سائیکو اونکالوجی کس طرح کینسر کے علاج میں مدد دیتی ہے؟

ویب ڈیسک

ہر برس دنیا بھر میں لاکھوں افراد میں کینسر جیسے موذی مرض کی تشخیص ہوتی ہے۔ بہت سے افراد کے لیے یہ خبر دہشت ناک ہوتی ہے۔ کینسر کی تشخیص کے بعد دوران علاج مریض کو نہ صرف جسمانی طور پر تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پڑتا ہے بلکہ انہیں کئی طرح کے نفسیاتی اور جذباتی مسائل بھی درپیش ہوتے ہیں

ذیل میں ایسے ہی کچھ مریضوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے، مریضوں کی شناخت چھپانے کے لیے ان کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں

کینسر کے مریض کُرٹ شروئڈر کہتے ہیں ”ڈاکٹروں نے مجھے بتایا کہ میرے جسم میں کینسر کے خلیے دوبارہ ملے ہیں۔ یہ کوئی اچھی خبر نہیں ہے، خصوصاً جب کینسر پتے کا ہو۔ سرجری میں انہوں نے کینسر تو نکال لیا، مگر ابھی کچھ خلیات باقی ہیں۔ میری خواہش تو یہی ہے کہ کینسر کا کوئی خلیہ نہ بچے‘‘

شروئڈر کی عمر اکسٹھ برس ہے اور وہ تمام عمر صحت مند رہے ہیں۔ تاہم اگست 2022 میں ان میں سرطان کی تشخیص ہوئی۔ جبکہ اسی برس اکتوبر میں ان کی سرجری بھی ہو گئی۔ اس سرجری میں پتے کا سر اور چھوٹی آنت کا ڈوڈینم کہلانے والا حصہ نکال دیا گیا۔ اس کے بعد کیموتھیراپی کا مرحلہ تھا، جس کے ضمنی اثرات الٹیوں، ذائقے میں تبدیلی اور چکر آنے جیسے ہوتے ہیں

شروئڈر بتاتے ہیں، ”بریڈ کھاؤ تو لگتا تھا ریگ مال کھا رہا ہوں۔ کیلے کی مٹھاس چبھتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ میں کچھ بھی نہیں کھا سکتا تھا‘‘

پھر انہوں نے جرمن شہر میونسٹر میں واقع کینسر کونسلنگ مرکز کی سربراہ گُودرُون برنز سے رجوع کیا

برنز نے طے کیا کہ وہ ’سائیکو اونکالوجی‘ کا اپنا تجربہ یہاں استعمال کریں گی۔ یہ سائنسی شعبہ سن 1970 میں پنپا تھا۔ برنز کے مطابق، ”سائیکو اونکالوجی کینسر کی وجہ سے پیدا ہونے والی نفسیاتی اور سماجی تبدیلیوں سے نمٹتی ہے‘‘

مطالعاتی رپورٹوں کےمطابق کینسر کی تشخص کے بعد تقریباً پچیس سے تیس فی صد تک مریض نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سائیکو اونکالوجی کونسلر ایسے میں مریضوں کو اس مشکل وقت سے دوبارہ روزمرہ زندگی کی جانب لوٹنے میں مدد دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں مریضوں کو عملی مدد اور معلومات مہیا کی جاتی ہیں

کُرٹ شروئڈر بتاتے ہیں ”برنز اس انسٹیٹوٹ میں بہت سے لوگوں کو جانتی ہیں۔ ان کے اتنے رابطے ہیں کہ انہیں خود بھی یاد نہیں رہتا۔ ظاہر ہے یہ اپنے آپ میں ہی زبردست مدد ہے۔ یعنی جب آپ کو علاج کے سلسلے میں مختلف مقامات پر مدد کی ضروررت ہو اور ایسے میں آپ کو مدد مل بھی جائے‘‘

بین الاقوامی سوسائٹی برائے سائیکو اونکالوجی کے اہم اہداف میں سے ایک کینسر سے جڑے نفسیاتی اور جذباتی امور پر توجہ دینا ہے تاکہ کینسر کے علاج کا عمل آسانی سے مکمل ہو اور عالمی سطح پر اس حوالے سے حالات بہتر ہوں

اس سوسائٹی کا قیام سن 1984 میں ٹورانٹو اور نیویارک میں عمل میں آیا تھا۔ یہ تنظیم سائیکو اونکالوجی کو کینسر کے علاج کا لازمی جزو بنانے کے لیے کام کرتی ہے

سن 2020 میں دنیا بھر میں 19 ملین افراد میں کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔ بین الاقوامی ایجنسی برائے تحقیقِ سرطان کے مطابق یہ تعداد اگلے برسوں میں بڑھنے کا امکان ہے۔ اس عالمی ادارے کے مطابق 2020 میں قریب 10 ملین افراد اس بیماری سے ہلاک ہوئے، جبکہ دو ہزار چالیس میں یہ تعداد سولہ ملین سے تجاوز کر سکتی ہے

کینسر کی تشخیص صرف مریض کی زندگی ہی کو تہہ و بالا نہیں کر دیتی بلکہ اس مریض کے اہل خانہ کی زندگیاں بھی متاثر ہوتی ہیں۔ مطالعاتی جائزوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کینسر کے مریضوں کے اہل خانہ بھی شدید ذہنی اور نفسیاتی دباؤ کا سامنا کرتے ہیں

برنز کے مطابق ”رشتے دار محسوس کرتے ہیں کہ انہیں متاثرہ شخص کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنا ہے اور ایسے میں وہ خود اپنی زندگی پر بھی ٹھیک سے توجہ نہیں دے پاتے۔ اگر ایسے میں وہ اپنی خواہشوں اور آرزوؤں کا احترام کریں تو اخلاقی جواز اور ضمیر انہیں ملامت کرتا ہے۔ حتیٰ کہ اس دوران سینما جانے یا کسی عام سی تفریحی سرگرمی کے دوران بھی انہیں اسی ذہنی دباؤ کا سامنا رہتا ہے‘‘

برنز کہتی ہیں ”اس سے فائدہ کسی کا نہیں ہوتا۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ رشتہ دار ایسے راستے تلاش کریں، جن سے ان کی اپنی توانائی بھی برقرار رہے۔‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close