جنوبی ایشیا میں نقل مکانی کی تاریخی اہمیت رہی ہے، جو سود مند بھی تھی، لیکن جب یہی نقل مکانی مجبوراً کرنی پڑے اور بے سروسامانی کے عالم میں ہو تو یہ سود مند کم اور نقصان دہ زیادہ ہو جاتی ہے
بے سروسامانی کے عالم میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچے لوگوں کو تجاوز کرنے والوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور ایسے میں انسانی بحران جنم لیتا ہے
گذشتہ سالوں میں موسمی تبدیلی کے باعث موسمی حادثات میں شدت آئی ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کو اپنے علاقوں سے نقل مکانی کر کے دوسرے علاقوں میں جانا پڑ رہا ہے
اسی نقل مکانی کے باعث صحت، رہائشی، تعلیمی، غربت اور دیگر بحران پیدا ہو رہے ہیں
موسمی ماڈلنگ کے تخمینے کے مطابق 2050ع تک پاکستان میں بیس لاکھ افراد پاکستان کے اندر ہی ایک علاقے سے دوسرے میں نقل مکانی کریں گے
بین الاقوامی تنظیم ایکشن ایڈ کی رپورٹ نے دو سال قبل کہا تھا کہ جنوبی ایشیا کے پانچ ممالک انڈیا، پاکستان، نیپال، سری لنکا اور بنگلا دیش میں یا تو موسمی تبدیلی لوگوں کو نقل مکانی کرنے پر مجبور کر رہی ہے یا پھر ان کے لیے ان کے علاقوں میں اتنی دشواریاں پیدا کر رہی ہے کہ وہ نقل مکانی پر مجبور ہو رہے ہیں
ان ممالک میں دریا میں پھیلاؤ آ رہا ہے، سیلاب آ رہے ہیں، گلیشیئرز پگھل رہے ہیں، سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے، لمبے عرصے تک خشک سالی اور معمول سے کہیں زیادہ بارشیں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کر رہی ہیں
جنوبی ایشیا میں اس وقت بھی غیر معمولی موسم کے باعث تباہ کاریاں ہو رہی ہیں۔
مستقبل کے حوالے سے لگائے گئے اندازوں میں بھی صورت حال کچھ مختلف نہیں کیونکہ ان اندازوں میں کہا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا شدید موسم کا مرکز رہے گا جن میں زیادہ گرمی، خشک سالی، سمندری سطح میں اضافہ اور مزید شدت کے سائیکلون شامل ہیں
لیکن اگر کاربن کے اخراج کے ذمہ دار ممالک پیرس معاہدے کے مطابق اخراج پر قابو پا لیتے ہیں تو لوگوں کی نقل مکانی کو محدود کیا جا سکتا ہے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو ایسی صورت میں نقل مکانی میں تین گنا اضافہ ہو جائے گا
پاکستان کا جغرافیائی محل و وقوع ایسا ہے جہاں اسے دو بڑے موسمی نظاموں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک موسمی نظام درجہ حرارت میں بے حد اضافہ کر دیتا ہے اور خشک سالی کا باعث بنتا ہے اور دوسرا نظام غیر معمولی مون سون کی بارشیں لاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں ایک اور ایسی چیز ہے جس کے باعث اس کو موسمی تبدیلی زیادہ متاثر کرتی ہے اور وہ ہے گلیشیئرز
پاکستان میں قطبی علاقوں کو چھوڑ کر دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ گلیشیئرز ہیں جن کی تعداد سات ہزار ہے
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقیاتی پروگرام کے ایک اندازے کے مطابق ہندو کش ہمالیہ میں تین ہزار گلیشیئر جھیلیں بنیں
ان میں سے تینتیس جھیلیں ایسی ہیں کہ جن سے شدید خطرہ لاحق ہے اور سےر لاکھ افراد متاثر ہو سکتے ہیں
پاکستان میں تازہ پانی کا ذخیرہ برف، گلیشیئرز اور مون سون کی بارشیں ہیں اور ان تمام پر موسمی تبدیلی کے گہرے اثر مرتب ہو رہے ہیں
موسمی تبدیلی کے باعث گلیشیئرز کے حجم میں کمی واقع ہو رہی ہے جس کے باعث دریائے سندھ کے پانی کے موسمی بہاؤ میں بھی تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے
پاکستانی قوم میں دوبارہ ابھرنے کی صلاحیت ہے اور ایسا اس قوم نے ایک یا دو نہیں بلکہ کئی بار کر دکھایا ہے
اس نے کئی بار کم ذرائع ہوتے ہوئے بھی دوبارہ ابھر کر دکھایا۔ لیکن موسمی تبدیلی اور اس کے اثرات کو دیکھتے ہوئے عارضی اقدامات کافی نہیں رہیں گے
این جی اوز اور عالمی ماہرین کی مدد سے متاثرین کی مدد کرنا عارضی ہے اور یہ دیرپا حل کا حصہ نہیں ہو سکتے۔ یہ ایک جامع نطام نہیں ہے جس کے ذریعے لوگوں کی طویل مدتی مدد کی جا سکے
2005ع کے زلزلے کے بعد اداروں میں بڑی بڑی سرمایہ کاری کی گئی تاکہ وہ مستقبل میں عارضی نہیں مستقل حل مہیا کر سکیں لیکن ان کی کارکردگی بہتر ہونے کے بجائے کم ہوتی نظر آتی ہے
ایک طرف ’ایرا‘ کو ’این ڈی ایم اے‘ میں ضم کر دیا گیا لیکن کاغذوں پر ایرا اب بھی ایک علیحدہ ادارے کے طور پر قائم و دائم ہے
ایک طرف جہاں سرکاری ادارے مایوس کن کارکردگی کے باعث ذکر کرنے یا ان پر تکیہ کرنے کے قابل نہیں ہیں تو دوسری جانب وزارتیں بھی موسمی تبدیلی جیسی خطرناک صورتحال کے حوالے سے بے فکر نظر آتی ہیں
دس ارب ڈالر کے وعدے تو ہو چکے لیکن ان ممالک کی نظریں پاکستان پر ہیں کہ کس طرح اس فنڈنگ کا استعمال کیا جاتا ہے
یہ کہہ دینا کہ اس فنڈنگ کا استعمال نہایت موثر اور شفاف طریقے سے کیا جائے گا کافی نہیں ہے، ایسا کرنا ضروری ہے ۔ فنڈنگ مہیا کرنے والے ممالک کے لیے نہیں بلکہ موسمی تبدیلی سے متاثر عوام کے لیے۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)