ترکیہ میں اتنے ہلاکت خیز زلزلے کیوں آتے ہیں؟

ویب ڈیسک

ترکیہ اور شام میں زلزلے کے باعث ہلاکتوں کی تعداد چار ہزار آٹھ سو سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ اموات میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ترکیہ کی امدادی ایجنسی اے ایف اے ڈی نے منگل کو تصدیق کی کہ سات اعشاریہ آٹھ شدت کے زلزلے سے مرنے والوں کی تعداد دو ہزار 921 ہو گئی ہے

اُدھر عالمی ادارہ صحت کے حکام نے ہولناک زلزلے کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد بیس ہزار تک پہنچنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے

ترکیہ کے سرکای ٹی وی کے مطابق زلزلے سے 10 صوبے متاثر ہوئے

ابتدائی زلزلے کے بعد ایک سو سے زیادہ آفٹر شاکس آئے جبکہ دن کے وقت ہی سات اعشاریہ سات شدت کا ایک جھٹکا بھی آیا جس سے ریسکیو کی کوششوں میں خلل پیدا ہوا

یورپی بحیرہ روم کے زلزلہ پیما مرکز (ای ایم ایس سی) نے کہا ہے کہ دوسرے بڑے زلزلے کا مرکز ضلع قاہرمان ماراش سے67 کلومیٹر پر تھا جس کی گہرائی 2 کلومیٹر ہے

زلزلے کا مرکز ترکیہ کے جنوب میں واقع صوبے غازی انٹپ کا علاقہ نرداگی تھا جبکہ زلزلے کی گہرائی تقریباً 18 کلومیٹر تھی

ترکیہ میں زلزلے کیوں آتے ہیں؟

ماضی میں بھی ترکیہ میں شدید زلزلے آتے رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ ماہرین کے بقول، ترکیہ کا جغرافیائی محلِ وقوع ہے

1999 میں بھی اسی شدت کا ایک زلزلہ ترکیہ میں آیا تھا جس میں 17 ہزار افراد ہلاک اور 13 ہزارسے زیادہ زخمی ہوئے تھے

لندن کے امپیئرل کالج میں زلزلوں پر تحقیق کے شعبے سیسمولوجی کے محقق اسٹیفن ہکس کے مطابق ترکیہ میں پیر کو آنے والا زلزلہ ملکی تاریخ کے شدید ترین زلزلوں میں سے ایک ہے

انہوں نے اپنی ٹوئٹر پوسٹ میں کہا کہ اس سے قبل دسمبر 1939 میں ترکیہ کے شمال مشرقی علاقوں میں 7.8 شدت کا زلزلہ آیا تھا۔ اس زلزلے کا مرکز شمالی اناطولین فالٹ کے نزدیک تھا

ترکیہ میں آنے والے اس زلزلے کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی اور 30 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے

امریکہ کے جیولوجیکل سروے کے مطابق پیر کو آنے والے زلزلے کا مرکز ترکیہ کے غازی اینتپ صوبے سے 33 کلومیٹر دور اور 18 کلو میٹر گہرائی میں تھا

اسٹیفن ہکس کے مطابق یہ علاقہ شام کی سرحد سے متصل ہے اور یہ خطے کے گنجان آباد علاقوں میں شامل ہوتا ہے

ان کا کہنا تھا کہ ترکیہ کا حالیہ زلزلہ جس خطے میں آیا ہے ماضی کے جائزہ لیا جائے تو اب تک یہ اس علاقے میں آنے والا شدید ترین زلزلہ ہے۔ البتہ اس سے قبل زیادہ تر شدید زلزلے شمالی ترکیہ کے علاقوں میں آتے رہے ہیں

زیرزمین پائی جانے والی بڑی ارضیاتی پلیٹس میں دراڑوں کو ‘فالٹ’ کہا جاتا ہے۔ دیگر وجوہ کے علاوہ ان فالٹس میں ہونے والی حرکت سے زلزلے پیدا ہوتے ہیں

ماہرین کے مطابق جغرافیائی اعتبار سے ترکیہ اناطولین ارضیاتی پلیٹ پر واقع ہے۔ اس کی دو فالٹ لائنز ترکیہ کے مشرق سے مغرب اور دوسری فالٹ لائن جنوبی مشرقی خطے میں پائی جاتی ہے

اسٹیفن ہکس کے مطابق ترکیہ میں آنے والے 7.8 شدت کے زلزلے کی تباہی کے ابتدائی اعداد و شمار سامنے آرہے ہیں۔ البتہ یہ واضح ہے کہ اس بڑے پیمانے پر آنے والے زلزلے کے اثرات بہت تباہ کُن ہوں گے اور یہ زلزلہ تاریخ کے واقعات میں درج ہوگا

ترکیہ میں آنے والے زلزلے اتنے ہلاکت خیز کیوں ہوتے ہیں؟

پیر کی صبح شام کی سرحد کے قریب ترکی کے جنوب مشرقی علاقے میں شدید زلزلے کا مرکز غازی عنتیپ کے شہر کے قریب کا علاقہ تھا اور پہلے شدید جھٹکے کے کچھ ہی دیر بعد یہاں ایک اور زلزلہ آیا اور آفٹر شاکس کا سلسلہ کئی گھنٹے گزرنے کے بعد بھی جاری رہا

یہ زلزلہ اتنا ہولناک کیوں تھا؟
یہ ایک شدید زلزلہ تھا۔ اس کی شدت 7 اعشاریہ 8 ریکارڈ کی گئی اور سرکاری حکام کے مطابق یہ ایک ’بڑا‘ زلزلہ تھا

زلزلے کا مرکز زیادہ گہرائی پر نہیں تھا اور حکام کے مطابق یہ گہرائی 18 کلومیٹر تھی، اسی لیے متاثرہ علاقے میں کئی عمارتیں منہدم ہو گئیں

یونیورسٹی کالج لندن کے قدرتی آفات پر تحقیق کے شعبے ’رِسک این ڈیزاسٹر ریڈکشن‘ سے منسلک پروفیسر جوئنا فار واکر کے مطابق ’پچھلے تمام برسوں کے مہلک ترین زلزلوں کو دیکھا جائے تو گذشتہ دس برس میں ایسے صرف دو زلزلے آئے جن کی شدت پیر کے زلزلے کے برابر تھی اور اس سے پہلے کے عشرے میں ایسے چار زلزلے ریکارڈ کیے گئے تھے۔‘

تاہم کسی بھی زلزلے سے آنے والی تباہی کا انحصار صرف اس پر نہیں ہوتا کہ اس کی شدت کیا تھی

یہ زلزلہ صبح سویرے اس وقت آیا جب لوگ اپنے گھروں میں سو رہے تھے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ عمارتیں کس قدر مضبوط یا کمزور تھیں

یونیورسٹی آف پورٹسمتھ میں آتش فشاؤں پر تحقیق کی ماہر، ڈاکٹر کارمن سولانا کہتی ہیں کہ ’بدقسمتی سے جنوبی ترکی اور خاص طور پر شام میں ایسی عمارات کی تعداد کم ہی ہے جو زلزلے کے جھٹکوں کو برداشت کر سکتی ہیں

’اسی لیے زلزلے سے تباہی سے بچنے کا انحصار امدادی کارروائیوں پر ہے۔ آئندہ 24 گھنٹے اس حوالے سے نہایت اہم ہیں کہ ان میں کتنے لوگوں کو زندہ نکال لیا جاتا ہے۔ 48 گھنٹے گزرنے کے بعد زندہ بچنے والوں کی تعداد بہت کم ہو جاتی ہے۔‘

ترکی اور شام کی سرحد کے قریب کے اس علاقے میں گذشتہ سو سال میں کوئی شدید زلزلہ نہیں آیا اور کوئی ایسی علامات بھی نہیں دیکھی گئیں، جن کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا کہ یہاں اتنا شدید زلزلہ آ سکتا ہے۔

اسی لیے دوسرے علاقوں کی نسبت یہاں زلزلے سے بچاؤ کا نظام بھی قدرے کم دکھائی دیتا ہے۔

زلزلے کا سبب کیا تھا؟

ہماری زمین کی بیرونی سطح یا پرت مختلف سطحوں کے ملاپ سے بنتی ہے جنھیں پلیٹس یا تھالیاں کہا جاتا ہے

یہ تھالیاں پرندوں کے گھونسلوں کی مانند ایک دوسرے سے جڑی ہوتی ہیں۔ اکثر یہ پلیٹس حرکت کرنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن مختلف پلیٹس کے درمیان رگڑ کی وجہ سے ان میں حرکت نہیں ہو پاتی لیکن کبھی کبھار تھالیوں کے درمیان دباؤ اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ ایک تھالی اچانک اپنی جگہ سے کھسک جاتی ہے جس سے زمین کی سطح ہِل جاتی ہے

پیر کو آنے والے زلزلے میں شمالی کی جانب حرکت کرتی ہوئی ’عریبین پلیٹ‘ اور ’اناطولین پلیٹ‘ میں رگڑ پیدا ہو گئی تھی

ماضی میں آنے والے بڑے بڑے زلزلوں میں بھی مختلف تھالیوں کے درمیان رگڑ سے تباہی ہوئی

13 اگست 1821 کو بھی اس علاقے میں سات اعشاریہ چار کی شدت کا زلزلہ آیا تھا تاہم اس کی شدت پیر کے زلزلے سے خاصی کم تھی

اس کے باوجود اس زلزلے کے نتیجے میں یہ علاقہ بری طرح متاثر ہوا تھا اور صرف حلب کے شہر میں سات ہزار اموات ریکارڈ کی گئی تھیں۔ انیسویں صدی کے اس بڑے زلزلے کے ایک برس بعد تک اس علاقے میں آفٹر شاکس آتے رہے۔

پیر کی صبح کے زلزلے کے بعد بھی جھٹکوں کا سلسلہ بہت دیر تک جاری رہا اور سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ماضی کے شدید زلزلے کی طرح اب بھی یہ رجحان جاری رہے گا

زلزلوں کو ماپا کیسے جاتا ہے؟

زلزلوں کی پیمائش کے لیے آج کل جو پیمانہ استعمال کیا جاتا ہے اسے ’مومنٹ میگنیچیوئڈ سکیل‘ کہا جاتا ہے

اس پیمانے پر دو اعشاریہ پانچ سے کم کی شدت کے جھٹکے کو محسوس نہیں کیا جا سکتا اور یہ آلہ اس کی پیمائش نہیں کر سکتا۔ تاہم پانچ تک کی شدت کا زلزلہ ریکارڈ کیا جا سکتا ہے اور اتنی شدت کے زلزلے سے زیادہ نقصان نہیں ہوتا

سات اعشاریہ آٹھ کی شدت کے جھٹکے کو ایک ’بڑا‘ زلزلہ کہا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں عموماً خاصی تباہی ہوتی ہے

آٹھ سے زیادہ کی شدت کا جھٹکا انتہائی تباہ کن ہوتا ہے جس سے زلزلے کے مرکز کے ارد گرد کی آبادیاں مکمل ملیا میٹ ہو سکتی ہیں

سنہ 2011 میں جاپان کے ساحل کے قریب سمندر میں آنے والے زلزلے کی شدت نو تھی، جس سے نہ صرف ساحلی علاقے میں بہت زیادہ تباہی دیکھنے میں آئی تھی بلکہ اس نے انتہائی بلند سمندی لہروں کے طویل سلسلے کو جنم دیا تھا

ان بلند لہروں میں سے ایک ساحل کے قریب واقع ایک جوہری پلانٹ سے ٹکرا گئی تھی جس سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی

دنیا کی تاریخ میں سب سے بڑا زلزلہ سنہ 1960 میں چلی میں آیا تھا، جس کی شدت نو اعشاریہ پانچ ریکارڈ کی گئی تھی۔

اکیسویں صدی کے چودہ تباہ کن زلزلے

دنیا بھر میں سال 2000 کے بعد سے اب تک 14 بڑے تباہ کن زلزلے آ چکے ہیں جن میں ساڑھے آٹھ لاکھ سے زیادہ اموات رپورٹ ہوئی ہیں

22 جون 2022: افغانستان میں چھ اعشاریہ ایک شدت کے زلزلے سے 1100 سے زیادہ اموات ہوئیں

14 اگست 2021: کیربین ملک ہیٹی میں سات اعشاریہ دو شدت کے زلزلے کے نتیجے میں 2200 سے زیادہ ہلاکتیں رپورٹ ہوئی تھیں

28 ستمبر 2018: انڈونیشا میں سات اعشاریہ پانچ شدت کے زلزلے سے 4300 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے

25 اپریل 2015: نیپال میں سات اعشاریہ آٹھ شدت کے زلزلے سے 8800 سے زیادہ اموات ہوئی تھیں

11مارچ 2011: جاپان کے جنوب مشرق میں نو اعشاریہ صفر شدت کے زلزلے کے بعد سونامی سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 20 ہزار کے قریب ریکارڈ کی گئیں

12 جنوری 2010: ہیٹی میں سات اعشاریہ صفر شدت کے زلزلے سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس زلزلے سے ملک بھر میں تین لاکھ 16 ہزار افراد ہلاک ہوئے

12 مئی 2008: چین کے مشرق میں سات اعشاریہ نو شدت کے زلزلے کے نتیجے میں 87 ہزار 500 اموات واقع ہوئیں

26 مئی 2006: انڈونیشیا کے جزیرے جاوا میں چھ اعشاریہ تین شدت کے زلزلے کے نتیجے میں 5700 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے

8 اکتوبر 2005: پاکستان میں سات اعشاریہ چھ شدت کے زلزلے کے نتیجے میں 80 ہزار سے زیادہ اموات ہوئیں۔ ان ہلاکتوں میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہونے والی ہلاکتیں بھی شامل ہیں

28 مارچ 2005: انڈونیشیا کے شمالی جزیرے سماترا میں آٹھ اعشاریہ چھ شدت کے زلزلے کے باعث لگ بھگ 1300 افراد ہلاک ہوئے۔

26 اکتوبر 2004: انڈونیشیا کے قریب بحریہ ہند میں نو اعشاریہ ایک شدت کے زلزلے کے بعد سونامی کے نتیجے میں درجنوں ملکوں میں دو لاکھ 30 ہزار سے زیادہ اموات ہوئیں۔

26 دسمبر 2003: ایران کے جنوب مشرقی علاقوں میں چھ اعشاریہ چھ شدت کے زلزلے کے نتیجے میں 50 ہزار اموات رپورٹ ہوئیں۔

21 مئی 2003: الجزائر میں چھ اعشاریہ آٹھ شدت کے زلزلے کے نتیجے میں 2200 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔

26 جنوری 2001: بھارت کی ریاست گجرات میں سات اعشاریہ سات شدت کے زلزلے کے نتیجے میں 20 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close