اورنگ زیب کی طرف سے لڑے
اگر یہ جنگ مذہبی ہوتی تو یہ ہندو مہاراجے اورنگ زیب کا ساتھ کیوں دیتے؟ شیوا جی نے مغلوں کے خلاف گوریلا جنگ میں لوٹ مار مچا رکھی تھی، جس میں وہ کسی ہندو اور مسلمان میں تفریق نہیں کرتے تھے۔ سورت میں جنوبی ہند کی سب سے بڑی منڈی قائم تھی جس کے تاجروں کو لوٹ لوٹ کر شیوا جی نے دیوالیہ کر دیا تھا۔ وہ سب شیوا جی سے تنگ تھے جس پر اورنگ زیب کو بالآخر ان کے خلاف کارروائی کرنی پڑی، لیکن بعد کے مؤرخین نے شیوا جی کو اورنگ زیب کے مقابلے میں ہیرو بنا کر پیش کیا جس پر ہندو مسلم نفرت کا بیج خوب پروان چڑھا
اورنگ زیب نے مغل حکمرانوں میں سب سے زیادہ یعنی پچاس سال حکمرانی کی۔ یہ درست ہے کہ انہوں نے اقتدار کے لیے اپنے باپ اور بھائیوں کے ساتھ جو سلوک کیا اسے اخلاقی حوالے سے کسی صورت معتبر قرار نہیں دیا جا سکتا، لیکن دوسری طرف قدیم بادشاہتوں میں رسم تاج پاشی کا کوئی باقاعدہ اصول تو تھا نہیں، جس کے پاس طاقت ہوتی وہ تخت و تاج کا وارث ٹھہرتا۔ اورنگ زیب نے بھی وہی کیا جو اس زمانے کا چلن تھا۔ ہم اسے آج کے جمہوری رویوں اور اقدار سے ناپ نہیں سکتے
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر سے وہ جرم بھی منسوب کر دیے گئے جو اس نے کیے نہیں تھے۔ ہندو مسلم اور سکھ دشمنی میں اسے جس طرح ایک نمونہ بنا دیا گیا وہ درست نہیں ہے۔ اورنگ زیب کی جگہ دارا شکوہ بادشاہ بن جاتا تب بھی تقسیم ہو کر رہتی، کیونکہ انگریزوں کے ڈیڑھ سو سالہ اقتدار میں بہت کچھ ہو چکا تھا معروضی حالات بدل چکے تھے
اس وقت تک ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کا جو بیچ بویا گیا تھا وہ تناور درخت بن چکا تھا۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)