بچپن میں سنا تھا کہ آپ کی آزادی وہاں ختم ہو جاتی ہے، جہاں دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے مگر حیرانی تب ہوئی، جب اسی ناک کو ہر جگہ پایا گیا اور وہ بھی بن بلائے اور بلا جھجک۔۔
گزشته برس پاکستان میں ٹرین میں سفر کرنے کا اتفاق ہوا تو دیکھا کہ بہت سے مسافر لیپ ٹاپ اور ٹیبلٹ وغیره پر کام کر رہے تھے۔ جتنے سکون سے وہ سب کام کر رہے تھے، اتنے ہی سکون سے کچھ مسافر ان کی سکرین پر نظریں جمائے ان کا کام ملاحظہ کر رہے تھے۔ اس سے بالاتر کہ کون نجی کام کر رہا ہے اور کون شاید ضروری دفتری کام، اتنی تھوڑی بہت مداخلت کو ہم عوام اپنا حق ہی سمجھتے ہیں
اسٹیبلشمنٹ تو ویسے ہی بدنام ہے، ہم سب بھی ہر جگہ بے دھڑک مداخلت سے خاص پرہیز نہیں کرتے۔ پبلک ٹرانسپورٹ سے ہوٹل ریستوران تک اپنے کام سے کام رکھنا اور کچھ ذاتی جگہ کی گنجائش چھوڑنا بالکل ضروری نہیں سمجھا جاتا
ہوائی اڈوں پر عملے کے سرد رویے کی شکایت کرنے والے پہلے خود ان کے کمپیوٹر پر جھانکتے نظر آتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ وہ قطعاً کوئی تنبیہ یا شکایت نہ کریں۔ تصاویر اور ویڈیو بناتے ہوئے پس منظر میں کون ہے، اس کا خیال بھی کم ہی رکھا جاتا ہے بلکہ اکثر تو کسی کی بھی تصویر بلا اجازت لینا اور بلا اجازت سوشل میڈیا پر شیئر کرنا بھی کسی حد تک قابل قبول ہو گیا ہے
جوتیوں سمیت آنکھوں میں گھسنا کسے کہتے ہیں، اس کی تفصیل میں جائیں تو ذاتی سوالات کی ایسی بھرمار ملے گی کہ اس پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ ہسپتال کی انتظارگاہ سے لے کر کسی بھی عوامی جگہ پر انجان لوگوں سے بھی والدین، خاندان، ذریعہ معاش وغیرہ کی کوئی بھی تفصيل پوچھی جا سکتی ہے تو ذرا سوچیں کہ اپنوں کے ساتھ تو یہ رویہ مزید دلچسپ ہوتا ہوگا
یقیناً ایسا ہی ہے۔ بچپن سے نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوتا ہے، کون سا سکول اور کتنی فیس؟ کتنے نمبر اور کون سا گریڈ؟ اپنے بچوں سے زیاده خاندان کے ہر بچے کی خبر رکھنا، موازنہ کرنا اور پھر ماہرانہ رائے دینا تو بنیادی حقوق میں سے ایک تصور ہوتا ہے
پڑھائی مکمل ہوتے ہی اگلا مرحلہ شروع ہوتا ہے، جس میں دلچسپی بھی پہلے مرحلے سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اگر آپ اولاد نرینہ ہیں تو سوال کچھ یوں ہوں گے کہ نوکری مل گئی؟ مل گئی تو تنخواه کتنی ہے؟ نہیں ملی تو کیوں نہیں ملی؟
اگر آپ صنف نازک ہیں تو یہی سوال ذرا مختلف طریقے سے پوچھے جائیں گے۔ نوکری مل گئی؟ اگر مل گئی تو نوکری کر کے کیا کرنا ہے؟ آخر تو گھر ہی سنبھالنا ہے۔ اگر نہیں ملی تو ماں باپ کا پیسہ کیوں برباد کیا پڑھائی میں؟ سیٹ ہی ضائع کی، کوئی لڑکا کچھ بن جاتا
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب آپ کے ذاتی فیصلے ہیں کیونکہ آپ انفرادی طور پر کچھ خواب اور ارادے رکھ سکتے ہیں تو بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ ایسی پرائیویسی کو ضروری نہیں سمجھتا
ذاتی سوالات کے لیے سب سے دلچسپ موضوع شادی تصور کیا جاتا ہے۔ کسی کی خوشی میں شامل ہو کر خوش ہونا تو نہایت خوش آئند بات ہے مگر یہ بات یہاں رکتی نہیں ہے۔ شادی کب، کس سے اور کیسے پر گہری نظر رکھنا کسی فرض سے کم تصور نہیں ہوتا۔ شادی کے تمام انتظامات اور لین دین اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں، جو کوئی تو دکھاوے کے لیے استعمال کرتا ہے اور کوئی بیچاره انہی ذاتی سوالات سے مجبور ہو کر مشکل سے پورا کرتا ہے
آپ کہیں یہ تو نہیں سوچ رہے کہ چلیں اب شادی ہو گئی اب سب خوش ہوں گے اور سکون سے جینے دیں گے؟ ایسے وہم بالکل نہ پالیے گا کیونکہ ذاتی سوالات اور مداخلت درحقیقت ہوتی کیا ہے اس کی تو ابھی اصل کہانی شروع ہوئی ہے
اگر میاں بیوی آپس میں خوش ہیں تو يقيناً میاں نیچے لگ گیا ہے اور اپنے کچھ پورے نہ ہونے والے خوابوں کا بدلہ رشتے دار ہر جگہ اس کا مذاق اڑا کر لیں گے۔ اگر کچھ ناخوش ہیں تو ہر تفصیل کا چسکا لیا جائے گا۔ ولیمے کے چند گھنٹے بعد ہی آدھے سے زیادہ خاندان خوش خبری کا منتظر ملے گا اور وہی بزرگ خواتین، جو دلہن کو تنبیہ کریں گی کہ شوہر کا نام لینا يا اسے تم کہہ کر پکارنا کتنا معیوب لگتا ہے، وہی سیدھا آپ کے بیڈروم کے فیصلوں میں دخل اندازی کرنا اور ماہرانہ رائے دینا قطعاً معیوب نہیں سمجھیں گی
ہر موقع اور ہر تقریب پر سوالات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چلتا ر ہے گا اور یہ سوچے سمجھے بغیر کہ آپ کے سوالات کسی کو کتنی تکلیف پہنچا سکتے ہیں، ہم پوچھنے سے باز نہیں آتے۔ اولاد کے ہونے کے بعد بھی مزید سوالات شروع ہو جاتے ہیں مثلاً بیٹا ہے تو دو ہوں، بیٹی ہے تو بیٹا بھی ہو۔ دو ہیں تو بس دو کیوں؟ تین یا چار ہیں تو اتنے بچوں کا کیا کرنا ہے؟ مہنگائی کا تو سوچیں؟
یہ بے جا سوالات کہیں پیچھا نہیں چھوڑتے۔ کسی کا خصوصی بچہ دیکھتے ہی سوالات، ماہرانہ رائے، ٹوٹکے، ڈاکٹر اور حکیموں کے مشورے بازار سے لے کر ہر تقریب تک فوری اور مفت دستیاب کیے جاتے ہیں۔ آپ کی یہ ہمدردی بہت سے والدین کے لیے اذیت بن سکتی ہے
یہی رویہ، جو دوسروں کی جانب سے ہمیں تکلیف پہچاتا ہے، اسے ہم خود با آسانی اپنے ہر رشتے پر بھی لاگو کرتے ہیں۔ یا شاید ہم اپنوں کے ساتھ اس رویے کے اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ پورا معاشرہ گھر سے باہر بھی یہی رویہ درست سمجھتا ہے۔ والدین اور اولاد کے درمیان پرائیویسی کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی جاتی
تربیت کے لیے نظر رکھنا اور بالکل کوئی انفرادی آزادی نہ دینا دو مختلف پہلو ہیں۔ یہی اولاد بڑے ہو کر اپنے ازدواجی رشتے میں کوئی گنجائش نہیں دے پاتی۔ ایک دوسرے کے دوست، احباب اور رشتے داروں کے بارے میں ہر ضروری اور غیر ضروری تفصیل کی خبر رکھنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ کوئی اپنے دوستوں، بہن بھائی حتى کہ والدین سے کیا بات کرتا ہے اس کے لیے موبائل میں محفوظ گفتگو کو باقاعدگی سے چیک کرتے ہیں
یہ سب تہذیب کے خلاف ہے اور اتنے تجسس کی اجازت تو ہمارا مذہب بھی نہیں دیتا مگر ہمارے کلچر میں اتنا رچ بس چکا ہے اور پوری طرح قبول کیا جاتا ہے کہ اس پر آواز اٹھاتے ہی آپ بدتہذیب اور بدتمیز قرار دے دیے جاتے ہیں۔ اگر ہماری پچھلی نسلیں یہ سب کرتی آئی ہیں تو اتنی تعلیم، اتنی ترقی کا کچھ فرق بھی نظر آنے دیں۔ اگر اپنے ارد گرد والوں کے اس رویے سے تنگ ہونے کے باوجود ہم خود بھی یہی رویہ اختیار کریں گے تو یہ سلسلہ کبھی نہیں رکے گا
بڑوں کے سوال کے پیچھے نیت اچھی بھی ہو تو ضروری نہیں کہ مداخلت سب کے لیے بے ضرر ہی ہو۔ ہر رشتے اور ہر کردار میں اتنی جگہ ضرور دیں کہ گھٹن نہ ہونے دیں۔ اگر شوہر بیوی کا موبائل شک کی بنیاد پر چیک کرتا ہے تو یہ تو ایک نفسیاتی مسئلہ ہے، جس کا علاج ضروری ہے۔ اگر بیگمات میاں کے موبائل کی ہر گفتگو صرف فراغت میں بوریت دور کرنے کے لیے چیک کرتی ہیں تو اس سے بہتر مشاغل دنیا میں موجود ہیں
اگلی دفعہ جب فراغت ہو تو کوئی کتاب اٹھا کر دیکھیں اور اگر مقصد کچھ مصالحہ ڈھونڈنا ہے تو ٹی وی چینلز کی بھرمار کا فائدہ اٹھائیں اور نتیجتاﹰ ذہنی آسودگی آپ کو بھی پسند آئے گی۔ ذاتی جگہ کی لکیر اتنی واضح ضرور رکھیں کہ قریبی رشتے نقصان نہ اٹھائیں اور نہ ہی باقی معاشرے کے لیے پریشانی کا باعث بنیں
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اُردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)