مہنگائی سے تنگ عوام کے لیے بری خبر ہے کہ مسلم لیگ نون کی سربراہی میں قائم پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت نے منی بجٹ پیش کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تاکہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے دیگر تحفظات کو بھی دور کیا جا سکے تاہم اس سے مہنگائی میں مزید اضافے کا خدشہ ہے
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ابھرتی ہوئی سیاسی غیر یقینی کی صورتحال معاشی بحالی کے راستے میں چیلنج کا باعث بن رہی ہے
دوسری جانب شرح سود اور مہنگائی کی انتہائی بلند سطح، عالمی اقتصادی سست روی، اجناس کی غیرمستقل قیمتیں اور روس اور یوکرین کے درمیان نہ ختم ہونے والی جنگ کی وجہ سے ناموافق عالمی ماحول بھی بڑا چیلنج ہے
حکومت کو اس فیصلے کے نتیجے میں پنجاب، خیبرپختونخوا اور پھر ملک بھر میں عام انتخابات سے قبل جلد ہی سخت فیصلے لیے جائیں گے جوکہ مہنگائی کے مارے عوام کے لیے عذاب ثابت ہوں گے
بجلی کی قیمتوں میں تقریباً 30 فیصد کا اضافہ، گیس کی قیمتوں میں 60 سے 70 فیصد کا اس سے بھی بڑا اضافہ، نئے ٹیکس اقدامات اور شرح سود میں اضافہ آنے والے معاشی طوفان کے نمایاں ’ثمرات‘ ہوں گے
ماہرین اقتصادیات کے مطابق ان اقدامات کے مشترکہ اثرات سے مہنگائی کی شرح میں مزید 5 سے 10 فیصد پوائنٹس تک اضافہ ہوگا جو پہلے ہی 25 فیصد کے اردگرد منڈلا رہی ہے
پی ٹی آئی اور موجودہ حکومت دونوں سے وابستہ رہنے والے ایک ماہر معیشت نے کہا کہ ’اس کے سیاسی اثرات ہوں گے اور یہ بہت تلخ ہوں گے‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’ان اقدامات کے ساتھ ساتھ ملک میں اس وقت موجود 3 الگ الگ فارن ایکسچینج مارکیٹوں کے خلاف فیصلہ کن کریک ڈاؤن نظام میں سنگین بگاڑ کو دور کرنے میں مدد کرے گا جو پہلے ہی غیر ملکی زرمبادلہ کی خطرناک حد تک کمی کا شکار ہے۔
انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا ’یہ ایسے نازک مرحلے پر ہوتا ہے جب معیشت جمود کا شکار ہو، اس وقت ٹرپل فاریکس مارکیٹ کی وجہ سے برآمدات اور ترسیلات زر میں کمی آرہی ہے اور سپلائی سائیڈ کے مسائل کی وجہ سے مہنگائی بڑھ رہی ہے‘
تاہم ان اقدامات کی عدم موجودگی میں مہنگائی چند ہفتوں میں 50 فیصد سے بھی تجاوز کر سکتی تھی جیسا کہ سری لنکا اور گھانا میں ہوا تھا جہاں اب مہنگائی کی شرح 70 فیصد اور 50 فیصد سے تجاوز کر رہی ہے
اگرچہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے طے پا جانے کی صورت میں لگ بھگ ایک ارب 20 کروڑ ڈالر فوری طور پر جاری ہوں گے اور اس سے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین جیسے دوست ممالک سمیت قرض دہندگان سے مالی امداد حاصل کرنے میں مدد ملے گی، لیکن اس کا سارا نزلہ عوام پر مہنگائی کی صورت میں گرے گا
دوسری جانب دوست ممالک نے پہلے ہی عوامی سطح پر یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے ذمہ دارانہ انداز اختیار کرنے اور اصلاحات کے بعد ہی اضافی وسائل کے ساتھ پاکستان کی مدد کی جائے گی
پی ڈی ایم حکومت ایک دوراہے پر کھڑی ہے، اس کے لیے ایک آپشن یہ ہو سکتا ہے کہ عام انتخابات کا اعلان کر دیا جائے اور پانچ سالہ مینڈیٹ والی نئی حکومت کو اس سے بھی زیادہ سخت فیصلے کرنے دیں۔ لیکن حکومت میں شامل جماعتیں اپنے تمام کیس ختم کرانے کے باوجود فی الحال انتخابات کی طرف جانے سے کترا رہی ہیں، کیونکہ حالیہ ضمنی الیکشن میں بھی انہیں بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا
نئی حکومت کو وہ تمام ڈھانچہ جاتی اصلاحات کرنی ہوں گی جو سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے دور سے اب تک آنے والی تمام حکومتوں میں زیر التوا رہیں اور اس کے لیے ایک اور آئی ایم ایف پروگرام کی ضرورت ہوگی
خسارے میں چلنے والے اداروں خصوصاً بجلی اور گیس کمپنیوں کی نجکاری، ریگولیٹرز کی جانب سے توانائی کے شعبے کے لیے ٹیرف کے انتظام اور چینی، گندم اور کھاد وغیرہ جیسی اشیا کے لیے شفاف سبسڈی کو تمام فریقین نے ہمیشہ اس وقت حمایت کی ہے جب وہ اقتدار میں ہوتے ہیں اور جب وہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان اقدامات کی مخالفت کرتے ہیں
سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ کے ڈاکٹر عبدالقیوم سلہری نے کہا کہ ’جب ہمارے سعودی عرب جیسے دوست مالی امداد سے پہلے اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسد عمر کی طرح دوبارہ کسی وزیر خزانہ کو آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج لینے کے لیے 8 سے 9 ماہ کا وقت نہیں ملے گا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں عالمی برادری سے اس وقت تک توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہئیں جب تک کہ ہم ان کی توقعات پر پورا نہ اتریں‘