نومبر 1908 میں جب ہندوستان پر برطانوی تسلط کے 50 سال مکمل ہوئے تو اس موقعے پر شہنشاہ ہند ایڈورڈ ہفتم نے اپنے اعلان میں ہندوستانیوں کو یقین دلایا کہ ان کے اس مطالبے کو کہ انہیں حکومت اور قانون سازی کے اختیارات ملنے چاہییں، جلد از جلد پورا کیا جائے گا
ان دنوں ہندوستان میں حکومت کا سربراہ وائسرائے ہوا کرتا تھا جس کی معاونت چھ ارکان کی ایک انتظامی کونسل کیا کرتی تھی۔ یہ کونسل ہندوستان کے 30 کروڑ باشندوں کی مطلق العنان حکمران تھی
پانچ مئی 1909 کو ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ منٹو اور وزیر ہند جان مورلے نے برطانوی پارلیمنٹ میں ہندوستان کے لیے آئینی اصلاحات کی ایک سکیم پیش کی، جسے ان دونوں کے ناموں کی نسبت سے ’منٹو مارلے اصطلاحات‘ کہا جاتا ہے۔
ان اصلاحات کے مطابق نئی مجلس قانون ساز کے ارکان کی تعداد 60 کر دی گئی، جن میں سے 35 نشستیں حکومتی نمائندوں کی تھی اور 25 نشستیں منتخب ارکان کی تھیں جن میں نہ صرف مسلمانوں کی نمائندگی کا خاص اہتمام کیا گیا تھا بلکہ انہیں جداگانہ انتخابات کا حق بھی دے دیا گیا تھا۔ ان اصلاحات پر کانگریس کے سبھی رہنماؤں نے جن میں گوکھلے جیسے لبرل رہنما بھی شامل تھے، شدید تنقید کی جبکہ مسلمان حلقوں نے ان اصلاحات کا بڑا پرجوش خیر مقدم کیا
چند ماہ بعد نومبر 1909 میں انڈین کونسلز ایکٹ منظور ہوا جس کی رو سے وائسرائے کی انتظامی کونسل کی بجائے ایک زیادہ وسیع ادارہ وجود میں آ گیا جس کا نام امپیریل لیجسلیٹو کونسل رکھا گیا۔
ان اصلاحات نے محمد علی جناح کے لیے سیاسی ترقی کا راستہ کھول دیا۔ انہیں ممبئی کے مسلمانوں نے اپنا نمائندہ منتخب کر کے مجلس قانون ساز میں بھیجا۔ عام طور پر کتابوں میں لکھا ہے کہ یہ انتخاب بلامقابلہ منعقد ہوا تھا جبکہ یہ بات درست نہیں۔ محمد علی جناح کے مقابلے میں ایک بزرگ سیاستدان مولوی رفیع الدین احمد کھڑے ہوئے تھے جو مسلم لیگ کے بانیوں میں سے تھے۔ دونوں میں مقابلہ ہوا اور محمدعلی جناح کو اس مقابلے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ یہ انتخاب چار جنوری 1910 کو عمل میں آیا تھا
21 دن کے بعد 25 جنوری 1910 کو کلکتہ میں اس کونسل کا افتتاحی اجلاس منعقد ہوا، جس میں دوسرے ارکان کے ساتھ محمد علی جناح نے بھی حلف اٹھا لیا۔ اب وہ ’آنریبل مسٹر جناح‘ کہلانے لگے، یہی برطانیہ کا پارلیمانی رواج تھا
عجیب اتفاق ہے کہ محمد علی جناح سے حلف مسٹر میکفرسن نے لیا جنہوں نے ممبئی میں، جب وہ ایڈووکیٹ جنرل تھے، اپنے چیمبر میں نوجوان محمدعلی جناح کو مطالعہ کرنے کی اجازت دی تھی
امپیریل لیجسلیٹو کونسل میں محمد علی جناح نے ایک فعال رکن اور متاثر کن مقرر کا کردار ادا کیا۔ انہوں نے کئی مواقع پر وائسرائے کی موجودی میں بھی حکومت پر سخت الفاظ میں تنقید کی، بلکہ اس کونسل میں آنریبل مسٹر جناح کی پہلی ہی گفتگو وائسرائے ہند کے ساتھ جھڑپ سے شروع ہوئی۔ مسٹر میکفرسن لا سیکریٹری تھے۔ کونسل کے دوسرے اجلاس میں جنوبی افریقہ کے ہندوستانی عوام کے بارے میں ایک بل پیش کیا گیا جس پر مسٹر جناح نے حکومت کے لیے نہایت سخت الفاظ استعمال کیے اور کہا کہ ’وہاں ہندوستانیوں سے جو سلوک روا رکھا جارہا ہے وہ بہت سخت اور ظالمانہ ہے۔‘
لارڈ منٹو نے انہیں ان کے انداز تقریر پر ٹوکا اور کہا، ’میں آنریبل جنٹل مین سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ ضابطے کے اندر رہیں، ان کا یہ الفاظ ظالمانہ سنگین ہیں اور ایک دوست ملک کے خلاف ہیں۔‘
جناح نے برجستہ جواب دیا ’جناب والا، میرا دل تو یہ چاہتا ہے کہ میں اس سے زیادہ سخت الفاظ استعمال کروں لیکن میں ایوان کے آداب اور وقار سے بہتر طور پر واقف ہوں، لہٰذا میں ایک لمحے کے لیے بھی اپنی حدود اور دائرہ اختیار سے تجاوز نہیں کروں گا، لیکن یہ ضرورت کہوں گا کہ جنوبی افریقہ میں ہندوستانیوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے وہ سخت ترین ہے۔‘
یہ پہلا موقع تھا, جب امپیریل لیجسلیٹو کونسل میں ایک غیر سرکاری منتخب شدہ رکن نے ایسا بیباکانہ اور جرأت مندانہ مؤقف اختیار کیا تھا۔ اخبارات نے اس پر بڑی بڑی سرخیاں لگائیں اور آن کی آن میں مسٹر جناح عوام میں مقبول سے مقبول تر ہو گئے۔ اس طرح انہوں نے کونسل میں ہندوستانیوں کی فلاح و بہبود کی جنگ کا آغاز کیا۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے ضمیر کے مطابق گفتگو کی اور کبھی حکام بالا یا پریس کو ہموار کرنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ آنریبل مسٹر جناح کی سیاسی اور پارلیمانی زندگی کا نقطہ آغاز تھا
کوئی سوا سال بعد 17 مارچ 1911 کو مسٹر جناح نے کونسل میں مسلم وقف علی الاولاد بل پیش کیا۔ مسٹر جناح کی پارلیمانی زندگی کے اوائل میں اس بل کی منظوری کو بڑی اہمیت حاصل ہے
اس بل کا پس منظر کچھ یوں تھا کہ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانان ہند سخت زبوں حالی اور مصائب کا شکار تھے۔ حکمرانوں کی اولادوں کے مسائل اور مصائب اور بھی سوا تھے۔ انہیں ایک طرف اپنے عظیم الشان ورثے کے چھن جانے کا غم تھا دوسری طرف انہیں ایسا کوئی ہنر بھی نہیں آتا تھا جس کی مدد سے وہ اپنا اور اپنے لواحقین کا پیٹ پال سکیں۔ نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ وہ اپنے اجداد کی چھوڑی ہوئی جائیداد کسی قرض کے عوض ہندو بنیوں کے ہاتھوں رہن رکھواتے تھے اور قرض ادا نہ کرپانے کے باعث کچھ ہی دنوں میں اپنی جائیداد سے محروم کر دیے جاتے تھے یوں ان کا پورا خاندان تباہ و برباد ہو جاتا تھا
ان بدنصیب لوگوں کی جائیداد بچانے کا صرف ایک طریقہ تھا اور وہ یہ کہ برطانوی ہندوستان میں ایک ایسا قانون نافذ کیا جائے جس کی رو سے مسلمان شہری اپنی جائیداد وقف کر سکیں۔ اس انقلابی قانون کے نفاذ کے بعد وقف شدہ جائیداد خاندان کے کسی ایک فرد کی فضول خرچی یا نااہلی کی وجہ سے برباد نہیں ہو سکتی تھی اور اس کے مالکان کی اولاد نسلاً بعد نسلاً اس سے مستفید ہوتی رہتی تھیں
انیسویں صدی کے اواخر میں سرسید احمد خان نے مسلمانوں کی جائیداد کو وقف کے ذریعے محفوظ کروانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے تھے اب بیسویں صدی کے اوائل میں مسٹر جناح نے ایک مرتبہ پھر اس کام کا بیڑا اٹھایا اور امپیریل لیجسلیٹو کونسل میں مسلم اوقاف کا بل پیش کردیا
مسٹر جناح نے مسلمانوں کا یہ مقدمہ ایک قابل وکیل کی طرح لڑا۔ انہوں نے مسلمانوں کے اس اہم مسئلے پر مولانا شبلی نعمانی، سید امیر علی اور سید حسین بلگرامی کی خدمات کا تذکرہ بھی کیا اور ایک مظلوم اقلیت کی دادرسی کا مطالبہ بھی کیا۔ انہوں نے پرزور الفاظ میں کہا کہ مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے شرع محمدی نافذ کی جائے۔ مسٹر جناح کی قانونی قابلیت اور طرز استدلال کے باعث 1913 میں یہ بل منظور ہو گیا اور سات مارچ 1913 کو وائسرائے نے بھی اس بل کی توثیق کر دی
قانون سازی کے میدان میں یہ قائداعظم کی پہلی ذاتی کامیابی تھی اور ان کی اس کامیابی کی اپنوں اور پرایوں سبھی نے بڑی داد دی۔ داد دینے والوں میں سرفہرست مسز سروجنی نائیڈو تھیں جنہوں نے کہا کہ اس کارنامے کے باعث مسٹر جناح کو سارے ملک کے مسلمانوں کا اعتراف میسر آیا
ان کے اکثر ہم مذہب انہیں راسخ العقیدہ مسلمان نہیں سمجھتے تھے، لیکن اس کارنامے کو کچھ ہی عرصے بعد وہ سیاسی مشورے اور رہنمائی کے لیے ان سے رجوع کرنے لگے۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)