اسلاموفوبیا میں مبتلا اور ہمیشہ مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ توہین آمیز طریقے سے کھلواڑ کرنے والے فرانسیسی میگزین ’چارلی ہیبڈو‘ اس بار اس حد تک گر گیا کہ اس نے ترکیہ میں آنے والے زلزلے کی تباہی کا مذاق تک اڑا دیا
ترکیہ اور شام میں آنے والے تباہ کن زلزلے جس میں انیس ہزار سے زائد جانیں گئیں، کے حوالے سے مزاحیہ کارٹون شائع کرنے پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے اور اس کو بے حسی کی انتہا قرار دیا جا رہا ہے
چارلی ہیبڈو نے جو کارٹون شائع کیا ہے اس کے کپیشن میں لکھا گیا ہے ’ڈرائنگ آف دی ڈے‘، جبکہ پس منظر میں منہدم عمارتیں اور ملبے کے ڈھیر دکھائے گئے ہیں ساتھ ہی لکھا گیا ہے ’ترکیہ میں زلزلہ‘، اسی طرح تباہی کا مذاق اڑاتے ہوئے کارٹون کے نیچے لکھا گیا ہے کہ ’ٹینک بھجوانے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘
کارٹون شائع ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر اس کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا ہے اور ان میں معروف صحافی بھی شامل ہیں
بڑی تعداد میں لوگوں نے کارٹون کو ’نسل پرستی پر مبنی‘ اور ’بے ہودہ‘ قرار دیا ہے اور ہزاروں معصوم متاثرین کا مذاق اڑانے پر شدید مذمت کی ہے
اسکالر خالد بیداؤن نے لکھا کہ ’نسل پرستانہ، بے ہودہ اور بے حسی پر مشتمل‘
کارٹون کے جواب میں قوئسل حازری نے ایک وڈیو شیئر کی، جس میں امدادی کارکن ایک ایسے شیرخوار بچے کو بچا رہے ہیں، جس نے اپنی سارے گھر والے کھو دیے
انہوں نے لکھا کہ ’یہ وہ المیہ ہے جس کا تم مذاق اڑا رہے ہو۔‘
سیاسی تجزیہ کار اوزنور سیرین نے میگزین کو یاد دلایا کہ 2015ع میں حملے کے بعد کتنے ترکوں نے اس سے اظہار یکجہتی کیا تھا اور اس کا جواب مذاق اڑا کر دیا جا رہا ہے
انہوں نے لکھا ’آج آپ نے بہت سے لوگوں کے مصائب کا مذاق اڑانے کی کوشش کی ہے۔ ایسا کرنے کے لیے واقعی بے حسی کا ہونا ضروری ہے کیونکہ ابھی جانے کتنے بچے بچائے جانے کے منتظر ہیں۔۔
اسی طرح عبداللہ العمادی نے اپنی ٹویٹ میں کچھ یوں ردعمل دیا کہ ’یہ بہت ناگوار ہے۔ دوسروں کی مصیبتوں کا مذاق اڑانا اور اس پر محظوظ ہونا صحافتی اقدار کے منافی ہے اور مجھے اس پر کوئی شک نہیں ہے۔‘
لبنان سے تعلق رکھنے والے صحافی گیزیلے خوری نے کارٹون کو شرمناک قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ میگزین وضاحت کرے کہ یہ کس طرح سے ’آزادی اظہار رائے‘ ہے!
اسی طرح لبنان سے تعلق رکھنے والی صحافی رعنا ابی جوما نے لکھا ’چارلی ہیبڈو کی نسل پرستی کے حوالے سے کوئی حدود ہی نہیں ہیں۔ مجھے حیرانی ہوگی کہ آج کے بعد کوئی کیسے اس طنزیہ میگزین کا دفاع کرے گا۔‘
تنویس سے تعلق رکھنے والے صحافی موراد طیب کا کہنا تھا ’چارلی ہیبڈو اپنی نفرت انگیزی، ہٹ دھرمی، غیر اخلاقی صحافت اور استعماری طعنوں کا طرفدار ہے اور اس کا صحافتی آزادی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔‘
خالد رمل نے میگزین کی شدید مذمت کرتے ہوئے کارٹون کو نسل پرستانہ اور ہزاروں مصیب زدہ لوگوں کے ساتھ مذاق قرار دیا
سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی رہنما شیریں مزاری نے بھی کارٹون پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ’نفرت اور اسلاموفوبیا اس وقت عروج پر ہوتا ہے، جب ایک قدرتی آفت کو چارلی ہیبڈو اس طرح سے پیش کرتا ہے۔‘
انہوں نے مزید لکھا ’یہ بنیادی طور پر ایک بیمار ذہنیت ہے مجھے انتظار ہے کہ یورپ کی جانب سے کب اس کی مذمت سامنے آتی ہے۔‘
ایک صارف نے لکھا کہ انسانی اخلاقیات ہمیں سکھاتی ہے کہ تکلیف زدہ حالات میں دیگر انسانوں پر رحم کریں، لیکن اس فرانسیسی میگزین کا ترکیہ کے زلزلے پر طنزیہ انداز دیکھیں؟
ایک اور ٹوئٹر صارف نے میگزین پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ اس ڈیزائن کا مشاہدہ کریں، اسے اظہار کی آزادی کہا جاتا ہے، ان لوگوں میں نفرت لامحدود ہے لیکن ان کے پاس صرف احساس نہیں ہے
اسی طرح دیگر کئی صارفین نے بھی میگزین کے ایسے نفرت انگیز اور متعصبانہ مواد پر اسے سخت تنقید کیا نشانہ بنایا ہے جبکہ کچھ لوگوں نے 2016ع میں اٹلی میں زلزلے کے بعد اس کی جانب سے شائع کیے جانے والے کارٹون بھی شیئر کیے
خیال رہے اٹلی میں ستمبر 2016 میں چھ اعشاریہ دو شدت کے زلزلے کے حوالے سے طنزیہ کارٹون شائع کرنے پر چارلی ایبڈو کو شدید تنقید کا نشانہ کرنا پڑا تھا جس کے فوراً بعد میگزین نے ایک اور کارٹون شائع کیا تھا جس میں تنقید کرنے والوں کو شیطان کے روپ میں پیش کیا گیا تھا
جنوری 2016 میں میگزین نے ایک کارٹون شائع کر کے ایلن کردی نامی اس شامی بچے کا بھی مذاق اڑایا تھا، جس کی لاش 2015ع میں یونان کے ساحل پر پڑی ملی تھی۔