جنگوں کی بھرمار اور ماحولیاتی تباہی کا نہ تھمنے والا سلسلہ

عبدالستار

کوریا، ویتنام اور لاؤس کی الگ الگ جنگوں میں لاکھوں ایکڑ زمین صرف بارودی سرنگیں بچھانے کی وجہ سے برباد ہو گئی۔ امریکہ نے ان جنگوں میں کلسٹر بموں اور مہلک کیمیکل سے انسانیت اور ماحول کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا

دوسری عالمی جنگ کی خوفناک تباہی کے باجود حضرت انسان نے جنگوں کے سلسلے کو جاری رکھا۔ ایک طرف پوری دنیا میں آزادی کی لڑائیاں چل رہی تھیں تو دوسری طرف نو آبادتی طاقتوں کا اپنی کالونیوں پر جبر بھی جاری تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ بڑی طاقتوں کی آپس کی رسہ کشی کی وجہ سے بھی دنیا کے کئی خطے جنگ کی لپیٹ میں آئے۔ اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کے نقصان کے ساتھ ساتھ قدرتی ماحول بھی بدترین تباہی کا شکار ہوا

کوریائی جنگیں

جنوبی اور شمالی کوریاؤں کے درمیان عشروں قبل جنگ بندی کے باوجو اس خطے میں ہر وقت تناؤ کی کیفیت رہتی ہے ۔ ایک طرف پیانگ یانگ آئے روز میزائلوں کے تجربے کرتا ہے تو  دوسری طرف سیئول حکومت امریکہ کے ساتھ مل کر اکثر مشترکہ فوجی مشقیں کرتی ہے

دوسری عالمی جنگ کے کچھ برسوں بعد ہی شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان جنگ چھڑ گئی، جس میں ایک طرف امریکہ اور اس کے اتحادی جنوبی کوریا کی حمایت کر رہے تھے جبکہ دوسری طرف سوویت یونین اور اس کے اتحادی شمالی کوریا سے اظہار یکجہتی کررہے تھے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد پہلی مرتبہ کوریائی جنگ میں خطرناک ہتھیاروں کا استعمال اور بے رحمانہ بمباری کی گئی، جس میں ایک اندازے کے مطابق دس سے تیس لاکھ انسان لقمہ اجل بنے جبکہ لاکھوں زخمی بھی ہوئے

جنگ میں امریکہ نے شمالی کوریا پر اتنی خطرناک بمباری کی کہ بعض اندازوں کے مطابق شمالی کوریا سو سال تک بھی اس بمباری کے اثرات سے باہر نہیں آسکتا تھا۔ دوران جنگ امریکہ نے ایک منظم انداز میں شمالی کوریا کے نظام آبپاشی اور ڈیموں کو نشانہ بنایا، جس کی وجہ سے اس کمیونسٹ ملک کی پچھترفیصد پانی کی فراہمی متاثر ہوئی

ویتنام جنگ

ویتنام کی جنگ نے بھی ماحولیاتی تباہی میں خوب اضافہ کیا۔ ویتنام 1955ء سے لے کر 1975ء تک حالت جنگ میں رہا۔ پہلے اس نے فرانس کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور بعد میں وہاں امریکہ کی مداخلت شروع ہوگئی، جو 1964ء میں مذید بڑھ گئی اور واشنگٹن نے وہاں فوجیوں کی تعداد میں زبردست اضافہ کیا۔ اس کے علاوہ امریکہ نے اس کمیونسٹ ملک پر خوفناک بمباری بھی کی، جس سے نہ صرف تیس سے ستر لاکھ انسان ہلاک و زخمی ہوئے بلکہ ویتنام کے جنگلات، زرعی زمین، دریا اور آبی وسائل کو بھی اس مہم میں بخشا نہیں گیا

1965ء سے لے کر 1968ء تک امریکہ نے ویتنام پر بے رحمانہ بمباری کی، جس سے بیس لاکھ ایکٹر سے زیادہ زمین تباہ ہوئی۔ جنگی حکمت عملی کے تحت ویتنام کی زرعی زمین اور جنگلات کو شدید نقصان پہنچایا گیا، جس کی وجہ سے ویت نام کے چودہ فیصد جنگلات تباہ ہوئے۔ اس جنگی مہم میں ایک مہلک ترین کیمیکل ایجنٹ اورنج کا بھی استعمال کیا گیا، جس سے اٹھائیس سے اکتالیس لاکھ تک ویتنامی شہریوں کی صحت بری طرح متاثر ہوئی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ایجنٹ اورینج میں ڈائیوکسن کی آمیزش ہوتی ہے، جو کینسر کا سبب بن سکتا ہے

لاؤس کی خانہ جنگی میں خفیہ امریکی مداخلت

سیاسی وجوہات کی بنا پر ویتنام کی جنگ کے شعلوں نے لاؤس کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا،جہاں 1953ء سے 1975ء تک خانہ جنگی رہی۔ اس دوران امریکہ نے وہاں خفیہ فوجی مداخلت کی اور اس غریب ملک پر 277 ملین سے زائد کلسٹر بم برسائے، جس میں سے ایک تہائی پھٹے نہیں اور انہوں نے زمین کی کوکھ بھانج کر دی۔ ان نہ پھٹ سکنے والے کلسٹر بموں میں سے صرف ایک فیصد کو اب تک صاف کیا جا سکا ہے۔ اس جابجا بکھرے بارود کی وجہ سے پچاس ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ ہزاروں کی تعداد میں زخمی بھی ہوئے ہیں، جن میں ایک بڑی تعداد بچوں کی ہے

جس طرح امریکہ نے ایجنٹ اورینج کا استعمال ویتنام میں کیا تھا، بالکل اسی طرح اس خطرناک کیمیکل کو لاؤس میں بھی استعمال کیا گیا، جس سے اس کے جنگل اور زرعی زمین بری طرح متاثر ہوئی۔ ایک اندازے کے مطابق امریکہ نے جڑی بوٹیوں کی تلفی کے لیے استعمال ہونے والے زہریلے سپرے کے چھ لاکھ گیلن لاؤس کے جنگلات پر اسپرے کیے، جو امریکے خلاف جنگ لڑنے والے وینامی کھیمروجوں کے جنگل میں ایک خفیہ راسے ہوچی من ٹریل کا حصہ تھے۔ اس اسپرے سے ایک لاکھ پینسٹھ ہزار ایکٹر زمین متاثر ہوئی

کمبوڈیا پر امریکی بمباری

کمبوڈیا کی 76 فیصد آبادی زراعت سے وابستہ تھی، جو امریکی بمباری اور خانہ جنگی سے بری طرح متاثر ہوئی۔ کمبوڈیا پر ایک لاکھ پندرہ ہزار دوسو تہتر فضائی حملے کیے گئے جبکہ اس کی زرعی زمین کو قریب چودہ ہزار سرنگوں سے بھر دیا گیا، جس کی وجہ سے زمین نہ صرف نا قابل کاشت بن گئی بلکہ اس کی وجہ سے زیر زمین آلودگی بھی پھیلی

1965ء سے 1973ء تک امریکہ نے اس ملک کی زرعی زمین اور لوگوں پر تقریبا اٹھارہ لاکھ ٹن بارود برسایا۔ ویتنام اور لاؤس کے خلاف فضائی بمباری کی مہم کی طرح کمبوڈیا میں بھی بہت سے بم اور گولہ بارود پھٹ نا سکا تھا اور پھر بعد میں یہ وقتاً فوقتاً پھٹتا رہا۔ کمبوڈیا کے پچاس فیصد گاؤں میں اب بھی ایسے علاقے ہیں، جہاں یہ بارود پھٹا نہیں ہے۔ ان علاقوں میں کسی بھی قسم کی کھیتی باڑی موثر انداز میں نہیں کی جا سکتی۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close