سی ایس ایس کا پرچہ، انسٹاگرام اور ”بوائز وِل بی بوائز!“

ویب ڈیسک

گزشتہ چند روز سے ایک سوال کو لے کر پاکستان میں ایک بحث جاری ہے اور دلچسپ تبصرے سامنے آ رہے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ تین گھنٹوں میں ’بوائز وِل بی بوائز‘ کے عنوان پر بندہ کیا مضمون لکھ سکتا ہے؟

آخر یہ بحث شروع کیسے ہوئی۔۔ دراصل معاملہ یہ ہے کہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی) کی طرف سے منعقدہ سال 2023ع کے مقابلے کے امتحان (سی ایس ایس) میں معمول کے مطابق انگریزی مضمون کے امتحان میں ہزاروں امیدواروں کو سو نمبروں کا ایک پرچہ تھمایا گیا

مگر اس بار مضمون کے عنوانات میں دیے گئے دس آپشنز میں سے آخری چوائس سوشل میڈیا صارفین کو سب سے الگ لگی، جس میں امیدواروں کو تین گھنٹوں میں ’بوائز وِل بی بوائز‘ کے عنوان پر تفصیلی مضمون لکھنے کا کہا گیا تھا

بعض لوگوں نے، جہاں اس پرچے میں چھپے ’صنفی امتیاز‘ کی بات کی ہے، وہیں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایسے کسی سوال کو خواتین اور مردوں سے جڑے تعصب توڑنے کے لیے بھی استعمال میں لایا جا سکتا ہے

تاہم ایسے بھی لوگ ہیں، جو پوچھتے ہیں کہ پرچے میں آیا ’بوائز‘ سے مراد ’پنڈی بوائز‘ تو نہیں؟

واضح رہے کہ ہر سال گریڈ 17 کی سرکاری نوکری کے خواہشمند ہزاروں پاکستان شہری سی ایس ایس کے امتحانات دیتے ہیں، جن میں سے صرف دو فی صد کے قریب ہی تحریری امتحان میں کامیابی حاصل کر پاتے ہیں

ویسے تو امیدوار ایک وسیع فہرست میں سے اپنی مرضی کے مضمون رکھ سکتے ہیں، لیکن کچھ مضامین لازمی ہوتے ہیں، جن میں انگریزی کے دو سبجیکٹس میں سے ایک ’انگلش ایسے‘ یعنی انگریزی مضمون نویسی کا ہے

بعض امیدواروں کے لیے یہ سب سے مشکل امتحان ہے، جس میں بیشتر امیدواروں کے لیے زیادہ نمبر لینا تقریباً ناممکن ہوتا ہے

ایف پی ایس سی نے 2019ع میں اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا تھا کہ انگلش مضمون میں امیدواروں کی اکثریت عنوان کا مطلب سمجھے بغیر ’رٹے رٹائے مضمون پیش کر دیتے ہیں۔‘

اس کے مطابق مضمون میں ایک امیدوار کُھلی بحث کرتا ہے اور مضبوط دلائل کی مدد سے اپنے نظریات کا جواز پیش کرسکتا ہے

مگر ایف پی ایس سی کے مطابق امیدواروں کی بڑی تعداد اپنے سطحی مطالعے کی عکاسی کرتی ہے اور وہ ایک سو نمبروں کے لیے بارہ سو سے تیرہ سو الفاظ تک بھی پہنچنے میں ناکام رہتے ہیں۔‘ جبکہ اس میں یہ بھی بتایا گیا کہ امیدوار گرامر اور اسپیلنگ کی غلطیاں کرتے ہیں

گذشتہ چند برسوں کے سی ایس ایس ’پاسٹ پیپرز‘ کا جائزہ لیا جائے تو انگریزی مضمون کا پرچہ بنانے والوں کی خواتین کے حقوق سے جڑے عنوانات میں خاصی دلچسپی رہی ہے

2023ع میں ’بوائز ول بی بوائز‘ کے سوال سے قبل 2022ع میں امیدواروں کے پاس دس میں سے ایک چوائس یہ تھی کہ وہ ’خواتین کے حقوق کی نئی تحریک میں فیمنزم کے متنازع معاملات‘ پر مضمون لکھیں

جبکہ 2021ع میں مضمون کے لیے ’صنفی برابری: ایک مقبول نعرہ‘ اور 2019ع کے پرچے میں ’فیمنزم کی نئی تحریک اور ہماری تہذیب‘ کا عنوان دیا گیا تھا

عین ممکن ہے کہ آپ نے برطانوی گلوکارہ دوعا لیپا کا معروف گانا ’بوائز ول بی بوائز۔۔۔ بٹ گرلز ول بی وومن‘ نہیں سنا ہوگا

انگریزی کے اس محاورے سے مراد ہے کہ اگر کوئی لڑکا یا آدمی بُرا یا ناقابل قبول رویہ اختیار کرتا ہے تو اس پر حیران نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ ایک مردانہ شخصیت کا خاصہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہہ سکتے ہیں کہ ”مرد آخر مرد ہی ہوتا ہے“

سی ایس ایس کے اس پرچے نے سوشل میڈیا پر بھی توجہ حاصل کی ہے، جہاں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بیوروکریسی اور انتظامیہ میں صنفی تعصب کو نمایاں کرتی ہے جبکہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ بحث کے لیے یہ ایک اچھا موضوع ہے جس پر صنفی برابری کے حق میں دلائل دیے جا سکتے ہیں

دانش کہتے ہیں کہ ملک کی معاشی صورتحال، مہنگائی، ڈالروں کا بحران اور ہر طرف لوگوں میں پریشانی ہے مگر ایف پی ایس سی کا خیال ہے کہ بوائز دل بی بوائز مضمون کے لیے اچھا عنوان ہے

سیدہ ارم کا کہنا ہے کہ سب سے اہم عنوانات چھوڑ کر سی ایس ایس امتحان بنانے والوں نے پوچھا کہ فیمنسٹس مردوں کے بارے میں کیا سوچتی ہیں۔‘

حذیفہ کا خیال ہے ’یہ سب سے دلچسپ اور چیلنجنگ امتحانات میں سے ایک ہے۔ آپ سب اس پر پاگل ہو رہے ہیں کیونکہ انھوں نے ماحولیاتی تبدیلی، کووڈ 19 یا امریکی اجارہ داری کا نہیں پوچھا۔‘

ان کی رائے میں ’سارا ملک چار سے پانچ مضمون رٹ کر سی ایس ایس دینے جاتا ہے۔‘

اسی طرح بی بی زرجان کہتی ہیں کہ ’میں سی ایس ایس کی فین نہیں لیکن مجھے نہیں لگتا ہے کہ یہ اتنا کوئی بُرا عنوان ہے۔ اس میں صنفی امتیاز، مردانہ استحاق اور زبان و بیان کے مختلف عوامل پر بات ہوسکتی ہے۔‘

تاہم کچھ صارفین نے اس پرچے کو صرف طنز و مزاح میں اڑانے کے لائق سمجھا ہے۔ کوئی یہ پوچھتا نظر آیا کہ اس عنوان میں کیا ’بوائز‘ سے مراد ’پنڈی بوائز‘ ہے۔ تو کسی نے تبصرہ کیا کہ لگتا ہے کہ پرچہ بنانے والا شخص انسٹاگرام کے ٹرینڈز سے کافی واقف ہے

جیسے ایک صارف نے مصنوعی ذہانت کے سرچ انجن چیٹ جی پی ٹی سے پوچھ لیا کہ اس کے مطابق بوائز ول بی بوائز بہترین مضمون کیسے لکھا جا سکتا ہے

اس پر چیٹ جی پی ٹی نے بتایا کہ اس محاورے کو چیلنج کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ صنفی برابری کو فروغ دیا جا سکے۔ یوں اس نے ایسا مضمون لکھ چھوڑا جس پر سی ایس ایس امتحان کا چیکر بھی سوچ میں پڑ جائے

دوسری طرف کچھ صارفین اسے نسبتاً سنجیدہ بحث کی طرف لے گئے

صلاح الدین پوچھتے ہیں کہ ’ایف پی ایس سی امیدواروں کا جائزہ لینے کے لیے ان سے پانچویں کلاس کے طلبہ سے کیے جانے والے سوال کیوں پوچھتا ہے؟ ۔۔۔ اس لیے کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ ہماری بیوروکریسی کا معیار گِر رہا ہے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close