کیا ہر قسم کی ’محنت میں عظمت‘ پائی جاتی ہے؟

حسنین جمال

ہم ان لوگوں کی ہمیشہ بہت تعریف کرتے ہیں، جو ہاتھ سے روزی کماتے ہیں

جوتے پالش کرتا موچی، کوڑا چننے والا بچہ، ہمارے فالتو سامانوں میں گِھرا کباڑیا، گاڑی پہ وائپر لگاتے بچے اور بچیاں، گٹر صاف کرتا ہوا میونسپلٹی کا ملازم، یہ سب مشقت کرتے ہیں اور دیہاڑی کماتے ہیں

ہم ایسے لوگوں کی تعریف کرتے ہیں لیکن ان کاموں کو اپنے ہاتھ سے کبھی کیوں نہیں کر کے دیکھتے؟

ہمیں ضرورت ہی کیا ہے یہ سب کرنے کی؟ ہمیں کیوں جاننا ہے کہ ’محنت میں عظمت‘ جو ہے، وہ کیسی محسوس ہوتی ہے؟

اب تصور کریں کہ آپ کسی گلی میں ایک کونے پہ درخت کے نیچے اپنی بوری بچھا کر بیٹھے ہیں۔ آپ کے ساتھ لکڑی کا ایک میلا سا بکسا موجود ہے۔ اس میں پالش اور جوتے مرمت کرنے کا سامان ہے۔ درخت کے ساتھ اپنے سر کے عین اوپر آپ نے تسمے اور رنگ برنگی چمڑے کی کترنیں لٹکائی ہوئی ہیں

شدید دھوپ، حبس یا بارش میں اپنی یہ موبائل دکان اٹھا کر کہیں منتقل کرنا بھی آپ کی ذمے داریوں میں شامل ہے

تو آپ بیٹھے ہیں، کوئی آدمی اچانک آتا ہے اور اپنے دونوں پیر آپ کے سامنے کر دیتا ہے کہ یار ذرا کھڑے کھڑے برش مار دو

تجربہ کرنا ہو تو زمین پر بیٹھیں اور موبائل کیمرے سے ایسا ایک منظر ریکارڈ کریں۔ آپ کے پاس کوئی آئے اور اپنا پیر آگے بڑھا کر جوتا چمکانے کو بولے۔ ایک کیمرہ آپ کی آنکھوں والی جگہ پر ہو اور ایک دور سے یہ منظر ریکارڈ کر رہا ہو

موچی جہاں بیٹھتا ہے، اس اینگل پہ سر کے اوپر کھڑا ہوا بندہ خواہ مخواہ چوہدری لگتا ہے۔ یہ وڈیو بناتے ہوئے آپ کو دور والے کیمرے سے نہیں سمجھ آئے گا۔ اس کے لیے زمین پر چوکڑی مار کے بیٹھنا ضروری ہے

اب فرض کریں آپ وہی موچی ہیں، وہ آدمی آپ کے پاس آ کر اسی لکڑی کی پیٹی پہ بیٹھ جاتا ہے اور جوتے اتار کے دیتا ہے کہ یار انہیں ذرا پالش کر دو۔۔

آپ جوتوں کے اندر ہاتھ ڈالتے ہیں۔ پیروں کا پسینہ، جرابوں کی بو، انسانی جسم کی نم آلودہ گرمی اور کسی کا جوتا ہاتھ میں تھام کر اسے چمکانے کا احساس۔۔۔ اگر محنت میں کوئی عظمت ہے تو وہ شاید ان مرحلوں سے گزر کے محسوس ہوتی ہوگی

لیکن تب کہ جب آپ میری طرح سکون سے کرسی میز پہ بیٹھے ایک موچی کے بارے میں لکھ رہے ہوں۔ کیا اس موچی کو بھی اپنے کام میں ’عظمت‘ محسوس ہوتی ہو گی؟

کیا یہ عظمت اس بچے کو محسوس ہوتی ہو گی جو کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں میں سے اپنے کام کی چیزیں چُنتا ہے اور شام گئے انہیں کہیں بیچ کے روٹی کا سامان کرتا ہے۔ اسے دور سڑک پہ صاف ستھرے کپڑوں میں سکول جاتے بچے کیسے لگتے ہوں گے؟ ان سکولی بچوں کو اس ’عظمت‘ کا شاید علم ہو، کوڑے والے کو اندازہ بھی ہو گا اس ساری گیم کا؟

سگنل رکتا ہے، نوجوان بچی تیزی سے بھاگ کے گاڑی تک آتی ہے، بوتل سے پانی کی پچکاری شیشے پہ مارتی ہے، شیشہ صاف کرتے ہوئے اسے احساس ہے کہ اندر بیٹھا آدمی کہاں دیکھ رہا ہے، دونوں سائیڈ سے پورا شیشہ سگنل کھلنے سے پہلے صاف کر اسے واپس آنا ہے اور پیسے بھی لینے ہیں۔ جیسے تیسے وائپر مار کے وہ ڈرائیونگ سائیڈ پہ واپس آتی ہے۔ شیشہ تھوڑا سا کھلتا ہے اور بیس روپے اس کے ہاتھ میں آ جاتے ہیں۔ وہ ہلکی سی ٹھنڈک اپنے ہاتھوں پہ محسوس کرتی ہے یا مردہ مچھلیوں جیسا لجلجا لمس اور سگنل ہرا ہو جاتا ہے۔ اسے کسی عظمت کا احساس کیوں نہیں ہوتا اس سارے عمل میں؟

گٹر میں اتر کے اسے صاف کرنے والے کی جگہ پہ تو ہم کبھی خود کو رکھ ہی نہیں سکتے۔ تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ کیا اس کے جسم سے وہ بُو کبھی ختم بھی ہوتی ہو گی؟ اس کے بھی کوئی بیوی بچے ہوں گے جن کے ساتھ وہ چوبیس گھنٹے رہتا ہو گا۔ گٹر والے کو چھوڑیں ان بیوی بچوں کو بھی یہ احساس کبھی ہوا ہو گا کہ ہمارا سائیں کیسی عظمت والا کام کرتا ہے اور گھر چلاتا ہے؟

اب کیا آپ یہ والی محنت کر کے عظیم ہونا پسند کریں گے یا بھیک مانگنا؟

بھیک مانگنا بھی اپنی جگہ پہ ایک مشکل کام ہے۔ تصور کریں کہ آپ سڑک کنارے کھڑے ہیں۔ میلے کپڑے آپ نے پہنے ہوئے ہیں۔ پیروں میں پھٹے ہوئے جوتے ہیں۔ چہرہ ایسے لگتا ہے جیسے کئی صدیوں سے بیمار ہیں۔ آپ نے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں۔ آتے جاتے ہر بندے کو مخاطب کرتے ہیں اور اس سے مدد کی درخواست کرتے ہیں۔ لوگ آپ کو دھتکار رہے ہیں۔ کوئی طعنے دے رہا ہے کہ ہٹے کٹے ہو کام کیوں نہیں کرتے؟ اگر آپ عورت ہیں تو آپ کو گھر میں کام پہ رکھنے کی آفر دی جاتی ہے، آتی جاتی معزز آنٹیاں آپ کو دیکھ کے منہ بنا کر گزر جاتی ہیں۔ مرد آنکھوں سے ہی کہہ دیتے ہیں کہ بھئی کیا رکھا ہے بھیک مانگنے میں، یہ نہیں ’وہ‘ والا کام کرو۔

بھیک مانگنا آپ شاید پسند نہ کریں۔ گٹر صاف کرنا شاید بہتر آپشن لگے۔ کیوں؟

اس لیے کہ آپ کو یہ پڑھایا گیا ہے کہ ’محنت میں عظمت ہے۔‘

اب بات سمجھنے کی ہے۔۔

عظمت کے بہت سے لیول ہوتے ہیں۔ یہ عظمت وہ والی ہے جو اخلاقی طور پہ چارج رکھنے کے لیے زبردستی دی جاتی ہے، تاکہ کام کرنے والے کو یہ احساس ہوتا رہے کہ وہ ہاتھ سے محنت کر کے کما رہے ہیں، کوئی عیب والا کام نہیں کر رہے۔

اگر ان کاموں میں عظمت ہے تو آپ موچی ہونے، کباڑیا بننے یا گٹر صاف کرنے کے بارے میں سوچ بھی کیوں نہیں سکتے؟ ’جوتے پالش کرنا‘ طنزیہ محاورہ کیوں ہے؟

عظمت اصل والی اس پوزیشن میں ہے، جہاں دوسرے انسان آپ کے محتاج ہیں! چاہے وہ آپ کی دولت ہو، علم ہو، عہدہ ہو معاشرتی پوزیشن ہو یا آپ کی ’فقیری، درویشی‘ ہی کیوں نہ ہو!

جس پوزیشن پہ دنیا آٹو میٹکلی آپ کو عزت دینے پہ مجبور ہو، آپ کے آس پاس گھومتی رہے، آپ کے ایک اشارے کی منتظر ہو، عظمت بھی عین وہیں پہ کھڑی پائیں گے آپ۔

باقی جو سب ہے بس رکھ رکھاؤ اور وضع داری ہے یا لفظوں کا ہیر پھیر!

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close