ترکی کے ساتھ ساتھ جنگ سے تباہ حال ملک شام کے رہے سہے بنیادی ڈھانچے کو لرزا دینے والے حالیہ زلزلے نے جہاں بڑے پیمانے پر تباہی برپا کی اور ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا، وہیں متاثرہ علاقوں سے چند انتہائی انہونی اور ناقابل یقین کہانیاں بھی سامنے آ رہی رہی ہیں، انہی میں ایک کہانی ’معجزہ‘ بچی کی بھی ہے
شام کے شمالی علاقے میں زلزلے کے بعد ملبے تلے دبے انسانوں کی زندگی کی آخری کرن ڈھونڈنے والے امدادی کارکنوں کو ملبے کے نیچے سے ایک بچی کے رونے کی آواز سنائی دی۔ کارکنوں نے بڑی کٹھنائیوں سے ملبے کے نیچے اس بچی کو نکالنا چاہا تو پتا چلا کہ اُس کی ناف اس کی ماں کے ساتھ جُڑی ہوئی تھی
جس کے بعد کی ناف کاٹ کر فوری طور پر سے اُسے ہسپتال منقل کیا گیا۔ امدادی کارکنوں نے ماں کو نکالنے کی کوشش کی لیکن وہ زندگی کی بازی ہار چُکی تھیں۔ بچی کا نام ہسپتال کے عملے نے ”آیا‘‘ رکھا ہے۔
اس ‘معجزہ‘ بچی کو گود لینے کے لیے بہت سے افراد ہسپتال سے رجوع کر رہے ہیں تاہم جمعے کو طبی عملے نے بتایا کہ آیا نامی نوزائیدہ بچی انتہائی نگہداشت یونٹ میں ہے، اُس کا علاج ہو رہا ہے اور وہ صحتیاب ہو رہی ہے
بچی کی ایک تصویر سوشل میڈیا اور چند بین الاقوامی میڈیا ویب سائٹس پر شائع ہوئی، جس میں اُس کا ننھا سا زخمی جسم نظر آ رہا ہے اور ڈاکٹرز اُسے بنیادی غذائیت اور ضروری ادویات فراہم کر رہے ہیں
آیا کے والد اور ان کے چار بھائی بہن بھی زلزلے کا شکار ہو کر لقمہ اجل بن چُکے ہیں۔ یہ خاندان ترکی کی سرحد کے قریب ایک قصبے میں آباد تھا، جسے زلزلے کے شدید جھٹکوں نے تباہ کر دیا۔ اس سے قبل آیا کا خاندان مشرقی شام میں دیرالزور صوبے میں رہتا تھا، تاہم وہاں کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے لوگ دیرالزور سے فرار ہو کر ترکی سے متصل شامی سرحدی علاقے میں آکر آباد ہو گئے تھے
آیا جس ہسپتال میں داخل ہے، وہاں آیا کی طبی دیکھ بھال کی نگرانی کرنے والے ڈاکٹر اور ہسپتال کے مینیجر خالد عطیہ نے خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا کہ وہ خود اس بچی کے تمام اخراجات پورے کر رہے ہیں۔ مزید برآں اُن کی اہلیہ اس لاوارث بچی کو اپنا دودھ پلا رہی ہیں
ڈاکٹر خالد نے ڈی پی اے سے بات کرتے ہوئے کہا ”میری بیوی خود چھوٹی آیا کو دودھ پلا رہی ہے۔‘‘ اس جوڑے کے ہاں چار ماہ پہلے ہی ایک لڑکی کی پیدائش ہوئی تھی اور ان کا ایک تین سال کا بیٹا بھی ہے
شام کے شمالی شہر عفرین کے الجہان ہسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹر خالد عطیہ کا میڈیا کو بیان دیتے ہوئے کہنا تھا، ”میری اولین ترجیح اس بچی کا ٹھیک ہونا ہے۔‘‘
ڈاکٹر نے آیا کی روز بروز صحتیابی پر اطمینان ظاہر کیا تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وہ ابھی ہسپتال ہی میں رہے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک کسی نے بھی آیا کو گود لینے کے سلسلے میں ان سے رابطہ نہیں کیا ہے۔ ڈاکٹر خالد کے مطابق ”اب تک آیا کے دور پار کے رشتہ داروں کی طرف سے دعوے کیے گئے ہیں، لیکن ابھی کچھ بھی حتمی نہیں ہے۔ آیا کی ‘کسڈی‘ یا اُسے پالنے کی ذمہ داری کسے سونپی جائے گی اس کا فیصلہ حکام کے ہاتھ میں ہے۔‘‘