موذن کی اذان سے قبل ہی مرغے نے بانگ دینے کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع کر دیا۔ کرموں کے دکھتے بدن نے کروٹ بدلی، بڑبڑاہٹ میں کئی گالیاں بک دیں۔ مرغا باز نہ آیا تو چارپائی کے نیچے سے جوتا اٹھا کر اس کا کامیاب نشانہ لیا۔ مرغا کئی فٹ اونچا اچھلا اور پھر خاموش چال چلتا ہوا مرغیوں کے ڈربے میں جاکے دانہ دنکا چگنے لگا
کرموں دیہاڑی دار مزدور تھا۔ 200 روپے مزدوری مقرر تھی۔ بیس روپے کبھی بیماری، خوراک اور دیگر ناگہانی ضروریات کے پیش نظر لئے قرض کی ادائیگی کی صورت کٹ جاتے۔ ایک پورے کنبے کو، جس میں چھ بچے اور میاں بیوی شامل تھے، اتنی رقم سے چلانا معجزہ ہی تھا۔
بی بی سگھڑ تھی، اس لئے کسی نہ کسی طرح گزارہ کر لیتی ۔ بچوں کو کھانے کے لئے کچھ نہ کچھ مل جاتا تھا ۔ میاں بیوی کے خالی پیٹ سونے کی باریاں مقرر تھیں ۔ غذائی قلت کے باعث کرموں کی جوان بیوی کا گوشت اب ڈھلکے ہوئے چھچھڑوں کے ڈھیر میں ڈھلتا جارہا تھا ، چہرے پر غربت کی لکیریں نمایاں تھیں۔ کرموں بہتر روزگار کی تلاش میں سرگرداں تھا ۔
شہر کے وسط میں ایک ہی خاندان کے عالیشان مکان استادہ تھے۔ کارپٹڈ صاف ستھری سڑکیں، سیورج کا بہترین انتظام ، پھل اور پھولوں سے لدے باغات، گھوڑوں کا عالی شان اصطبل، شہر کا حصہ ہونے کے باوجود کسی اور ہی علاقے کا نقشہ پیش کرتا تھا ۔ یہ احاطہ خاص تھا۔ یہاں عام انسانوں کا داخلہ ممنوع تھا ۔ اس خاندان کا تعلق ’مذہبی‘ گھرانے سے تھا، جن کے آباء اجداد نے قیام پاکستان سے قبل ہی انگریزوں کے دستِ شفقت اور مہربانی سے اتنی نیک نامی اور دولت کما لی تھی کہ آنے والی کئی پیڑھیاں کامیابی سے آگے لے جا کر پُرتعیش زندگی گزار سکتی تھیں ۔ گویا دنیا اور آخرت میں کامیابی کی کلید انہیں سنا دی گئی تھی۔
پیری فقیری تیسری دنیا کا کامیاب ترین کمائی کا ذریعہ ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ اس سلسلہِ پیری کی شاخیں چھوٹے سے شہر سے نکل کر اب کئی ممالک میں پھیل چکی تھیں ۔ جسے ایک بڑی کامیابی اور سچائی کی دلیل سمجھا جاتا تھا ۔ لگے ہاتھوں انسانیت کے نام پر ایک این جی اوکا قیام بھی عمل میں آگیا تھا ۔ دنیا بھر سے اکٹھے کئے گئے صدقہ ، خیرات اور فنڈ کا ایک بڑا حصہ این جی او کے چئیرمین اور پیر صاحب کی جیب میں چلے جاتے ، باقی رقم سے اکا دکا ایسے نظر آنے والے فلاحی کام کر دیئے جاتے، جو دنیا ، خیراتی اداروں اور مخیر حضرات کو متاثر کرتے تھے۔ پیر صاحب کی یہ مالی تحریک دیگر تمام تحاریک کی طرح انتہائی شاندار اور کامیاب تھی
بڑے پیر صاحب کے بعد اب اس خاندانی وراثت کو صاحبزدگان کامیابی سے آگے لے جانے کے لئے تیار تھے ۔ عقیدت مندوں کی ایک کثیر تعداد جان دینے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتی ، وقتاً فوقتاً ہر نئی مالی تحریکات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی۔ شہر میں غریب غرباء کے لئے لنگر کی تقسیم نے لوگوں کو پیر صاحب اور ان کے خاندان کا گرویدہ بنا دیا تھا ۔
کرموں ایک عرصہ تک اسی لنگر سے اپنے بیوی بچوں کے لئے پیٹ پوجا کا انتظام کرتا رہا مگر پھر بڑھتے اخراجات کو دیکھتے ہوئے لنگر لے جانے والوں کے لئے مخصوص رقم اور کھانے کی حد مقرر کر دی گئی ۔ حالانکہ چندہ کی مد میں اس کے لئے بطور خاص رقم ہر جگہ سے وصولی جاتی ۔ وبا کے آغاز سے ہی لنگر سے کھانا لے جانے اور داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی ۔ کرموں کے لئے یہ خبر تشویشناک تھی
کرموں چونکہ پیر صاحب کے عقیدت مندوں میں سے تھا، اس لئے سال میں ایک دفعہ لازمی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ پیر صاحب کے حضور اقدس میں حاضری دیتا ۔ بیوی اور بچے خاندان کی مقدس بیبیوں سے ملاقات کرتے۔ کرموں عقیدت میں پیر صاحب کے ہاتھ چومتا ان کے پاؤں چھوتا ۔ پیر صاحب کے نرم روئی جیسے ہاتھ اسے کسی اور ہی دنیا میں لے جاتے ۔ وہ دیر تک یونہی ہاتھ پکڑے رکھتا، یہاں تک کہ کوئی خلیفہ اسے پرے نہ دھکیل دیتا ۔ ہاتھوں کا یہ نرم و ملائم لمس جب تک روح کو سرشار کرتا وہ مسحور رہتا، جیسے ہی اس لمس کی حدت میں کمی آتی دوبارہ ملاقات کے لئے چل پڑتا
مقدس خاندان کی بیبیاں مخصوص لباس، گفتگو کے نپے تلے انداز سے ہر ملاقاتی پر روحانی اثر ڈالتی تھیں ۔ مقدس بیبوں کو گھریلو کام کاج کے لئے لونڈیاں ہمہ وقت دستیاب تھیں ۔ ان لونڈیوں سے کئے گئے سلوک کی الگ ہی داستانیں تھیں ۔ گھر کے لونڈے بھی ان سے فیضیاب ہوتے ۔ بظاہر تو عقیدت مندوں کو حسنِ سلوک کی تلقین کی جاتی تھی مگر ہاتھوں پر زخموں کے نشان اور استری سے داغے جسم کچھ اور ہی داستان سناتے تھے ۔ ان بیبیوں کے ملائی مکھن جیسے گورے چٹے ہاتھ کرموں کی بیوی کو بھی متاثر کرتے۔ گھر آکر وہ دیر تلک اپنے کھردرے لوہے جیسے ہاتھوں کو تکتی تو ان سے کراہت آتی مگر دوسرے ہی لمحے ان پر پیار بھی آتا کہ ان ہاتھوں نے مقدس پاک بیبوں کے ہاتھوں کو چھوا ہے۔۔ یہ احساس ہوتے ہی بے خیالی میں مسکراتے ہوئے اپنے ہی ہاتھ چوم لیتی
کرموں پیر صاحب کی اطاعت ، محبت عقیدت اور تقدس کے رشتوں میں سرشار تھا۔ محنت مزدوری سے جو رقم ملتی، کسی نہ کسی طرح پس انداز کر کے دعا کی درخواست کے ساتھ پیر صاحب کے حضور بطور نذرانہ پیش کر دیتا ۔ ہر نئی تحریک میں اپنی استطاعت کے مطابق بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ۔ ایک دفعہ مسجد کے لئے چندہ کی تحریک ہوئی ۔ اس کے دل میں بھی شدید خواہش پیدا ہوئی کہ اس بابرکت کام میں حصہ ڈالے لیکن اپنی خالی کٹیا دیکھ کر آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ دکھ سے سوچنے لگا اتنی بڑی نیکی سے محروم ہونے جا رہا ہے۔ مگر پھر اچانک مرغیوں کا ڈربہ نظر آیا، جہاں مرغا دانہ دنکا چگنے میں مگن تھا ۔ تین مرغیاں قریب ہی سستا رہی تھیں ۔ اس کی آنکھیں ایمانی جذبے سے چمک اٹھیں ۔اس نے لپک کر مرغا دبوچا ۔ ویسے بھی وہ اس کی بے وقت بانگ سے تنگ آ چکا تھا
کرموں نے مرغا لے جا کر عقیدت سے پیر صاحب کے قدموں میں نچھاور کر دیا ۔آنسوؤں اور گلوگیر آواز میں مسجد کے لئے دی گئی اس حقیر قربانی کو قبول کرنے کی عاجزانہ درخواست کی، جسے پیر صاحب نے بسر و چشم قبول کر لیا ۔ پیر صاحب اس کی قربانی کو لے کر اتنے متاثر ہوئے کہ آنے والے خطبہ جمعہ میں اس کا ذکر کیا، جسے سن کر ان کے عقیدت مندوں کے دلوں میں ایسا نیا جوش ولولہ اور جذبہِ ایمانی پیدا ہوا کہ مسجد کے لئے دیئے ٹارگٹ سے زائد رقم جمع ہو گئی ۔ سال بعد مسجد کا افتتاح ہوا، جسے حسبِ روایت پیر صاحب کے خاندان کے ہی کسی فرد کے نام سے منسوب کر دیا گیا ۔
کرموں پیر صاحب کی اطاعت کا پابند تھا ۔ ہر معروف فیصلے پر غربت کے باوجود عمل کرنا دین و ایمان کا حصہ سمجھتا تھا ۔ وہ اکثر دعا کے لئے کہتے ہوئے رو پڑتا اور اپنی گھریلو مشکلات اور پریشانی کا ذکر کرتا ۔ پیر صاحب فرماتے ”اللہ تمہارے صبر کا امتحان لے رہا ہے۔۔ تمہیں دنیاوی لالچ میں نہیں پڑنا چاہیے۔۔ یہ دنیا تو عارضی ٹھکانہ ہے۔۔ لہو لہب کی جا۔۔ محض اللہ کے فضل و کرم سے اگلے جہان تمہارے صبر کا پھل اور قربانیوں کا صلہ ضرور ملے گا۔“ وہ ان کی ہر بات پر سر دھنتا اور اسے حرفِ آخر سمجھتا ۔ وہ بس ایک ہی بات جانتا تھا کہ پیر صاحب کو راضی کرنا خدا کی رضا ہے اور پیر صاحب کو ناراض کرنا خدا کی ناراضی۔۔
پیر صاحب کا علاقے میں سیاسی اثر و رسوخ بھی کافی زیادہ تھا، ان کے چاہنے والے ان کی ایک آواز پر اٹھتے اور ایک آواز پر بیٹھتے تھے ۔ جہاں ووٹ دینے کا حکم ہوتا، عقیدت مندوں کی مجال نہیں تھی کہ خلاف جاتے ۔ کرموں نے پچھلے سال نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے محلے کے اس امیدوار کو ووٹ دیا، جسے وہ جانتا تھا کہ کس قماش کا بندہ ہے، مگر ’حکمِ حاکم، مرگِ مفاجات‘ کے تحت ووٹ اسے ہی دیا
پیر صاحب نے یہ عزت مفت میں نہیں کمائی تھی، لوگوں کو اپنا عقیدت مند بنانا آسان کام نہ تھا ۔ اس کے لئے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، قربانیاں دی جاتی ہیں، گالیاں کھانی پڑتی ہیں، الزامات کا سامنا رہتا ہے، ہرپل جان سے مار دینے کے فتوے جاری ہوتے ہیں، مسلسل ذاتی حملوں کا نہ رکنے والا سلسلہ ہوتا ہے، تب کہیں جاکے یہ پیری فقیری آگ میں جل کر کندن بنتی ہے
پیر صاحب اور ان کا خاندان اب اس مقام پر تھا کہ قربانیوں کا پھل چکھتے اور زندگی کی آسائش سے لطف اٹھاتے۔ اپنے لئے نئے گھر، بنگلے اور گاڑیاں خریدتے ۔ اگر آج پیر صاحب اس مقام پر ہیں تو کسی کو اعتراض کرنے یا ان پر انگلی اٹھانے کی جرأت نہیں ہونی چاہئے ۔ بالآخر اللہ صبر کا پھل تو دیتا ہے اور پھر یہ تو ویسے بھی اللہ والے ہیں۔۔
عموماً یہ سمجھا جاتا تھا کہ کرموں ہی کو اپنے پیر صاحب سے اندھی عقیدت ہے مگر یہ خیال غلط تھا، بہت سے پڑھے لکھے اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ان کی عقیدت اور محبت کا دم بھرتے تھے۔ ان کی دعاؤں سے فیض یاب ہوتے اور ان سے ملاقات کو ایک اعزاز سے کم نہ سمجھتے تھے ۔ وہ دعائیں جو پوری نہ ہوتی تھیں، انہیں خدا کی رضا سمجھ کر بھلا دیا جاتا تھا ۔ اور جو حسنِ اتفاق سے قبولیت کی سند پاتیں، انہیں پیر صاحب کے معجزوں اور کرامات سے تعبیر کیا جاتا، جانثار ان کی خوب تشہیر کرتے، یوں عقیدت مندوں کے ہجوم میں کمی نہ آنے دیتے ۔ پیر صاحب کے ’پجاری‘ ہر حکم پر عمل کرنے کے لئے تن من دھن سے ہمہ وقت تیار رہتے ۔ نہ کا تو کوئی سوال اور تصور ہی نہیں تھا ۔ ہر تمنا ان کے حضور پیش کی جاتی ۔ خواہشات کی تکمیل نہ ہونے کو دیری اور ناراضی کا موجب قرار دیا جاتا ۔ اس ناراضی کو راضی میں بدلنا بہت مہنگا پڑتا ، اس راہ میں مال قربان کرنا پڑتا، پہلے سے بڑھ کر صدقہ و خیرات دینا ہوتا، تاکہ ناراض خدا کو ہر قیمت پر راضی کیا جا سکے ۔ پیر صاحب ہر عقیدت مند کے بلا شرکت و غیرے ایک ایسے حکمران تھے کہ جن کی حکم عدولی دراصل خدا کی حکم عدولی تھی
کرموں پیرصاحب کی جاہ و حشمت دیکھتا تو کبھی کبھی سوچتا کہ کیا میرے حالات بھی پیر صاحب کی طرح یوں پلٹا کھا سکتے ہیں۔۔؟ عالیشان گھر، مہنگی ترین گاڑی، عزت عیش و آرام، دین و دنیا میں سرخروئی۔۔ آج بھی جب فجر سے مغرب تک اینٹیں ڈھونے کے بعد مزدوری ملی ، چوڑی سخت ہتھیلی پر رکھ کر اسے گھورنے لگا ۔ یہ سیٹھ لوگ بھی انتہا کے کنجوس ہوتے ہیں سالے ، سارا دن گدھوں کی طرح کام لیتے ہیں اور پھر انسان کی بجائے گدھا ہی سمجھنے لگتے ہیں ۔ کرمو کو یوں مایوس دیکھ کر ایک اور مزدور شرفو، سیمنٹ کی آخری بوری پشت پر ڈال کر اسٹور میں رکھنے کے بعد ہاتھ چھاڑتا ہوا اس کی طرف چلا آیا ۔
”خیر تو ہے کرموں آج تو بڑا پریشان دکھا ئی دے رہا ہے؟“ شرفو نے تشویش سے پوچھا۔
کرموں وہیں زمین پر ایک بنی پر اکڑوں بیٹھ گیا اور ایک ٹھنڈی آہ بھر کے بولا ”بس یار کیا کروں، بیوی بیمار ہے، بچے بھوکے ہیں، اتنی محنت کرتا ہوں، مگر یہ الو کے پٹھے حرام کے پلے کام کروا کروا کے میری ہڈیا ں تڑواتے ہیں۔۔ ہڈیوں سے سارا گودا نچوڑ لیتے ہیں مگر اسے بھرنے کے لئے میرا حق مجھے نہیں لوٹاتے ۔ سوچ رہا ہوں آج پھر پیر صاحب کے دربار میں حاضری دوں۔۔ انہیں اپنی مشکلات سے آگاہ کروں۔۔ شاید ان کی دعاؤں کے صدقے مجھے سکون اور بہتر روزگار مل جائے“
شرفو نے کرموں کی بات سنی اور بولا ”یار کرموں کیا تو جانتا ہے کہ یہ پیر صاحب کی جاہ و جلال، حشمت و دولت اور چاہنے والے ہمیشہ سے نہیں تھے؟ مگر پھر دیکھتے ہی دیکھتے کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔۔“
کرمو نے شرفو کی طرف عجیب نظروں سے گھورا اور بولا ”تو کہنا کیا چاہتا ہے۔۔؟ ہمارے پیر صاحب بہت پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔۔ یہ سب اللہ تعالٰی کا ان پر خاص فضل ہے جو انہیں آج ایک مقام اور عزت ملی ہے۔۔ میں اپنے پیر و مرشد اور ان کے خاندانِ مقدس کے خلاف ایک بھی برا لفظ سننا نہیں چاہتا۔۔ اگر تجھے میری دوستی عزیز ہے تو دوبارہ ایسی بات نہ کرنا، ورنہ میری اور تمہاری دوستی ختم۔۔ پیر صاحب پر میرا سب کچھ قربان۔۔۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اگر میری اولاد، مال سب اس راہ میں چلا جائے، تو تب بھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔۔ ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا سیدی پیر و مرشد، میرے والدین، اولاد، مال اور جان سے بڑھ کے ہیں“
شرفو نے کرمو کو جو یوں پُرجوش دیکھا تو نرم لہجے میں بولا ”اچھا بھئی ناراض کیوں ہوتا ہے؟ دیکھ میرے آگے پیچھے تو کوئی ہے نہیں، کہ پیسوں اور گھر بار کی فکر ہو، مگر تیرا معاملہ اور ہے۔۔ اس لئے میں تجھے ایک آسان راستہ بتا سکتا ہوں کہ تیرے حالات بھی پیر صاحب کی طرح چٹکیوں میں بدل جائیں گے۔۔ فاقے کی نوبت تک نہ آئے گی۔۔ آزما کے دیکھ لے۔۔ اللہ کے فضل و کرم سے کامیابی تیرے قدم چومے گی اور تو بھی اللہ والوں میں شمار ہونے لگے گا“
کرموں نے بے یقینی سے اس کی طرف دیکھا پھر نگاہوں میں پیر صاحب کی دولت، عالیشان محل، رعب و دبدبہ، خاندانی وجاہت فلم کی طرح چلنے لگی۔۔ اسے خاموش دیکھ کر شرفو سمجھ گیا کہ لوہا گرم ہے، مزید چوٹ لگائی جا سکتی ہے۔۔ وہ پرجوش لہجے میں بولا ”پھر کیا سوچا کرموں؟ میں تجھے ایک آسان نسخہ دولت کی کمائی کا بتاتا ہوں۔ اسے بس اپنے تک رکھنا“
شرفو نے جانے کرموں کے کان میں کیا کہا، اس کے چہرے پر عجیب و غریب اتار چڑھاؤ نمودار ہونے لگے ۔ حیرت، خوشی اور پھر اطمنان کی ایک لہر۔۔ شرفو نے جو بات کہی تھی، اس پر عمل اس مقام پر ممکن نہ تھا ۔ یہاں پہلے ہی بڑے پیر صاحب کی حکومت تھی ۔ اور وہ ان کی عقیدت کا دم بھرتا تھا ۔ ان کی شان میں گستاخی کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور پھر سچی بات تو یہ تھی کہ ان کی ریاست میں کوئی بھی کام ان کی مرضی کے بغیر کرنے کی اجازت نہیں تھی بلکہ مجال نہ تھی کہ چڑیا بھی پر بھی مار سکے ۔ چنانچہ اس نے اپنا چھوٹا سا گھر پیر صاحب کے ہی ایک عزیز کے ہاتھ اونے پونے فروخت کر دیا۔ پراپرٹی کے اس بزنس میں انہیں اگر دھونس، دھمکیوں اور دھاندلی سے بھی کام لینا پڑتا تو اس سے بھی نہ چوکتے تھے ۔ چونکہ تعلق مقدس خاندان سے تھا اس لئے ان کے خلاف جانے یا شکایت کرنے کی کسی میں جرأت نہ تھی۔ عقیدت مند خاموشی میں ہی عافیت جانتے تھے
کرموں، بیوی بچوں کو لے کر قریبی گاؤں چلا آیا ۔ نئی جگہ وقتی طور پر اجنبی ضرور تھی ، مگر جانتا تھا کہ یہ مقام اس کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بہترین ہے ۔ اس نے چند ہی دنوں میں لوگوں سے علیک سلیک بڑھا لی ۔ گاؤں سے باہر مناسب جگہ دیکھ کر زمین لی اور کچا پکا کوٹھا تعمیر کر لیا ۔اس سے پہلے کہ گھر بیچ کر ملی رقم ختم ہو جاتی، اب عمل کا وقت تھا ۔ کرموں نے اپنی بیوی کو پہلے سے اعتماد میں لے لیا تھا، وہ بھی خوشحال دنوں کا تصور کر کے بے چینی سے انتظار کرنے لگی ۔
پہلے مرحلے میں کرموں نے گھر کے سامنے موجود کھلے میدان میں چارپائی ڈالی اور لگا لوگوں کو قبولیت دعا کے قصے سنانے۔۔ کبھی اچانک بارش رکنے ، کبھی خوفناک حادثوں سے بچ نکلنے ، کبھی مرنے سے معجزانہ زندہ ہونے کے قصے، نبیوں ولیوں سے ملاقاتیں تو کبھی سامنے دکھائی دیتا کوئی بزرگ اور کبھی خواب میں آنے والے اولیاء اللہ جو لوگوں کو اس کی مدد کی تلقین کرتے اور جواب میں ایسا نہ کرنے پر گاؤں پر کوئی بڑی آفت آنے کی پیشگوئی کرتے تھے ۔
دیہات کے سادہ لوح لوگ مہر بہ لب ، ٹکٹکی باندھے ان واقعات کو سنتے اور خوفزدہ ہو کر لوٹ جاتے ۔ اگلے دن ان میں سے کوئی بھی خالی ہاتھ نہ آتا۔ روٹی کپڑے کاسلسلہ تو یہیں سے شروع ہو گیا ۔ لوگ متاثر ہونے لگے ۔ کچھ عرصہ کے بعد اس نے عجیب و غریب حرکیتں شروع کر دیں ۔ کبھی اچانک زور سے چیخ مارتا اور کبھی دھمال ڈالتا۔ مرید ، مزید مرعوب ہوکر نذر و نیاز دینے لگے ۔ کرموں کے گھر کا خرچہ چل نکلا ۔ پیسوں کی ریل پیل شروع ہو گئی
اب اس نے اپنی وضع قطع بدلنے کی ٹھانی۔ پیر صاحب کی نقالی کرتے ہوئے ۔ داڑھی بڑھا لی سفید لباس کے اوپر اچکن ۔ سفید بَراق پگڑی ۔ ہاتھ میں ہمہ وقت تسبح جس کے دانے حیرت انگیز طور پر بات کرتے مسلسل گرتے رہتے ۔
پیر صاحب تک اس نئے سلسلے کی بھنک پہنچ چکی تھی ۔ وہ سخت جلال میں تھے ۔ وہ خود کو پیر کامل اور سچا مُرشد سمجھتے تھے۔ اس لئے ان کے راستے کے مخالف چلنا حرام خیال کرتے تھے ۔ لوگوں کو اس بات کی تلقین کرتے تھے کہ ان کا کہا ہی حرف آخر ہے، کسی اور کی پیروی ہرگز ہرگز قابل قبول نہیں، اگر کوئی ایسا کرے وہ سخت کافر، مرتد اور واجب القتل ہے ۔ ایسے شخص کو جہنم واصل کرنا اہم دینی فریضہ ہے ۔ مقدس مشن کی تکمیل کے لئے کسی بھی قسم کی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی ۔
انہوں نے کرموں کے خلاف، جو اب حضرت حاجی صاحبزادہ صاحب سید نا کریم الدین کنجاہلوی شریف تھے، کے قتل کا فتویٰ صادر فرما دیا ۔ اس فتوے پر عمل کسی بھی وقت متوقع تھا ۔ کئی جانثار اس اہم فریضہ کی ادائیگی کے لئے تلواریں نیام سے نکال چکے تھے ۔
ادھر حضرت حاجی سیدنا صاحبزادہ کریم الدین کنجاہلوی شریف صاحب نے محض حکم خداوندی سے نئے مرید بنانے کے لئے بیعت لینے کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ شرفو کی بتائی آخری ترکیب پر اب عمل کا وقت تھا، جس کے بعد ریاضت کے یہ سلسلے ختم ہو کر اس کے دلدر دور ہونا یقینی تھے۔
ماضی کے کرموں اور حال کے حضرت حاجی صاحبزادہ سیدنا کریم الدین کنجاہلوی شریف صاحب نے قبر کھود کر لوگوں سے فرمایا ”اللہ کے پیارو! میرے چاہنے والو! حق کے جانثارو!!! محض اللہ کے فضل و کرم سے اس قبر میں تین دن بغیر کھائے پئے رہوں گا ۔ اور تم دیکھنا کہ تین دن کے بعد زندہ سلامت نکل آؤں گا۔۔۔“ لوگوں کے لئے یہ بات ناممکنات میں سے تھی ۔ مگر صاحبزدہ صاحب نے یہ بھی کر دکھایا۔ قبر کھودی گئی ، آپ قبر میں تشریف لے گئے ۔ عقیدت مندوں کے سامنے مٹی ڈالی اور تعویذ بنا دیا گیا ۔ آپ تین دن بعد زندہ سلامت نکل آئے ۔ یہ معجزہ دیکھنے کے بعد کچھ کمزور ایمان لوگوں کا ایمان بھی مضبوط ہو گیا ۔
اس معجزے کے ایسے کامیاب اثرات تھے کہ تعداد بڑھنے لگی ، ہجوم جمع ہونے لگا اور نذرو نیاز میں اضافہ ہوتا چلا گیا
حضرت صاحبزادہ صاحب ہر تین دن بعد قبر سے نکلتے تو صحیح سلامت ہوتے۔
صاحبزادہ صاحب بی بی کے پاس بیٹھے پُرتکلف کھانا نوش فرما رہے تھے اور اپنی فتح و کامیابی پر خوشی سے پھولے نہ سما تے تھے۔ آمدنی میں اتنا اضافہ ہوگیا تھا کہ اب سنبھالے نہ سنبھلتا تھا ۔ کبھی ایک لمحہ دیہاتیوں کی سادگی اور معصومیت کے بارے میں سوچتے مگر پھر پاپی پیٹ کاخیال آتا، خود کو تسلی دیتے اور خفیہ رستے پر مرغیوں کا ڈربہ کھسکا دیتے جو ان کے گھر سے قبر تک جاتا تھا ۔
ادھر دروازے پر قبر پکی کرنے والے پہنچ چکے تھے عنقریب ایک مزار بننے والا تھا، جس کی آمدنی بھی اب بڑے پیر صاحب کو ہونے والی تھی ۔ بڑے پیر صاحب نے حضرت حاجی سیدنا صاحبزادہ کریم الدین کنجاہلوی شریف صاحب کی بیوہ اور بچوں کا وظیفہ پہلے دن سے مقرر کرکے ایک دفعہ پھر مریدین میں اضافہ اور نمایا ں مقام حاصل کر لیا تھا۔۔۔