بھارت: نریندر مودی پر ڈاکیومنٹری یونیورسٹیز میں دکھانے پر پابندی، متعدد طلبہ گرفتار

ویب ڈیسک

بھارت میں مختلف یونیورسٹیوں کی انتظامیہ کی جانب سے وزیرِاعظم نریندر مودی سے متعلق بی بی سی کی ڈاکیومینٹری دکھانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور پولیس نے کئی طلبہ کو حراست میں لے لیا ہے

واضح رہے کہ مودی سرکار نے ملک میں یوٹیوب پر اس ڈاکیومینٹری پر پہلے ہی پابندی عائد کر رکھی ہے

’انڈیا: دی مودی کویسچن‘ نامی اس دستاویزی فلم میں یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ مودی بطور وزیر اعلیٰ 2002 کے گجرات فسادات کو روکنے اور ملوث افراد کے خلاف کارروائی میں ناکام کیوں ہوئے

بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نے پورے ملک کی یونیورسٹیوں میں یہ فلم دیکھنے کی کال دی ہے۔ دارالحکومت نئی دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کی طلبہ یونین کی صدر آئشی گھوش کا کہنا ہے کہ گجرات کے پُرتشدد واقعات پر برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی دستاویزی فلم دیکھنے پر حکومت کی پابندی غیر جمہوری ہے۔ ہر شہری کو کسی بھی فلم یا کسی بھی واقعے کے بارے میں حقائق جاننے اور اپنی رائے رکھنے کا حق حاصل ہے

انہوں نے کہا کہ جے این یو، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی اور دیگر ریاستوں کی یونیورسٹیز میں اس فلم کو دکھانے کے خلاف پولیس کی کارروائی غیر اعلانیہ سینسر شپ ہے۔ ہم نے بائیں بازو کی طلبہ تنظیم ’اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا‘ (ایس ایف آئی) کی جانب سے تمام کیمپسز میں بی بی سی کی دستاویزی فلم دیکھنے کی کال دی ہے

واضح رہے کہ ایس ایف آئی سے وابستہ طلبہ نے منگل کی رات نو بجے جے این یو کیمپس میں بی بی سی کی دستاویزی فلم ’انڈیا: دی مودی کوئسچن‘ دکھانے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن یونیورسٹی انتظامیہ نے مؤقف اختیار کیا کہ فلم دکھانے سے کیمپس میں امن و قانون کی صورت حال خراب ہو سکتی ہے۔ اسے بنیاد بناتے ہوئے انتظامیہ نے فلم کی اسکریننگ پر پابندی عائد کر دی تھی

اس پابندی پر طلبہ نے یونیورسٹی انتظامیہ کے نام خط لکھا، جس میں کہا گیا تھا کہ طلبہ کیمپس میں کوئی مسئلہ پیدا کرنا نہیں چاہتے۔ یہ رضاکارانہ کال ہے۔ جو دیکھنا چاہے دیکھے، جو نہ چاہے نہ دیکھے۔ لیکن انتظامیہ نے منگل کی شب ساڑھے آٹھ بجے کیمپس کی بجلی کاٹ دی، جس کے بعد طلبہ نے اپنے موبائل فون اور لیپ ٹاپ پر یہ فلم دیکھی

بجلی منقطع ہونے کے بعد تقریبا 300 طلبا نے یونین کے دفتر کے باہر قالین بچھا کر کیو آر کوڈ کی مدد سے اپنے اپنے فون پر ڈاکیومنٹری دیکھنے کی کوشش کی لیکن انٹرنیٹ کی رفتار کم ہونے کی وجہ سے انھیں کافی مشکل پیش آئی۔

اس کے بعد بہت سے طلبا اپنے اپنے کمروں سے لیپ ٹاپ لے کر آئے اور چھوٹے گروپوں میں ڈاکومنٹری دیکھنا شروع کر دی تاہم انٹرنیٹ کی رفتار کا مسئلہ درپیش رہا

اس دوران ان پر پتھراؤ کیا گیا۔ ان کا خیال ہے کہ پتھراؤ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی طلبہ شاخ ’اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد‘ (اے بی وی پی) سے وابستہ طلبہ کی جانب سے کیا گیا

اگلے روز یعنی بدھ کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ نے بھی فلم دکھائے جانے کا اعلان کیا۔ جامعہ کی انتظامیہ نے بھی اس پر پابندی عائد کر دی۔ جامعہ ملیہ کی انتظامیہ نے اس اعلان کے بعد یونیوسٹی کے تمام دروازے بند کر دیے اور تدریسی عمل بھی روک دیا

اس موقعے پر کیمپس میں بڑی تعداد میں پولیس تعینات رہی۔ پولیس نے انتظامیہ کے احکامات کی خلاف ورزی کرنے والے ایک درجن سے زائد طلبہ کو حراست میں لے لیا

جے این یو سٹوڈنٹس یونین کی صدر آئشی گھوش کا کہنا ہے ’مودی حکومت سکریننگ کو روک سکتی ہے لیکن عوام کو یہ فلم دیکھنے سے نہیں روک سکتی۔‘

آئشی گھوش کہتی ہیں کہ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ فلم غلط ہے یا اس میں پیش کیے گئے حقائق درست نہیں تو اپنا مؤقف سامنے لائے اور وضاحت کرے کہ اس میں ایسا کیا غلط اور بے بنیاد ہے، جس کی وجہ سے اس فلم کو نہیں دیکھنا چاہیے

ان کا کہنا تھا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں انتظامیہ اور پولیس کی کارروائی قابل مذمت اور غیر منصفانہ ہے۔ پولیس نے متعدد طلبہ کو حراست میں بھی لیا ہے

لیکن جامعہ کی وائس چانسلر نجمہ اختر کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کے احتیاطی اقدامات کی وجہ سے کیمپس میں صورتِ حال معمول پر رہی

آئشی گھوش کے مطابق اگر آج کے نوجوان اور طلبہ اہم ملکی معاملات پر غور و فکر کرنا چاہتے ہیں یا وہ پڑھنا چاہتے ہیں تو حکومت اس پر پابندی عائد کر رہی ہے۔ جب کہ کسی بھی معاملے پر غور و فکر کے بعد ہی قومی اتفاق رائے پیدا ہوتا ہے اور ایک تعمیری سوچ سامنے آتی ہے

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم آج بھارت کا یوم جمہوریہ منا رہے ہیں۔ لیکن آئین نے جمہور کو جو حقوق دیے ہیں ان پر پابندی لگانے یا ان کو محدود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وہ سوال کرتی ہیں کہ یہ کیسی جمہوریت ہے؟ جہاں طلبہ کو لکھنے پڑھنے، غور و فکر کرنے اور اپنی رائے قائم کرنے کی آزادی نہیں ہے

یاد رہے کہ ریاست کیرالہ کی کئی یونیورسٹیز میں بھی، جہاں بائیں بازو کی حکومت ہے، یہ دستاویزی فلم دیکھی گئی۔ کلکتہ کے طلبہ نے حکومت سے مختلف کیمپسز میں فلم دیکھنے کی اجازت طلب کی ہے

آئشی گھوش کے مطابق حیدرآباد میں بھی طلبہ نے فلم دیکھنے کی کوشش کی تھی، لیکن وہاں بھی پولیس نے کئی طلبہ کو حراست میں لے لیا ہے

واضح رہے کہ جے این یو بائیں بازو کے طلبہ کا گڑھ رہی ہے۔ لیکن جب سے مرکز میں بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی ہے اے بی وی پی اور ایس ایف آئی میں تصادم بڑھ گیا ہے۔ بائیں بازو کے طلبہ اور حکومت و انتظامیہ کے مابین بھی تکرار بڑھی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت جے این یو کیمپس سے بائیں بازو کے نظریات والے ماحول کو ختم کرنا چاہتی ہے

دوسری جانب دستاویزی فلم پر پابندی کے سلسلے میں عوام دو حصوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ سول سوسائٹی، انسانی حقوق کے کارکنوں اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت کی جانب سے عائد کی گئی پابندی غلط ہے۔ اس قسم کی پابندیوں سے معاشرے میں آزاد سوچ کے پنپنے کا راستہ مسدود ہو جاتا ہے

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) کے سینئر رہنما اتل کمار انجان کہتے ہیں کہ فلم کو دیکھنا نہ صرف ہر طلبہ کا بلکہ ہر شہری کا حق ہے

وہ مزید کہتے ہیں کہ ابھی تو یہ فلم جے این یو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، بنارس ہندو یونیورسٹی اور جنوب کی یونیورسٹیوں میں دیکھی گئی ہے۔ آگے چل کر یہ ملک کے تمام تعلیمی اداروں میں دیکھی جائے گی۔ اس ملک میں دائیں بازو کے نظریات کے بالمقابل آزاد سوچ کے حامل افراد بھی ہیں اور ایسے تمام لوگ اس جمہوری حق کی حمایت کر رہے ہیں

دانشور ڈاکٹر سنیلم کا خیال ہے کہ بی بی سی کی دستاویزی فلم دیکھنے پر حکومت کی پابندی کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ وہ جے این یو اور جامعہ کے طلبہ کے اقدام کی حمایت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ طلبہ کی یہ مزاحمتی مہم ایک تحریک میں بدلنے والی ہے

وہ کہتے ہیں کہ حزب اختلاف کی ریاستی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اس دستاویزی فلم کی باضابطہ نمائش کا اہتمام کریں۔ یہ بات درست ہے کہ سپریم کورٹ سے نریندر مودی کو کلین چٹ مل گئی ہے لیکن گجرات فساد کی تلخ یادیں آسانی سے بھلائی نہیں جا سکیں گی

دوسری طرف ایک طبقے کا خیال ہے کہ یہ فلم بھارت کو بدنام کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہ طبقہ اس فلم کے نشر ہونے کی ٹائمنگ پر بھی سوال اٹھاتا ہے اور کہتا ہے کہ 2024 کے پارلیمانی انتخابات سے قبل ایک سازش کے تحت یہ فلم بنائی گئی ہے

دریں اثنا بھارت کے تیرہ سابق ججز، سابق سفارت کاروں سمیت ایک سو تینتیس سابق بیوروکریٹس اور ڈیڑھ سو سے زائد سابق فوجیوں نے ایک کھلے خط میں فلم کی مذمت کی ہے اور اسے کسی خاص مقصد سے بنائی جانے والی فلم قرار دیا ہے

ان کا کہنا ہے کہ فلم میں اس بات کو نظرانداز کیا گیا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے نریندر مودی کو کلیٹ چٹ دی ہے اور اس الزام کو مسترد کیا ہے کہ فساد میں ریاستی حکوت ملوث رہی ہے

واضح رہے کہ فلم کے دوسرے حصے میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے دفعہ 370 کے خاتمے، شہریت کے ترمیمی قانون سی اے اے، شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے تشدد اور صحافیوں کے خلاف پولیس کارروائیوں کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔ لیکن ساتھ ہی ڈاکیومنٹری میں حکومت کا دفاع کرنے والوں کا مؤقف بھی شامل ہے

بھارتی حکومت برطانوی نشریاتی ادارے کو ’پراپیگنڈا‘ قرار دے کر اس میں عائد کیے گئے الزامات کی تردید کر چکی ہے۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کی حکومت نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے اس فلم کے کلپس ہٹانے کے لیے اقدامات کیے ہیں

صحافیوں اور انسانی حقوق کی متعدد بین الاقوامی تنظیموں نے فلم پر پابندی کو پریس کی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے۔ امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ امریکہ دنیا بھر میں آزاد پریس کی حمایت کرتا ہے اور اظہار کی آزادی کو اہمیت حاصل ہےجب کہ صحافیوں اور انسانی حقوق کی متعدد بین الاقوامی تنظیموں نے فلم پر پابندی کو پریس کی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے

واضح رہے کہ بھارت کی حکومت نے یوٹیوب اور ٹوئٹر کو ہدایت کی تھی کہ وہ بی بی سی کی دستاویزی فلم کے لنکس کو ہٹا دیں۔ اس اعلان کے بعد ہی جے این یو طلبا یونین نے اس دستاویزی فلم کو دکھانے کا فیصلہ کیا

اس سے قبل، حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی اور کیرالہ کے چند کیمپس میں طلبا نے اس دستاویزی فلم کی سکریننگ کی ہے، جب کہ کئی دیگر یونیورسٹیوں میں بھی طلبا یونین نے فلم دکھانے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے

دو قسطوں کی دستاویزی فلم
بی بی سی کی مودی سے متعلق دستاویزی فلم کے دو حصے ہیں جن میں سے ایک 17 جنوری کو ریلیز ہوا جبکہ اس کی دوسری قسط 24 جنوری کو نشر کی گئی

اس کا خلاصہ کچھ یوں کیا گیا ہے کہ ’نریندر مودی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے رہنما ہیں۔ وہ ایک ایسے شخص ہیں جنہیں دو بار انڈیا کا وزیر اعظم منتخب کیا گیا اور انھیں اپنی نسل کے سب سے طاقتور سیاستدان کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔‘

’مغرب انہیں ایشیا میں چینی تسلط کے خلاف دفاع کے طور پر دیکھتا ہے۔ انہیں امریکہ اور برطانیہ دونوں اہم اتحادی کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘

اس خلاصے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’تاہم نریندر مودی کی حکومت پر الزامات لگتے رہے ہیں اور اس کی وجہ انڈیا کی مسلم آبادی سے متعلق اس کا رویہ ہے۔‘

’اس سیریز میں ان الزامات کی حقیقت پر تحقیقات کی گئی ہے۔ مودی کی پس پردہ کہانی اور بھارت کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت سے متعلق ان کی سیاست پر اٹھنے والے سوالات کا جائزہ لیا گیا ہے۔‘

پہلی قسط میں اس چیز پر نظر دوڑائی گئی ہے کہ نریندر مودی نے سیاست میں کون سے ابتدائی قدم لیے جس میں دائیں بازو کی ہندو تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) میں شمولیت سے لے کر بھارتیہ جنتا پارٹی میں عروج شامل ہے۔ اس میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ کیسے گجرات کے وزیر اعلیٰ بنے جہاں ’2002 کے فسادات پر ان کا ردعمل تنازع کا باعث بنا۔‘

جبکہ دوسری قسط میں 2019 کے بعد نریندر مودی کی حکومت کا ٹریک ریکارڈ دیکھا گیا ہے۔ ’کشمیر کی خصوصی حیثیت کے آرٹیکل 370 کے خاتمے سے لے کر شہریت کے نئے قانون تک، کئی متنازع پالیسیاں اختیار کی گئیں۔ ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں جن میں ہندوؤں نے مسلمانوں پر پُرتشدد حملے کیے۔‘

قسط کے خلاصے کے مطابق ’مودی اور ان کی حکومت ایسے الزامات کی تردید کرتی ہے جن میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف متعصب رویہ رکھتے ہیں۔

تاہم ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان پالیسیوں پر تنقید کی ہے۔ انڈین حکومت کے مطابق مالی بے ضابطگیوں کی تحقیقات میں اس تنظیم کے بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیے گئے ہیں جس کے بعد اس نے دلی میں اپنے دفاتر بند کر دیے ہیں۔ ایمنسٹی اس الزام کی تردید کرتی ہے۔‘

بھارت میں اس ڈاکومنٹری پر شدید ردعمل آیا ہے جس کے بعد اس دستاویزی فلم کو یوٹیوب پر سے حذف کر دیا گیا ہے

بھارتی وزارت خارجہ نے مودی پر بی بی سی کی دستاویزی فلم کو ’پروپیگنڈا‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں ’مسترد شدہ بیانیے‘ کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close