مصنوعی ذہانت کے حامیوں کے مطابق یہ انٹرنیٹ کے کام کرنے کے انداز کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کرنے والی ہے۔
بات چیت کرنے والے مصنوعی ذہانت کے نظام چیٹ جی پی ٹی کی مقبولیت اور مائیکروسافٹ کے سرچ انجن بنگ میں اس کا انضمام، ایسی تبدیلیوں کی ایک جھلک ہے جو مصنوعی ذہانت کے حامی طویل عرصے سے تجویز کر رہے تھے۔
فی الحال سسٹم بنیادی طور پر متن کے ایک بڑے مجموعے سے فوراً سرچ کے ذریعے جواب تخلیق کرکے معلومات تلاش کرنے میں لوگوں کی مدد کرنے پر مرکوز ہیں۔
چیٹ جی پی ٹی اور نیا سرچ انجن بنگ، دونوں انٹرنیٹ سے معلومات جمع کر کے اسے کبھی نئے اور کبھی پرانے انداز میں صارفین کو پیش کرتے ہیں
تاہم، برسوں سے انٹرنیٹ کی معلومات کو ترتیب دینے کا کام گوگل کی ڈومین رہا ہے۔
گوگل کی ویب سائٹ پر ’اباؤٹ‘ میں لکھا ہے کہ ’ہمارا مشن دنیا کی معلومات کو منظم کرنا اور اسے عالمی سطح پر قابل رسائی اور مفید بنانا ہے۔‘
گوگل نے بارہا اشارہ دیا ہے کہ وہ اس مشن کے مستقبل کو مصنوعی ذہانت میں دیکھ رہا ہے، اور وہ ایسا کرنے کے لیے مختلف مصنوعات پر کام کر رہا ہے
لیکن ایسا لگتا ہے کہ دیگر کمپنیاں اس سے آگے جا رہی ہیں: نہ صرف اوپن اے آئی اور مائیکروسافٹ میں اس کے شراکت دار، بلکہ دیگر کمپنیاں بھی
گوگل نے 2017 میں اپنی سالانہ ڈویلپر کانفرنس کے دوران اعلان کیا تھا کہ وہ ’موبائل فرسٹ ورلڈ سے اے آئی فرسٹ ورلڈ‘ میں منتقل ہوگا
کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو سندر پچائی نے، جو اس وقت اس عہدے پر نئے آئے تھے، اسے ایک ’اہم تبدیلی‘ کے طور پر بیان کیا جو اس بات کی رہنمائی کرے گی کہ کمپنی یہاں سے آگے کیسے کام کرے گی
اسی برس گوگل نے ایسی خصوصیات کا مظاہرہ کیا جس سے مصنوعی ذہانت پر اس کے کام کے بارے میں پتہ چلتا تھا
مثال کے طور پر 2017 میں سندر پچائی نے گوگل لینز کی طرف اشارہ کیا تھا جو کسی تصویر میں جگہوں یا اشیا کی شناخت اور صارفین کو ان کے بارے میں اضافی معلومات دے سکتا ہے۔
انہوں نے 2017 میں ایک بلاگ پوسٹ میں ان نئی خصوصیات کا خلاصہ لکھتے ہوئے کہا، ’یہ حوصلہ افزا بات ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ثمرات آنا شروع ہو گئے ہیں جن کا لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں
’مصنوعی ذہانت والی پہلی دنیا بننے سے قبل ابھی ایک طویل سفر طے کرنا باقی ہے، لیکن ہم ٹیکنالوجی کو سب کے لیے قابل رسائی بنانے کے لیے جتنا زیادہ کام کریں گے، اتنی ہی جلد ہر کوئی فائدہ اٹھائے گا۔‘
اس کے بعد گوگل نے مصنوعی ذہانت پر اپنے کام کے ذریعے نئی خصوصیات اور اپ ڈیٹس کے ساتھ اس کے ثمرات دکھائے ہیں
یہ نجی طور پر اس چیز پر بھی کام کر رہا ہے جو زیادہ جدید مصنوعی ذہانت معلوم ہوتی ہے جسے اس نے عوام میں نہ لانے کا فیصلہ کیا ہے، جیسا کہ ایل اے ایم ڈی اے سسٹم، جس کے بارے میں گوگل کے اپنے انجینیئروں میں سے ایک قائل ہوگئے ہیں کہ وہ حساس ہوگیا ہے
اس کام کے کچھ حصے نے گوگل سے ہٹ کر دیگر منصوبوں کی بنیاد بنانے میں مدد کی ہے جو باقاعدگی سے وائرل ہوتے ہیں
جیسا کہ سندر پچائی نے اپنی بلاگ پوسٹ میں دنیا کو بتاتے ہوئے گوگل کے چیٹ بوٹ بارڈ کی ڈویلپمنٹ کا اعلان کیا تھا
انہوں نے لکھا، ’جدید جنریٹیو مصنوعی ذہانت اور زبان کے بڑے ماڈل دنیا بھر کے لوگوں کی توجہ حاصل کر رہے ہیں۔
’درحقیقت، ہمارے ٹرانسفارمر ریسرچ پروجیکٹ اور 2017 میں ہمارے فیلڈ-ڈیفائننگ پیپر کے ساتھ ساتھ ڈسفیوژن ماڈلز میں ہماری اہم پیش رفت، اب بہت سی ان جنریٹیو اے آئی ایپلی کیشنز کی بنیاد ہیں جو آپ آج دیکھ رہے ہیں۔‘
اگرچہ گوگل نے ان پراڈکٹس کو بنانے میں مدد کی ہے، لیکن اس نے اپنے حریفوں کی کامیابی کے برابر ابھی تک اپنی ایک بھی پراڈکٹ لانچ نہیں کی
ماضی میں مصنوعی ذہانت والے اس کے تجربات وائرل ہو چکے ہیں۔ جیسا کہ اس کا سائیکیڈیلک ’ڈیپ ڈریم‘ اور ایک ایسا آلہ جو مشہور پینٹنگز کے ساتھ لوگوں کا موازنہ کرتا ہے۔ لیکن نئی لہر میں واضح طوپر گوگل کا کوئی ان پٹ نہیں
گوگل کے مطابق، وہ کم از کم جزوی طور پر ہے کیونکہ وہ ان مصنوعی ذہانت کی پراڈکٹس کے خطرات کے بارے میں بہت محتاط ہے
اندرونی طور پر کمپنی کی تجویز ہے کہ ذمہ دار بننے کی کوشش کے باعث وہ مصنوعی ذہانت کے معاملے میں دیگر کمپنیوں سے پیچھے ہے اور پبلک میں جانے سے قبل اس بات کو یقینی بنا رہی ہے ان کی پراڈکٹس محفوظ ہیں۔
تاہم، اس ہفتے گوگل نے ایک نئے سسٹم ’بارڈ‘ کا اعلان کیا، جو خاص طور پر چیٹ جی پی ٹی اور دیگر سسٹمز کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کی کوشش لگتا ہے
یہ ٹول سرچ کرنے کا ایک نیا طریقہ ہوگا، جس میں لوگوں کو معلومات اور ترغیب ملے گی
حتیٰ کہ بارڈ کے اعلان میں بھی گوگل نے اس بات پر زور دیا کہ وہ کس طرح کی حدود اور حفاظتی خصوصیات استعمال کرے گا اور ایک بار پھر اس دلیل کی بازگشت سنائی کہ وہ پیچھے کیوں ہے
گوگل نے اپنی بلاگ پوسٹ میں لکھا ’ہم باہر سے ملنے والی رائے کو اپنی اندرونی ٹیسٹنگ سے ملائیں گے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ بارڈ کے جوابات حقیقی دنیا کی معلومات میں معیار، حفاظت اور بنیاد کے لیے اعلیٰ معیار پر پورا اترتے ہیں۔‘
ایسا لگتا ہے کہ یہ کافی نہیں۔ اسی اعلان میں گوگل نے مثال کے طور پر بارڈ کا ایک جواب دکھایا جو دراصل غلط تھا۔ اس میں خلائی دور بین جیمز ویب بارے میں غلطی تھی
کمپنی نے ایک تقریب بھی منعقد کی، جس میں ایک بار پھر مصنوعی ذہانت پر اپنا کام دکھانے کی کوشش کی گئی اور ایک بار پھر سست ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔
ان شکوک و شبہات کی وجہ سے گوگل کے شیئرز کی قیمت گر گئی اور اسے ایک سو ارب ڈالر کا نقصان ہوا
عین اسی وقت مائیکروسافٹ کے حصص کی قیمت میں اضافہ ہوا اور سوشل میڈیا لطیفوں سے بھر گیا کہ کمپنی نے یہ کیسے ممکن بنایا: بنگ کو ایک سرچ انجن بنا دیا جسے لوگ واقعی استعمال کرنے کے لیے پرجوش تھے۔
اینگیجٹ کی صحافی کریسا بیل نے لکھا ’میں مائیکروسافٹ کے دفتر میں کہیں بیٹھے بنگ ایگزیکٹیو کا سوچ رہی ہوں جو یہ سوچ کر بے قابو روئے جا رہا ہے کہ بالآخر بنگ کی باری بھی آنے والی ہے۔‘
مائیکروسافٹ میں بنگ ڈولپمنٹ کے نائب صدر مائیکل شیٹر نے لکھا، ’میرا مطلب ہے، میں اسے ’بے قابو‘ کے طور پر بیان نہیں کروں گا ۔۔۔‘
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)