کیا زمین کی بقا کے لیے اب انسانوں کو کیڑے مکوڑے کھانے ہونگے؟

ویب ڈیسک

حال ہی میں یورپی یونین نے آٹے کی سُنڈی کی طرح کے لاروے (میگٹ) اور جھینگر کو فروخت کرنے کی منظوری دی ہے

یوں اب یورپ میں لاروا اور جھینگر لوگوں کو خوراک کے طور پر فروخت کیے جانے والے کیڑوں کی تیسری اور چوتھی قسم ہوں گے، جبکہ ایسی مزید آٹھ درخواستیں منظوری کی منتظر ہیں

واضح رہے کہ خوراک کی پیداوار سے بھی ضرر رساں گیسوں کا اخراج ہوتا ہے اور یہ گیسیں ایک چوتھائی گلوبل وارمنگ کی ذمہ دار ہیں۔ مویشی میتھین گیس خارج کرتے ہیں، جو فضا میں کم مدت کے لیے رہتی ہے لیکن یہ ایک اہم گرین ہاؤس گیس ہے۔ دوسری طرف مویشیوں کی چراگاہیں بنانے کے لیے جنگلات کاٹنے پڑتے ہیں اور پھر اگائی جانی والی فصلوں کا تین چوتھائی حصہ مویشیوں کو ہی کھلانے میں صرف ہو جاتا ہے

ماہرین کے مطابق کیڑوں مکوڑوں کا کھانے میں استعمال، جہاں گوشت کا بہترین متبادل ثابت ہو سکتا ہے، وہیں ان کا استعمال ہمارے ماحول کو زہریلی گیسوں اور مختلف حیوانات کو معدومیت کے خطرے سے دوچار ہونے سے بھی محفوظ رکھ سکتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر تلی ہوئی سُنڈیاں اور کیڑے مکوڑے گوشت سے بنے اسٹیکس اور ہیمبرگرز کی جگہ لے لیں تو یہ متبادل مختلف جانوروں کو معدومیت سے بچانے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کو روکنے میں کردار ادا کر سکتا ہے

امریکی ماحولیاتی تحقیقی ادارے ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ میں فوڈ پروگرام کے ٹیکنیکل ڈائریکٹر ٹِم سرچنگر کہتے ہیں ”دنیا بھر میں گوشت کی مصنوعات کی بڑھتی ہوئی مانگ سے نمٹنا اتنا بڑا چیلنج ہے کہ ہمیں اس کا کوئی پائیدار حل تلاش کرنے کے لیے ہر طرح کے حربے کو آزمانہ ہوگا‘‘

یورپی کمیشن کی جانب سے ان دو نئی اقسام کے کیڑوں کو خوراک میں شامل کرنے کا مطلب غذائی انتخاب میں لازمی طور پر تبدیلی کرنا نہیں ہے، بلکہ یہ ماحول میں بہتری کے ساتھ ساتھ صحت کو بہتر بنانے کی طرف ایک قدم ہے۔ اس تناظر میں گزشتہ ہفتے ایک ٹویٹ میں یورپی کمیشن کا کہنا تھا ”کسی کو یہ کیڑے کھانے پر مجبور نہیں کیا جائے گا‘‘

کیڑوں کو خوراک میں شامل کرنے سے متعلق قوانین میں یہ بات واضح طور پر بیان کی گئی ہے کہ غذائی کیڑے (لاروا اور جھینگر) صرف ان لوگوں کے استعمال کے لیے محفوظ ہیں، جن کو ان سے الرجی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کھانے پینے کی اشیاء، جن میں کیڑے بطور خوراک شامل ہوں، ان پر اس حوالے سے معلوماتی لیبل لگانا لازمی قرار دیا گیا ہے

ماہرین کو امید ہے کہ یہ اقدام ماحول کے لیے نقصان دہ غذاؤں کے متبادل کے طور پر کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر جرمنی میں تقریباً نصف آبادی گوشت کھانے سے پرہیز کرتی ہے، جبکہ امریکہ میں گوشت کی طلب بہت زیادہ ہے۔ تاہم وہاں لوگ گائے کی بجائے چکن کا گوشت کھانے کو ترجیح دینے لگے ہیں، جس کی پیدوار ماحول کے لیے کم نقصان دہ ہے

البتہ کیڑوں مکوڑوں سے حاصل ہونے والی پروٹینز پروسیسڈ فوڈز کے لیے بہترین متبادل کے طور پر استعمال ہو سکتی ہیں۔ مختلف تحقیقی مطالعات کے مطابق کیڑوں مکوڑوں کی پیداوار ماحول کے لیے گوشت سے کئی گنا کم نقصان دہ ہے، لیکن سبزیوں کی پیداوار ان دونوں سے بہتر ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا لوگ کیڑے مکوڑے کھانے پر آمادہ ہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ بہت سے یورپی باشندوں کے لیے رینگنے والے جانداروں کو کھانے کا خیال پرکشش نہیں ہے۔ تاہم کیڑوں مکوڑوں سے تیار کردہ کھانے دنیا بھر کے اعلیٰ ترین ریستورانوں میں دستیاب ہیں اور میکسیکو سے لے کر تھائی لینڈ تک خوراک کا ایک اہم اور صحت بخش حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ بیف اسٹیک کی بجائے جھینگر کھانا لوگوں کے لیے یقیناً ایک مشکل انتخاب ہوگا تاہم کیڑے مکوڑوں کا استعمال ماحول کے تحفظ کے لیے بہترین ہے

دوسری جانب یورپی باشندوں کو کیڑے کھانے پر آمادہ کرنا ایک مشکل امر دکھائی دیتا ہے۔ یورپی کنزیومر آرگنائزیشن کی 2020ع کی ایک رپورٹ کے مطابق تین چوتھائی یورپی صارفین گوشت کی بجائے کیڑے مکوڑے کھانے کے لیے تیار نہیں ہیں، جبکہ مزید تیرہ فی صد افراد اس بارے میں غیر یقینی کا شکار ہیں

جرمنی کی ماحولیاتی ایجنسی ‘یو بی اے‘ کی 2022ع کی ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً اَسی فی صد جرمن باشندے کیڑوں کو اپنی خوراک کا حصہ بنانےکے کیے تیار نہیں

تاہم یورپی کمیشن کے ہیلتھ اینڈ سیفٹی ڈپارٹمنٹ کے ترجمان اسٹیفن ڈے کیرسمیکر کا کہنا ہے ”یہ کیڑے غذائیت سے بھرپور ہوتے ہیں۔ فوڈ سسٹم میں یہ ہمیں پائیدار اور صحتمند خوراک فراہم کر سکتے ہیں۔‘‘

گزشتہ دسمبر میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ ماحولیاتی فوائد کے بارے میں بتائے جانے کے بعد لوگ آسانی سے کیڑے مکوڑے کھانے پر راضی ہو جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس حوالے سے یورپی باشندوں کو آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close