ڈھائی سالہ اینریک اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں فرش پر بیٹھا کھیل رہا ہے اور ایک ایسی کتاب دیکھ رہا ہے، جس پر مختلف رنگوں کی مثلثیں، ڈبے اور دائرے بنے ہوئے ہیں
اس کی والدہ کلوئے بُورات نے اس سے فرانسیسی زبان میں پوچھا ”سرخ مثلث کہاں ہے؟‘‘ اینریک نے فوراً فرانسیسی زبان میں جواب دیا، ”یہ ہے۔‘‘
اس کے بعد اینریک کے ہسپانوی والد خوآن کوئرز نے اس سے ہسپانوی زبان ہی میں سوال کیا ”پیلا دائرہ کہاں ہے؟‘‘ اس پر اینریک نے انگلی رکھتے ہوئے ہسپانوی زبان میں جواب دیا، ”یہ ہے۔‘‘
ڈھائی سالہ اینریک اور اس کی آٹھ ماہ کی عمر کی بہن ایلیس ہسپانوی دارالحکومت میڈرڈ کے نواح میں اپنے والدین کے ساتھ رہتے ہیں اور وہ دنیا کے ان لاتعداد بچوں میں شامل ہیں، جو اپنے گھروں میں بیک وقت دو یا دو سے زیادہ زبانیں بولتے ہوئے بڑے ہو رہے ہیں
کلوئے بُورات اور ان کے شوہر خوآن کوئرز آپس میں اکثر ہسپانوی زبان میں بات کرتے ہیں۔ لیکن کلوئے بُورات اپنے بچوں کے ساتھ صرف فرانسیسی زبان بولتی ہیں جبکہ خوآن کوئرز اپنے بیٹے اور بیٹی دونوں سے صرف ہسپانوی زبان میں گفتگو کرتے ہیں
ماہرین لسانیات اس رویے کو ’ایک فرد، ایک زبان‘ کے طریقہ کار کا نام دیتے ہیں۔ یہ ان کئی ممکنہ طریقوں میں سے ایک ہے، جن کے ذریعے کسی بھی خاندان میں بچوں کی ایک سے زائد زبانیں بولتے اور سکھاتے ہوئے پرورش کی جا سکتی ہے
دوسری جانب جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں رہنے والی ترک نژاد خاتون ییلیز گوئزمیز اور ان کے خاندان کی سوچ کچھ مختلف ہے۔ ییلیز اور ان کے شوہر دونوں ترکی میں پیدا ہوئے تھے۔ اب ان کی دو بیٹیاں ہیں۔ وہ دونوں سات سالہ میلِسا اور چار سالہ مِیلا سے گھر کے اندر تو ترک زبان بولتے ہیں لیکن گھر سے باہر، مثلاً اسکول، کنڈر گارٹن، یا باہر کھیلتے ہوئے، یہ ترک نژاد جوڑا اپنی بیٹیوں سے صرف جرمن زبان میں بات کرتا ہے
ماہرین کے مطابق یہ بھی بچوں کی بیک وقت ایک سے زائد زبانوں میں پرورش اور تربیت کا ایک مسلمہ طریقہ کار ہے، جسے ’گھر کے اندر بمقابلہ گھر سے باہر‘ کی حکمت عملی کا نام دیا جاتا ہے
اس کے علاوہ کئی دیگر طریقے بھی ممکن ہیں۔ مثلاً کسی بھی زبان کے استعمال کو کسی خاص مصروفیت سے مشروط کر دیا جائے، جیسا کہ کھانا کھاتے ہوئے گھر کا ہر فرد عربی زبان بولے گا اور کوئی بھی کھیل کھیلتے ہوئے صرف انگریزی
ماہرین کا کہنا ہے کہ دن کے کسی حصے میں کوئی خاص زبان بولے جانے کی یہ تخصیص وقت کے لحاظ سے بھی کی جا سکتی ہے۔ یعنی مثال کے طور پر کسی بھی گھرانے میں والدین کا تعلق اگر جرمنی اور چین سے ہو، تو بچے صبح کے وقت تو چینی زبان بولیں اور شام کے وقت صرف جرمن
بچوں کی تربیت اور لسانیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ کسی بھی کثیر الثقافتی اور کثیر اللسانی گھرانے میں ماں باپ کی طرف سے بچوں کے ساتھ کب کون سے زبان بولی جائے گی، اس کا تعین چاہے افراد کی سطح پر کیا جائے، دن کے اوقات کی بنیاد پر یا مشترکہ خاندانی مصروفیات کے لحاظ سے، اہم بات یہ ہے کہ ایسے تمام طریقہ ہائے کار میں سے کسی ایک کو بھی واحد متفقہ اور قابل عمل طریقہ قرار نہیں دیا جا سکتا
بہرحال ماہرین کا ماننا ہے کہ ایسے بچے، جو دو یا دو سے زائد زبانیں بولتے ہوئے پروان چڑھتے ہیں، ان کی زندگیوں میں نہ صرف خوشیوں اور کامیابیوں کے نئے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں بلکہ افہام و تفہیم کے نئے افق بھی سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں
ماہرین سماجی اور فکری نشو و نما کے اس عمل کو کثیر اللسانیت یا بیک وقت کئی زبانیں سمجھنے اور بولنے کا نتیجہ قرار دیتے ہیں
اب تک کی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ دو یا دو سے زیادہ زبانیں بولتے ہوئے پلنے بڑھنے والے بچوں کے ذہنی افق وسیع تر ہوتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی سچ ہے کہ بچوں کی کثیراللسانی تربیت کے لیے تاحال کوئی ایک بھی متفقہ یا واحد بہترین حکمت عملی سامنے نہیں آ سکی
شمالی جرمن شہر بریمن کی یونیورسٹی آف ایپلائیڈ سائنسز کی پروفیسر وِیبکے شارف ریتھ فَیلڈ کا کہنا ہے کہ بہت سے والدین یہ جاننا چاہتے ہیں کہ بچوں کی بیک وقت ایک سے زائد زبانوں میں پرورش اور تربیت کے لیے بہترین طریقہ کون سا ہے، میں میں انہیں کہتی ہوں کہ اس کے لیے کوئی ایک پرفیکٹ اسٹریٹیجی نہیں ہے
پروفیسر ریتھ فَیلڈ کہتی ہیں ”بات دراصل یہ ہے کہ بچوں سے کوئی بھی زبان بولتے ہوئے انہیں اس زبان کے زیادہ سے زیادہ الفاظ سیکھنے، بولنے اور سمجھنے کی ترغیب دی جائے۔‘‘
پروفیسر ریتھ فَیلڈ کے مطابق ایسے گھرانوں میں والدین کو بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ متنوع موضوعات پر بات چیت کرنا چاہیے، تاکہ بچوں کا ذخیرہ الفاظ بھی مسلسل بڑھتا جائے
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بچوں سے گھر میں بولی جانے والی زبانوں میں سے اگر ایک زبان کے الفاظ دوسری میں ملا کر بھی بولے جائیں، تو یہ بھی کوئی بری یا غلط بات نہیں، بلکہ ایک قدرتی عمل ہے
اسی طرح بچوں کو بھی کسی ایک زبان میں جواب دیتے ہوئے اگر کسی ایک کے علاوہ دوسری زبان کے چند الفاظ بھی استعمال کرنا پڑ جائیں، تو یہ بھی درست ہے اور اس کا تدارک یوں کیا جا سکتا ہے کہ والدین اپنے بچوں کی اس زبان میں اصلاح کرتے ہوئے ان کا ذخیرہ الفاظ بڑھانے کی کوشش کریں
جرمن سٹی اسٹیٹ بریمن کی یونیورسٹی آف ایپلائیڈ سائنسز کی پروفیسر ریتھ فَیلڈ کہتی ہیں کہ بچے کوئی بھی زبان سیکھتے ہوئے اس کی گرامر پر قدرتی طور پر اتنی توجہ دینے کے اہل ہوتے ہیں کہ اگر وہ کوئی غلط جملہ کئی مرتبہ بھی سنیں، تو بھی انہیں علم ہو جاتا ہے کہ اسی زبان میں درست گرامر کے ساتھ وہی جملہ کیسے بولا جائے گا
ان کا کہنا ہے ”ماہرین اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ بچوں سے بات چیت میں اگر کسی ایک زبان میں دوسری زبان کے الفاظ بھی استعمال کیے جائیں تو بھی بچے بڑی آسانی سے یہ تفریق کر لیتے ہیں کہ کون سا لفظ کس زبان کا ہے“
وہ کہتی ہیں ”بچے مختلف زبانوں اور ان کے الفاظ کے مابین اس تفریق کے اہل تو اسی عرصے میں ہو جاتے ہیں جب وہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے ہوتے اور رحم مادر میں ہی مختلف زبانوں اور ان کے الفاظ کو سننے کے عادی ہو جاتے ہیں۔‘‘
لسانیاتی ماہرین اور محققین کے مطابق کثیراللسانیت اس لیے بھی بہت سود مند عمل ہے کہ بچپن میں ہی دو یا دو سے زیادہ زبانیں بولتے ہوئے بڑے ہونے والے بچوں کے لیے بچپن، لڑکپن یا جوانی میں دیگر نئی زبانیں سیکھنا آسان تر ہو جاتا ہے۔