سائنسدان ایسے ’کوانٹم‘ کمپیوٹر بنانے کے ایک قدم نزدیک پہنچ گئے ہیں، جن کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ آج کے ایڈوانس ترین سُپر کمپیوٹروں سے بھی طاقتور ہوں گے اور ہماری زندگیاں بدل کر رکھ دیں گے
واضح رہے کہ کوانٹم کمپیوٹر ایٹم کے ذرات کی غیر معمولی خصوصیات کا استعمال کرتے ہیں
یہ کوانٹم ذرات ایک ہی وقت میں دو مختلف جگہوں پر موجود ہوسکتے ہیں اور لاکھوں میل کی دوری کے باوجود حیران کن طور پر ایک دوسرے سے رابطہ بھی قائم رکھ سکتے ہیں
مطلب یہ کہ جو کام ایک کر رہا ہو، وہی اسی وقت دوسرا بھی کر سکتا ہے
سسیکس یونیورسٹی کی ایک ٹیم نے دو کمپیوٹر چِپس کے درمیان ریکارڈ رفتار اور درست کوانٹم معلومات کا تبادلہ کیا ہے
کمپیوٹر سائنسدان بیس برس سے زیادہ عرصے سے ایک مؤثر کوانٹم کمپیوٹر بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ گوگل، آئی بی ایم اور مائئکروسوفٹ جیسی کمپنیوں نے سادہ مشینیں بنائی ہیں۔ لیکن سسیکس یونیورسٹی کی تحقیق کے سربراہ پروفیسر وِنفرائیڈ ہینسِنگر کا کہنا ہے کہ نئی پیشرفت سے ایسے سسٹم بنانے کے لیے راہ ہموار ہوئی ہے، جو حقیقی زندگی کے ایسے مسائل کو سلجھا سکیں گے، جو آج کے بہترین کمپیوٹر بھی کرنے سے قاصر ہیں
پروفیسر وِنفرائیڈ ہینسِنگر کہتے ہیں ”ابھی جو کوانٹم کمپیوٹر ہیں، وہ بہت سادہ ہیں۔ جو ہم نے حاصل کیا ہے اس سے ہم ایسے کوانٹم کمپیوٹر بنانے کے قابل ہو سکتے ہیں، جو انڈسٹری اور معاشرے کے سب سے اہم مسائل کو حل کر سکیں گے“
اگر آج کے کمپیوٹر کی بات کی جائے تو یہ مسائل کو سادہ طریقے سے حل کرتے ہیں، یعنی ایک وقت میں ایک کیلکولیشن۔۔
کوانٹم کی دنیا میں ذرات ایک ہی وقت میں دو جگہوں پر موجود ہو سکتے ہیں اور محقق چاہتے ہیں کہ اس خصوصیت کو استعمال کرتے ہوئے ایسے کمپیوٹر بنائے جائیں، جو ایک ہی وقت میں کئی کیلکولیشنز یا مسائل حل کر سکیں
کوانٹم ذرات ایک ہی وقت میں لاکھوں میل دور ہوتے ہوئے بھی حیران کن طور پر ایک دوسرے سے رابطے میں یا جڑے ہو سکتے ہیں اور ایک دوسرے کے ایکشن کو کاپی کر سکتے ہیں۔ اور یہ خصوصیت طاقتور کمپیوٹر بنانے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے
اس میں اب تک ایک بڑی رکاوٹ جو پیش آتی رہی ہے، وہ کوانٹم انفارمیشن کو دو چِپس کے درمیان تیزی اور درستگی سے ٹرانسفر کرنا ہے، کیوں کہ ایسا کرنے پر اکثر انفارمیشن کا معیار گِر جاتا ہے اور غلطیاں آڑے آتی ہیں
نیچر کمیونیکشین نامی جرنل میں شائع ہونے والی اس حالیہ تحقیق سے لگتا ہے کہ پروفیسر ہینسِنگر کی ٹیم کی اس رکاوٹ کو دور کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے
ٹیم نے ایک ایسا سسٹم بنایا ہے، جس کی مدد سے دو چِپس کے درمیان انفارمیشن ریکارڈ تیزی اور 99.999993 فیصد درستگی کے ساتھ ٹراسفر کی جا سکتی ہے
آکسفورڈشائر میں قائم کیے گئے ایک نئے ادارے ’نیشنل کوانٹم کمپیوٹنگ‘ کے ڈائریکٹر نے سسیکس ریسرچ گروپ کی اس نئی تحقیق کو ایک ایسا اہم قدم قرار دیا ہے، جو کمپیوٹر کی دنیا میں آگے بڑھنے میں مدد کرے گا۔ لیکن ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عملی طور پر ایسے سسٹم بنانے سے پہلے ابھی مزید کام درکار ہے
سسیکس کے تجربے میں حصہ لینے والی پی ایچ ڈی کی طالبہ ساحرہ کلمیہ کا کہنا ہے کہ ٹیم ٹیکنالوجی کو اگلے مرحلے پر لے جانے کے لیے تیار ہے۔ ”یہ صرف اب فزکس کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ انجنیئرنگ، کمپیوٹر سائنس اور میتھس کا ایک مسئلہ ہے“
ساحرہ کلمیہ کہتی ہیں ”یہ کہنا مشکل ہے کہ ہم کوانٹم کمپیوٹنگ کے خواب کی تعبیر کے کتنا قریب آ چکے ہیں لیکن میں اس بارے میں پرامید ہوں کہ یہ ہماری روز مرہ زندگیوں میں مؤثر ہوں گے“
برطانیہ میں انجنیئرنگ کا سرکردہ ادارہ رولز روئس بھی اس ٹیکنالوجی کے بارے میں پرامید ہے۔ ادارہ سسیکس ٹیم کے ساتھ کام کر رہا ہے تاکہ طیاروں کے بہتر انجن بنانے میں مدد مل سکے
واضح رہے کہ طیاروں کے انجن کے نئے ڈیزائن کی ہوا کے رخ کے خلاف پائیداری کو جانچنے کے لیے ایسے سیمولیٹر میں ٹیسٹ کیے جاتے ہیں، جو طاقتور سُپر کمپیوٹر کے استعمال سے ممکن ہوتے ہیں
رولز روئس میں کوانٹم کمپیوٹنگ پر کام کرنے والے ڈاکٹر لی لیپورتھ کا کہنا ہے ”کوانٹم کمپیوٹر ہوا کے رخ سے متعلق زیادہ درستی اور تیزی سے معلومات دے سکتا ہے۔ کوانٹم کمپیوٹر ایسی کیلکولیشن کر سکتا ہے جو ہم ابھی نہیں کر سکتے اور ایسی بھی جنہیں ابھی کئی ماہ یا سال لگ جاتے ہیں۔ دنوں میں ایسا کرنا ممکن ہوجائے تو اس سے ہمارے ڈیزائن سسٹم میں جدت آئے گی اور بہتر انجن بن سکیں گے“
صرف یہی نہیں، ممکنہ طور پر اس ٹیکنالوجی کی مدد سے کیمیائی ردعمل کو جانچ کر ادویات کم وقت میں بنائی جا سکیں گی، جو کہ آج کے سُپر کمپیوٹر کے لیے بھی کرنا مشکل ہے۔ کوانٹم کمپیوٹر سے ایسے سسٹم بنائے جا سکیں گے جو موسم کی زیادہ درست پیشگوئی اور موسمیاتی تبدیلوں کے اثرات کا اندازہ لگا سکیں گے
پروفیسر ہینسِنگر کہتے ہیں ”مجھے پہلی بار کوانٹم کمپیوٹر بنانے کا خیال بیس برس پہلے آیا تھا۔ لوگ کہتے تھے ایسا کرنا نا ممکن ہے۔۔ اور جب لوگ ایسا کہتے ہیں تو میں اسے اور بھی زیادہ کرنا چاہتا ہوں۔ اس لیے میں نے گذشتہ بیس برس ایک ایک کر کے رکاوٹیں ہٹانے میں لگائے ہیں اور اب ہم ایک ایسے مرحلے پر پہنچ گئے ہیں، جہاں ہم عملی طور پر کوانٹم کمپیوٹر بنا سکتے ہیں“