بھارت میں مالی جرائم کے ادارے نے ’کیو نیٹ‘ نامی ایک ڈائریکٹ سیلنگ کمپنی (ایسی کمپنی، جو براہ راست صارفین کو اشیا فروخت کرتی ہو) پر ’بھولے بھالے سرمایہ کاروں کی ایک بڑی تعداد‘ کو دھوکا دینے کا الزام عائد کیا ہے
اس اسکیم کے متاثرین کا کہنا ہے کہ ’کیو نیٹ‘ کے ایجنٹ ان سے جھوٹے وعدے اور راتوں رات امیر ہونے کا جھانسہ دے کر انھیں آگے بیچنے کے لیے اپنی پروڈکٹس بیچتے رہے
بھارت کے حکومتی ادارے انفورسمینٹ ڈائریکٹوریٹ نے گذشتہ ہفتے کی پریس ریلیز میں بتایا کہ اس اسکیم کا حصہ بن کر بظاہر اپنا خود کا کاروبار شروع کرنے کے لیے سرمایہ دینے والوں کو یہ نہیں بتایا جاتا تھا کہ ان کا پیسہ شیل کمپنیوں میں ڈالا جا رہا ہے
واضح رہے کہ شیل کمپنیوں سے مراد ایسی کمپنیاں ہیں جو صرف کاغذ پر موجود ہوں
ادارے کا کہنا ہے کہ تحقیقات کی تکمیل تک کیو نیٹ کے 36 بینک اکاؤنٹ منجمد کیے گئے ہیں
ملٹی لیول مارکیٹنگ سکیمز (ایم ایل ایمز) میں لوگوں کو اسٹاک (ڈائٹ سپلیمنٹس سے لے کر صفائی کے سامان تک ہر قسم کی اشیا) خرید کر پیسے کمانے کی پیشکش کی جاتی ہے۔ لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر خریداری کر کے یہ اشیا آگے بیچ سکتے ہیں
تاہم کچھ اسکیموں میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس کام میں الجھا کر کمپنیاں پیسے بنا لیتی ہیں اور صارفین کے لیے خود پیسے بنانا مشکل ہوجاتا ہے، کیونکہ ان اشیا کا کوئی خریدار نہیں ہوتا
ایسی صورت میں منافع صرف اسی وقت ممکن ہوتا ہے، جب مزید نئے لوگوں کو اسکیم بیچی جائے۔ اوپر کی سطح پر تو لوگ پیسے بنا لیتے ہیں مگر نچلی سطح پر تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود لوگ گھاٹے میں رہتے ہیں
بھارت میں ایسے ایم ایل ایمز کے خلاف قوانین موجود ہیں مگر ان پر عمل درآمد مشکل ثابت ہوتا ہے
اس طرح کی ’پیرامِڈ‘ اسکیم میں نچلی سطح پر کام کرنے والے ایجنٹوں کے پاس بس یہی طریقہ بچتا ہے کہ وہ مزید لوگوں کو اس اسکیم میں شامل کر کے منافع کمائیں۔ اور ایسے میں یہ ایجنٹ ہر حد پار کر جانے کو تیار ہوجاتے ہیں
جنوبی بھارت کے شہر حیدرآباد کی ریا کو بھی ایک ایسے ہی تجربے سے گزرنا پڑا۔ 2019 میں والد کی جوتوں کی دکان بند ہونے کے بعد انہیں اپنے خاندان کی کفالت کرنا تھی۔ پھر انہیں فیسبک پر پیغام موصول ہوا، جس میں ایک شخص نے خود کو ان کی اسکول کی ایک بااعتماد سہیلی کا دوست بتایا اور کاروباری مواقع کی پیشکش کی
انہوں نے قرض لے کر خود کو کیو نیٹ کی اسکیم میں بھرتی کر لیا لیکن یہ واضح ہو گیا کہ اشیا کی فروخت کاروبار کا حتمی مقصد نہیں۔ انھیں مزید لوگ لانے کا کہا گیا، پہلے خاندان سے، پھر دوست اور یہاں تک کہ سوشل میڈیا اور ڈیٹنگ ایپس پر سے
وہ بتاتی ہیں ”وہ چاہتے تھے کہ میں اپنی کونٹیکٹ لسٹ میں سے ہر کسی کا نام لکھ دوں۔ میں نے پوچھا کیوں تو انہوں نے فوراً کہا کہ اگر آپ کو اشیا بیچنی ہے تو پہلے اپنا نیٹ ورک بنانا ہوگا“
پھر ریا کو یاد آیا کہ شاید وہ بھی اپنے سکول کی سہیلی کی فرنٹ لسٹ میں ہوں گی، جس کی وجہ سے انہیں یہ پیشکش کی گئی۔ ’انھوں نے کہا کہ آپ کو مردوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا ہوگا۔ میرے لیے یہ ریڈ فلیگ (تنبیہ) تھی۔ میں نے اس پر سوال پوچھنا شروع کر دیے۔ میں نے پوچھا میں بمبل اور ٹِنڈر پر یہ پیغام کیوں پھیلاؤں؟‘
ریا بتاتی ہیں ”مجھے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس میں تبدیلیاں لانے کا کہا گیا تھا۔ جیسے ادھار پر لی گئی لگژری اشیا کے ساتھ فوٹو شوٹ لگانا۔۔ جسے میں اصل زندگی میں تو نہیں خرید سکتی تھی مگر اس سے میں سوشل میڈیا پر مالی طور پر مستحکم ہونے کا دکھاوا کر سکتی تھی“
وہ کہتی ہیں ”جب آپ گوچی کا بیگ پہننا شروع کر دیں تو لوگ پوچھنے لگتے ہیں ’آپ کی زندگی میں یہ کیسے ہو رہا ہے؟‘ پھر آپ ان سے گفتگو شروع کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ میں نے ایک کاروبار جوائن کیا ہے، جس میں بڑا منافع ملتا ہے“
راگ ایک آئی ٹی ورکر ہیں اور وہ بھی اس طرح کی جعلسازی میں پھنس چکے ہیں۔ جب وہ کیو نیٹ میں شامل ہوئے تو انہیں بھی اسی طرح کے جھوٹ بولنے کی تربیت دی گئی
ڑاج بتاتے ہیں ”ایک شخص کے پاس ٹیگ ہویر (گھڑیوں کا لگژری سوئس برانڈ) یا ایسی کوئی مہنگی گھڑی تھی۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ اپنی کلائی پر یہ گھڑی لگا کر تصویر بنوائیں۔ اب لوگوں کو لگتا ہے کہ میرے پاس ٹیگ ہویر یا رولیکس کی گھڑی ہے“
انہوں نے اسی طرح کے مناظر انسٹاگرام پر اپنے ایک دوست کے اکاؤنٹ پر دیکھا تھا، جو انہیں اس کمپنی میں لائے تھے۔ راگ کو شرمندگی ہوئی کہ ان سے جعلسازی کی گئی جس سے انھوں نے اپنے بچائے ہوئے پیسے کھو دیے
مایوسی میں وہ صحیح سے کھا نہیں پاتے تھے اور اپنے والدین، بہن بھائیوں اور دوستوں سے بات نہیں کر پاتے تھے
راگ کہتے ہیں ”میں اپنے کیے پر شرمندہ تھا اس لیے کسی سے بات نہیں کر پاتا تھا۔۔ میں اس نہج پر پہنچ گیا تھا کہ میں نے خودکشی کرنے کے بارے میں بھی سوچا۔“
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایم ایل ایمز جیسی اسکیمز کو چلانے والے ایسی سوچ کو فروغ دیتے ہیں جو کسی کلٹ یا ایک خاص عقیدے یا شخص کے لیے وفاداری رکھنے والے گروہ کی ہوتی ہے۔ اس میں بڑی میٹنگز ہوتی ہیں، لوگ نعرے لگاتے ہیں اور زیادہ لوگ جمع کر کے اپنی کارکردگی کا جشن مناتے ہیں
اس میں شامل لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ اپنے خاندان اور دوستوں سے زیادہ اسکیم کے ایجنٹ سے وفاداری نبھائیں۔ اگر وہ اس پر سوال اٹھاتے ہیں یا اسے چھوڑنے کی بات کرتے ہیں تو ان کے ساتھ سخت رویہ اپنایا جاتا ہے
ریا بتاتی ہیں ”واٹس ایپ گروپس میں سینکڑوں لوگ جمع ہوتے تھے اور اگر کوئی کسی چیز پر سوال اٹھاتا تھا تو سینیئر ایجنٹ مل کر اسے بے عزت کرتے تھے۔ ’وہ آپ کا نام لے کر کہتے تھے کہ آپ کسی چیز کے قابل نہیں، جائیں مر جائیں‘۔“
ان حالات میں وہ ذہنی اذیت میں مبتلا رہیں اور ڈر کے مارے کام پر توجہ نہیں دے پاتی تھیں۔ اس ڈپریشن سے باہر نکلنے میں انھیں ایک سال تک کا عرصہ لگا
بھارتی حکام نے کیو نیٹ کو ’پونزی اسکیم‘ قرار دیا ہے اور اس کے خلاف مقدمات درج کر کے کارروائی کی کوشش کی ہے تاہم یہ کیسز اب تک اپنے منتقی انجام کو نہیں پہنچ پائے ہیں
کمپنی نے ماضی میں ان الزامات کی تردید کی ہے۔ منی لانڈرنگ اور ایجنٹس کے رویے سے متعلق سوالات پر کمپنی نے کوئی جواب نہیں دیا ہے
حیدرآباد کے پولیس افسر وی سی ساجنار کے مطابق ایم ایل ایمز جیسی جعلی اسکیمز میں کچھ نیا نہیں لیکن عالمی وبا کے دوران انہوں نے لوگوں کی زندگیوں کو بڑی تیزی سے نقصان پہنچایا ہے
وہ کہتے ہیں ”اس سے پہلے بھی وہ میٹنگز کرایا کرتے تھے مگر کووڈ کی وجہ سے سب آن لائن ہوگیا۔ ہمیں اب یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ میٹنگ کہاں ہو رہی ہے۔ ان کے گروپس خفیہ انداز میں کام کرتے ہیں“
ریا نے بتایا کہ وہ واٹس ایپ اور زوم کے ذریعے کیو نیٹ کے ایجنٹوں کے ساتھ رابطے میں رہتی تھیں لہٰذا ان کے لیے اسکیم کی اصلیت جاننا مزید مشکل ہوگیا تھا۔ اپنے مالی حالات کی وجہ سے ان کے لیے اس سکیم پر اعتماد کرنا آسان اور اس اس پر عمل تیز ہو گیا تھا
وہ کہتی ہیں ”وہ ایسے لوگوں کو ہدف بناتے ہیں جو کمزور اور ضرورت مند ہیں، جو کہ پہلے ہی مشکل میں ہیں۔۔ اگر آپ اچھی زندگی گزار رہے ہیں، اچھے پیسے بنا رہے ہیں اور اپنے حالات سے مطمئن ہیں تو کوئی بھی آپ سے اس طرح کے کام کے لیے رابطہ نہیں کرتا”