’فیکٹریاں پلاسٹک جلاتی ہیں، لوگوں کا سینہ جکڑا جاتا ہے‘ کیا ماڑی کے لغاری گوٹھ میں سولہ دن میں پراسرار طور پر سولہ اموات۔۔۔

ویب ڈیسک

صوبہ سندھ کے شہر کراچی میں سولہ روز کے دوران متعدد افراد کی موت ممعہ بن گئی۔ ضلعی صحت افسر کے مطابق ’کیا ماڑی کے محمد علی لغاری گوٹھ میں پراسرار اموات سامنے آئی ہیں، اموات کی وجوہات جاننے کی کوشش کر رہے ہیں، خون کلے نمونے لینے کے لیے علاقے میں کیمپ قائم کرکے ڈاکٹرز کو تعینات کردیا گیا ہے۔‘

کراچی ضلع کیا ماڑی میں پراسرار بیماری سے اموات کے معاملے پر محکمہ صحت سندھ نے ڈی جی ماحولیات سے مدد مانگ لی ہے۔ کیونکہ فیکٹریوں کی جانب سے علاقے میں پلاسٹک جلانے کی وجہ سے آب و ہوا خطرناک حد تک خراب ہو چکی ہے

کراچی کے ضلع کیا ماڑی محمد علی لغاری گوٹھ مواچھ کے رہائشی عمران سولنگی نے بتایا کہ ’کئی دنوں سے علاقے میں پراسرار بیماری کی وجہ سے بچوں سمیت کئی افراد کی اموات ہو چکی ہیں۔‘

ان کا دعویٰ ہے کہ ’دو ہفتوں میں بچوں سمیت سولہ افراد کی اموات ہوئی ہیں۔ مرنے والوں کو بخار اور سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا۔‘

حفیظ لغاری کراچی کے ضلع کیا ماڑی میں مواچھ گوٹھ کے اسی گاؤں کے رہائشی ہیں، جہاں محکمہ صحت سندھ کے مطابق سولہ دن میں سولہ ہلاکتیں ہو چکی ہیں

انہوں نے بتایا ’پہلے کھانسی ہوتی ہے، پھر بخار اور سانس میں تکلیف شروع ہو جاتی ہے اور کچھ ہی دنوں میں موت ہو جاتی ہے۔ ایسے بھی گھر ہیں جہاں ایک موت کے بعد سوئم نہیں ہوا کہ دوسرے کی موت ہو گئی۔ یہ سلسلہ پانچ جنوری سے شروع ہوا تھا، ابھی تک جاری ہے۔‘

یاد رہے کہ متاثرہ علاقہ صحت کے وفاقی وزیر اور پیپلز پارٹی کے رہنما عبدالقادر پٹیل کا حلقہ انتخاب بھی ہے

ڈی سی کیا ماڑی مختیار علی ابڑو کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں دس بچے بھی شامل ہیں

ڈی ایچ او کیا ماڑی نے ڈی جی ماحولیات، کلائمیٹ چینج اینڈ کوسٹل ڈیویلپمنٹ کو خط لکھا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ’ضلعے میں سینے کے انفیکشن سے جڑی بیماری کے پراسرار کیسز سامنے آئے ہیں۔‘

’اس معاملے پر ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفس کو ٹیکنیکل مدد فراہم کی جائے تاکہ اس معاملے میں مزید قیمتی جانوں کے ضیاع سے بچا جا سکے۔‘

خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ ’علاقے کا جائزہ لینے پر معلوم ہوا کچھ فیکٹریوں سے مبینہ طور پر نکلنے والا فضلہ اور گیسز اموات کا سبب بنی ہیں۔‘

ضلعی انتظامیہ نے علاقے میں کارروائی کرتے ہوئے فیکٹریوں کو بند کردیا ہے تاکہ علاقے میں مکمل جانچ پڑتال کرل ی جائے

مقامی افراد نے علاقے میں موجود فیکٹریوں سے نکلنے والے دھویں اور گیسوں کو ان ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے تاہم محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی وجہ کچھ ایسے کیمیکلز ہیں، جو پھیپھڑوں کی بیماری کی وجہ بنتے ہیں

وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی جانب سے انکوائری کے حکم کے بعد چار فیکٹریوں کو سیل کیا گیا جبکہ محکمہ صحت نے متاثرہ افراد کے خون کے نمونے و دیگر ٹیسٹ لیے گئے ہیں تاکہ ہلاکتوں کی وجوہات کا جائزہ لیا جا سکے

غلام قادر لغاری کا تعلق بھی اسی گاؤں سے ہے، جن کے دو پوتیاں اور ایک نواسی ہلاک ہوئی ہیں، انہوں نے بتایا کہ پڑوس میں فیکٹریاں ہیں جو پلاسٹک جلاتی ہیں

اس کے ساتھ ہی ساتھ ان کا کہنا ہے کہ چند چینی کمپنیاں ہیں، جو پتھر کو جلاکر لوہا حاصل کر رہی ہیں اور اس کی وجہ سے یہ آلودگی ہوتی ہے

’لوگوں کا سینہ جکڑا جاتا ہے، سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے اور بخار ہوتا ہے جس کے بعد موت واقع ہو جاتی ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’گریس اور آئل بنانے والے کارخانے تو یہاں پہلے سے موجود تھے، جو پہلے 24 گھنٹوں میں ایک دو بار چلتے تھے۔‘

’لیکن اب چینی کارخانے لگے ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی اب 24 گھنٹے کارخانے چلتے ہیں، کوئی سانس بھی نہیں لے سکتا۔‘

ڈی سی کیا ماڑی مختیار علی ابڑو بھی متاثرہ گاؤں کے افراد سے اتفاق کرتے ہیں

ان کے مطابق ’فیکٹریوں میں پلاسٹک اور دیگر چیزیں جلائی جاتی تھیں جس کے دھویں کی وجہ سے بچوں کا گلا خراب ہوتا ہے اور نمونیا جیسے علامات ظاہر ہوتی ہیں۔‘

مقامی انتظامیہ کے مطابق ان فیکٹریوں کو سیل کر دیا گیا ہے اور چار افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے جبکہ ان کے مطابق فیکٹری مالکان کے خلاف مقدمہ درج کروایا جائے گا

ہلاکتوں کی وجہ کیمیکل ہیں، محکمہ صحت سندھ
سندھ کے محکمہ صحت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ علی محمد گوٹھ میں پراسرار ہلاکتوں کی خبر سامنے آنے کے بعد تحقیقات میں معلوم ہوا کہ مرنے والوں میں ہر عمر کے افراد شامل ہیں جن کو بخار، گلے کی خرابی اور سانس میں تکلیف کی شکایت ہوتی اور پھر پانچ سے سات دن میں متاثرہ شخص کی ہلاکت ہو جاتی

بیان کے مطابق تحقیق سے معلوم ہوا کہ ہلاکتوں کی وجہ کچھ ایسے کیمیکلز ہیں جو پھیپھڑوں کی بیماری کی وجہ بنتے ہیں

محکمہ صحت سندھ کے مطابق علاقے میں میڈیکل کیمپ قائم کر دیے گئے ہیں جبکہ مذید تحقیقات جاری ہیں

ضلعی ہیلتھ افسر ڈاکٹر عارف نے بتایا کہ گزشتہ 16 روز میں 16 ہلاکتیں ہوئی ہیں اور یہ ایک ماحولیاتی مسئلہ ہے

انھوں نے بتایا کہ علاقے میں نصف درجن کے قریب چینی کمپنیاں قائم ہوئی ہیں

’وہ ایک قسم کا پتھر لاتی ہیں ہیں، جس کو آگ کی تپش سے جلاکر اس میں سے لوہے کے ذرات حاصل کیے جاتے ہیں اور انھیں پرانے ٹائر جلاکر تپش دی جاتی ہے جس سے لوگوں میں پھپھپڑوں کی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ جب ان کی ٹیم علاقے میں پہنچی تو ایک ڈاکٹر بھی شدید بیمار ہوا جنھیں سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہے۔

انھوں نے سندھ کے محکمہ ماحولیات کو بھی گیسز کے اخراج پر تحقیقات کے لیے ایک خط لکھا ہے

ادھر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کیماڑی کے علاقہ میں ہلاکتوں کا نوٹس لیتے ہوئے کمشنر کراچی، ڈی جی ہیلتھ اور لیبر ڈیپارٹمنٹ سے واقعہ کی الگ الگ رپورٹ طلب کی

وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق انھوں نے کہا کہ ’یہ کون سے فیکٹریز ہیں جن سے اس قسم کی گیس کا اخراج ہو رہا ہے جو انسانی زندگی کے لیے نقصان دہ ہے۔‘

وزیر اعلیٰ سندھ نے انتظامیہ سے سوال کیا کہ ’کیا ان فیکٹریز کی کبھی انسپیکشن کی گئی ہے؟‘

مراد علی شاہ نے لیبر ڈیپارٹمینٹ کو فیکٹریز سے خارج ہونے والی گیس کے نمونے لیب ٹیسٹ کرانے کی ہدایت بھی کی ہے

صحافی اسماعیل ساسولی نے سب سے پہلے ان بظاہر پراسرار ہلاکتوں کی خبر نشر کی تھی

انھوں نے بتایا کہ ان کو ایک ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ گاؤں میں خسرے کی وجہ سے چار بچے ہلاک ہو چکے ہیں

اس کے بعد اسماعیل ساسولی متاثرہ گاؤں گئے جہاں متاثرین نے ان کو بتایا کہ متاثرہ شخص کو سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے، منہ میں دانے اور بخار ہو جاتا ہے جس کے بعد اس کی موت ہو جاتی ہے

اسماعیل کے مطابق محکمہ صحت کے ضلعی افسران سے موقف لینے کی ان کی کوش تو ناکام ہوئی تاہم اسی محکمے سے وابستہ افراد نے ان کو بتایا کہ اس گاوں میں خسرے کے خلاف مہم کے دوران ویکسین کروانے سے انکار کیا گیا تھا

غلام قادر لغاری نے اس تاثر کو بلکل غط قرار دیا کہ ان کے گاوں میں خسرے کی ویکسین کرانے سے انکار کیا گیا تھا

انھوں نے کہا کہ ’ہلاکتیں بچوں کے ساتھ بڑوں کی بھی ہوئی ہیں۔‘

گاؤں کے رہائشی حفیظ لغاری نے بھی بی بی سی کو بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں نو عمر سے لیکر 20 اور 21 سال تک کے لوگ شامل ہیں۔

’اگر یہ خسرہ ہوتا تو صرف بچے ہی اس میں مبتلا ہوتے۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’یہ سب کیمیکلز کے اخراج کی وجہ سے ہو رہا ہے جو فیکٹریوں سے ہو رہا ہے۔‘

واضح رہے کہ کیماڑی میں ایسی ہلاکتوں کا ایک واقعہ دو ہزار بیس میں بھی پیش آ چکا ہے جب کم از کم چودہ افراد زہریلی گیس کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close