بڑی ممانی کا کفن بھی میلا نہیں ہوا تھا کہ سارے خاندان کو شجاعت ماموں کی دوسری شادی کی فکر ڈسنے لگی۔ اٹھتے بیٹھتے دلہن تلاش کی جانے لگی۔ جب کبھی کھانے پینے سے نمٹ کر بیویاں بیٹیوں کی بری یا بیٹیوں کا جہیز ٹانکنے بیٹھتیں تو ماموں کے لیے دلہن تجویز کی جانے لگتی۔
’’ارے اپنی کنیز فاطمہ کیسی رہیں گی؟‘‘
’’اے ہے بی، گھاس تو نہیں کھا گئی ہو، کنیز فاطمہ کی ساس نے سن لیا تو ناک چوٹی کاٹ کر ہتھیلی پر رکھ دیں گی۔ جوان بیٹے کی میت اٹھتے ہی وہ بہو کے گرد کنڈل ڈال کر بیٹھ گئیں۔ وہ دن اور آج کا دن دہلیز سے قدم نہ اتارنے دیا۔ نگوڑی کا میکے میں کوئی مرا جیتا ہوتا تو شاید کبھی آنا جانا ہو جاتا۔‘‘
’’اور بھئی شجن بھیا کو کیا کنواری نہیں ملے گی جو جھوٹ پتل چاٹیں گے۔ لوگ بیٹیاں تھال میں سجا کے دینے کو تیار ہیں۔ چالیس کے تو لگتے بھی نہیں‘‘ اصغری خانم بولیں
’’اوئی خدا خیر کرے! بوا پورے دس سال نگل رہی ہو۔ اللہ رکھے خالی کے مہینے میں پورے پچاس بھر کے۔۔۔‘‘
اللہ! بے چاری امتیاز پھپو بول کے پچھتائیں۔ شجاعت ماموں کی پانچ بہنیں ایک طرف اور وہ نگوڑی ایک طرف۔۔ اور ماشاءاللہ پانچوں بہنوں کی زبانیں بس کندھوں پر پڑی تھیں، یہ گز گز بھر کی۔ کوئی مچیٹا ہوجاتا بس پانچوں ایک دم مورچہ باندھ کے ڈٹ جاتیں۔ پھر مجال ہے جو کوئی مغلانی، پٹھانی تک میدان میں ٹک جائے۔ بے چاری شیخانیوں سیدانیوں کی تو بات ہی نہ پوچھیے۔۔۔ بڑی بڑی دل گردے والیوں کے چھکے چھوٹ جاتے
مگر امتیازی پھپو بھی ان پانچ پانڈوں پر سو کوروؤں سے بھاری پڑتیں۔ ان کا سب سے خطرناک حربہ ان کی چنچناتی ہوئی برمے کی نوک جیسی آواز تھی۔ بولنا جو شروع کرتیں تو ایسا لگتا جیسے مشین گن کی گولیاں ایک کان سے گھستی ہیں اور دوسرے کان سے زن سے نکل جاتی ہیں۔ جیسے ہی ان کی کسی سے تکرار شروع ہوتی، سارے محلے میں ترنت خبر دوڑ جاتی کہ بھائی امتیازی بوا کی کسی سے چل پڑی، اور بیویاں کوٹھے لانگتی، چھجے پھلانگتی دنگل کی جانب ہلہ بول دیتیں
امتیازی پھپو کی پانچوں بہنوں نے وہ ٹانگ لی کہ غریب نکو بن گئیں، ان کی سنجھلی بیٹی گوری خانم اب تک کنواری دھری تھیں۔ چھتیسواں سال چھاتی پر سوار تھا مگر کہیں نصیب بننے کے آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔ کنوارے ملتے نہیں، بیاہے رنڈوے نہیں ہوتے۔ پہلے زمانے میں تو ہر مرد تین چار کو ٹھکانے لگادیتا تھا۔ مگر جب سے یہ ہسپتال اور ڈاکٹر پیدا ہوئے ہیں، بیویوں نے مرنے کی قسم کھالی ہے، جسے دیکھو عاقبت کے بوریے پر تلی ہوئی ہے۔ بڑی ممانی کی بیماری کے دنوں میں ہی امتیازی پھپو نے حساب لگا لیا تھا۔ لیکن ان کے فرشتوں کو بھی پتہ نہ تھا کہ دوہاجو کے لیے بھی کنویں میں بانس ڈالنے پڑیں گے۔
شجاعت ماموں کی عمر کا مسئلہ بڑی نازک صورت اختیار کر گیا۔ قمر آراء اور نور خالہ کے لیے تو وہ ابھی لڑکا ہی تھے۔ اس لیے وہ تو مارے ہول کے برسوں کی گنتی میں بار بار گھپلا ڈال دیتیں۔ کیوں کہ ان کی عمر کا حساب لگ جانے سے خود خالاؤں کی عمر پر شہ پڑتی تھی، لہٰذا پانچوں بہنیں بالکل مختلف سمت سے حملہ آور ہوئیں۔ انہوں نے فوراً امتیازی پھپو کے نواس داماد کا ذکر چھیڑ دیا۔ جس کا تذکرہ پھپو کی دکھتی رگ تھا، کیونکہ وہ ان کی نواسی پر سوت لے آیا تھا۔
مگر ہماری پھپو بھی کھری مغلانی تھیں، جن کے والد شاہی فوج میں برق انداز تھے۔ وہ کہاں مار کھانے والیوں میں سے تھے۔ جھٹ پینترا بدل کر وار خالی دیا اور شہزادی بیگم کی پوتی پر ٹوٹ پڑیں جو کھلے بندوں خاندان کی ناک کٹوا رہی تھی، کیونکہ وہ روز ڈولی میں بیٹھ کر دھنکوٹ کے اسکول میں پڑھنے جایا کرتی تھی۔ اس زمانے میں اسکول جانا اتنا ہی بھیانک سمجھا جاتا تھا، جتنا آج کل کوئی فلموں میں ناچنے گانے لگے
شجاعت ماموں بڑے معقول آدمی تھے۔ نہایت ستھرا نقشہ، چھریرا بدن، درمیانہ قد، امتیازی پھپو سارے میں کہتی پھرتی تھیں کہ خضاب لگاتے ہیں، مگر آج تک کسی نے کوئی سفید بال ان کے سر میں نہیں دیکھا، اس لیے یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ خضاب لگانا کب شروع کیا۔۔۔ یوں دیکھنے میں بالکل جوان لگتے تھے، واقعی چالیس کے نہیں جچتے تھے۔ جب ان پر پیغاموں کی بہت زور کی بارش ہوئی تو بوکھلا کر انہوں نے معاملہ بہنوں کے سپرد کردیا، اتنا کہہ دیا، لونڈیا اتنی چھچھوری نہ ہو کہ بیٹی لگے، اور ایسی کھوسٹ بھی نہ ہو کہ ان کی اماں لگے
’’اوئی، کیا خوفیاتا ہوا نام!‘‘ امتیازی پھپو کو کچھ نہ سوجھا تو نام ہی میں کیڑے نکالنے لگیں، مگر بہنوں نے ایسا مورچہ کسا کہ ان کی کسی نے نہ سنی
’’لونڈیا سولہ سے ایک دن زیادہ کی ہو تو سو جوتے صبح، سوجوتے شام، اوپر سے حقہ کا پانی۔‘‘ مگر ان کی کسی نے نہ سنی۔ وہ اپنی گوری بیگم کی ناؤ پار لگانے کے لیے خواہی نہ خواہی دند مچاتی تھیں
رخسانہ بیگم تھیں کہ بس کوئی دیکھے تو دیکھتا ہی رہ جائے۔ جیسے پہلی کا نازک شرمایا ہوا چاند کسی نے اتار لیا ہو۔ شکل دیکھتے جاؤ پر جی نہ بھرے۔ تولو تو پانچویں کے بعد چھٹا پھول نہ چڑھے۔ رنگت ایسی جیسے دمکتا کندن۔۔۔ جسم میں ہڈی کا نام نہیں جیسے سخت میدے کی لوئی پر گائے کا مکھن چپڑ دیا ہو۔ نسوانیت اس غضب کی جیسے درجن بھر عورتوں کا ست نچوڑ کر بھر دیا ہو۔ گرم گرم لپٹیں سی نکلتی تھیں، شاید بقول پھپو سولہ برس کی ہوں گی، مگر انیس بیس کی اٹھان تھی، بہنوں نے ماموں کو پچیسواں سال بتایا تھا۔ انہیں ذرا سا تکلف تو ہوا مگر پھر ٹال گئے، کمسنی تو کوئی بڑا جرم نہیں
سب سے بڑی بات تو یہ تھی کہ بے انتہا مفلس گھر کا بوجھ تھیں۔ دونوں طرف کاخرچہ ماموں کے سر رہا۔ جب رخسانہ ممانی بیاہ کر آئیں تو انہیں غور سے دیکھ کے ماموں کے پسینے چھوٹ گئے
’’باجی، یہ تو بالکل بچی ہے!‘‘ انہوں نے بوکھلا کر کہا
’’اوئی خدا خیر کرے! اے میاں تیل دیکھو، تیل کی دھار دیکھو۔‘‘
’’مرد ساٹھا اور پاٹھا۔ بیوی بیسی اور لھیسی۔ دوچار بچے ہوئے نہیں کہ ساری قلعی اترجائے گی۔ گو موت میں نہ سولہ سنگھار رہیں گے، نہ یہ رنگ و روغن نہ یہ چھلاسی کمر رہے گی۔ نہ بازوؤں کا لوچ۔ برابر کی نہ لگنے لگے تو چور کاحال سو میرا۔ میں تو کہوں دس سال میں بڑی بھابی جان کی طرح ہوجائے گی۔‘‘
’’پھر ہم اپنے بیرن کےلیے ساڑھے بارہ برس کی لائیں گے‘‘، خالہ چہکیں
’’ہشت!‘‘ ماموں شرما گئے
’’دوسری بیوی نیں جیتی، اس لیے تیسری‘‘، شمسہ بیگم بولیں
’’کیا بک رہی ہو؟‘‘
’’ہاں میاں بڑے بوڑھوں سے سنتے آئے ہیں۔ دوسری تو تیسری کا صدقہ ہوتی ہے، اسی لیے پرانے زمانے میں لوگ دوسری شادی گڑیا سے کر دیا کرتے تھے۔ تاکہ پھر جو دلہن آئے وہ تیسری ہو۔‘‘
بہنوں نے سمجھایا اور ماموں سمجھ گئے۔ پھر جلد ہی رخسانہ بیگم نے بھی سمجھا دیا۔ دو تین سال میں اچھے کھانے کپڑے اور عاشقِ زار میاں نے وہ جادو پھیرا کہ پہلی کا چاند چودھویں کا ماہتاب ہو گیا، وہ چاندنی چٹکی کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں جھپک گئیں۔ پور پور سے شعاعیں پھوٹ نکلیں۔۔۔ شجاعت ماموں پر ایسا نشہ سوار ہوا کہ بالکل دھت ہوگئے۔ شکر ہے جلد ہی پینشن ہونے والی تھی، ورنہ آئے دن کے دفتر سے غوطے ضرور رنگ لاتے
بہنوں کے لے دے کے ایک بھیا تھے۔ بڑی ممانی تو دولہا لے ہی میں جی سے اتر گئی تھیں۔ ان کی کمان کبھی چڑھی ہی نہیں۔ جب تک زندہ رہیں صورت کو ترستی رہیں۔ آل اولاد خدا نے دی ہی نہیں کہ ادھر جی بہل جاتا۔ میاں بہنوں کے چہیتے بھائی۔ صورت نہ دیکھیں تو کھانا نہ پچے۔ دفتر سے سیدھے کسی بہن کے یہاں پہنچتے، رات کا کھانا وہیں سے کھاکر آتے۔ پھر بھی روزانہ خوان سجائے رات تک بیٹھی راہ تکا کرتیں، کسی دن اتفاق سے کھالیتے تو ان کی زندگی کا مقصد پورا ہو جاتا۔ آئے دن بہنوں کے ہاں ہنگامے رہتے۔ جھوٹوں کو کبھی بھاوج کو بھی بلا لیتیں مگر یہ بے چاری وہاں غریب الوطن سی لگتیں۔ سب نے بلانا چھوڑ دیا۔ شجاعت ماموں کو کبھی یار دوستوں کی دعوت کرنی ہوتی یا قوالی اور مجرے کی محفلیں جمتیں تو بیوی کو پتہ بھی نہ چلتا، بہنیں سب انتظام کر دیتیں، یہ ان ہی کے ہاتھ میں روپیہ دے دیتے
کسی نےممانی کو رائے دی کہ میاں کو قابو کرنے کا بس ایک گر ہے اسے ایسے کھانے کھلاؤ کہ کسی کے گھر کا نوالہ منہ کو نہ لگے۔ بس جی، ممانی نے کھانا پکانے کی کتابیں منگائیں، لہسن کی کھیر اور بادام کے گلگلے، دم کا مرغ اور مچلی کے کباب پکائے جنہیں کھا کر ماموں نے فیصلہ کیا کہ وہ انہیں زہر دے کر مارنا چاہتی ہیں
ممانی خون تھوک تھوک کر مر گئی۔
مگر نئی نویلی کا جادو تو آتے ہی سر چڑھ کر بولنے لگا۔ نہ کہیں آنے کے رہے نہ جانے کے، نہ کسی کا آنا بھائے۔ بس میاں ہیں اور بیوی۔ کیا باغ و بہار سا بھائی چٹکی بجاتے میں کھرے کی طرح بے رحم اور بے مروت ہوگیا! دنیا اجاڑ ہوگئی۔ اپنے پاؤں آپ کلہاری ماری۔ گوری بیگم سے شادی کرادی ہوتی تو یوں بھیا صاحب القط نہ ہوجاتے
’’اے بھابی بھیا کو آنچل میں کب تک باندھے رکھو گی؟ مرد ذات ہے کوئی جھنڈلنا نہیں کہ ہر دم کولہے سے لگائے بیٹھی ہیں۔‘‘
لاکھ طعنے دیے جاتے، دلہن بیگم ہیں کہ کھی کھی ہنس رہی ہیں اور میاں کاٹھ کے الو گھگھیائے جاتے ہیں۔ اپنی جورو ہے کوئی پڑوسی کی نہیں کہ بس تکے جارہے ہیں بجربٹو کی طرح۔۔
ماموں وہ ماموں ہی نہ رہے۔ اجی کیسی قوالیاں اور کیسے مجرے، بس بیوی تگنی کا ناچ نچا رہی ہے، آپ ناچ رہے ہیں۔۔
’’اے بس، اور تھوڑے دن کے چونچلے ہیں، پیر بھاری ہوا نہیں کہ سارا دلہناپا ختم۔۔ ایک نہ ایک دن تو بھائی کا جی بھرے گا؟‘‘ دلوں کو تسلی دی گئی۔۔۔
اللہ اللہ کرکے رخسانہ ممانی کا پیر بھاری ہوا تو اللہ توبہ! نہ الٹیاں نہ طبیعت ماندی۔۔ چہرے پہ اور چار چاند کھل اٹھے، کیا مجال جو ذرا سی آلکس آ جائے۔ وہی شوخیاں، وہی اندازِ معشوقانہ جو نئی دلہنوں کے ہوا کرتے ہیں۔ اور ماموں کا تو بس نہیں چلتا، انہیں اٹھا کر پلکوں میں چھپا لیں۔ دل نکال کے قدموں میں ڈالے دیتے ہیں۔ جی سے اترنے کے بجائے وہ تو دماغ پر بھی چھا گئیں۔
پورے دنوں میں بھی رخسانہ ممانی کے حسن کو گہن نہ لگا۔ جسم پھیل گیا مگر چاند دمکتا رہا۔ نہ پیروں پر سوجن، نہ آنکھوں کے گرد حلقے، نہ چلنے پھرنے میں کوئی تکلیف۔
جاپے کے بعد چٹ سے کھڑی ہوگئیں۔ کیا مجال جو کمر برابر بھی موٹی ہوئی، وہی کنواریوں جیسا لچک دار جسم، بھلی بیوی کے جاپے میں بال جھڑ جاتے ہیں، ان کے وہ ادبدا کے بڑھے کہ خود سر دھونا دشوار ہو گیا۔
ہاں بیوی کے بدلے ذرا ماموں جھٹک گئے، جیسے بچہ انہوں نے ہی پیدا کیا ہو۔ تھوڑی سی توند ڈھلک آئی۔ گالوں میں لمبی لمبی قاشیں گہری ہوگئیں، بال پہلے سے زیادہ سفید ہوگئے۔ اگر داڑھی نہ بنی ہوتی تو گالوں پر چیونٹی کے سفید سفید انڈے پھوٹ آتے۔
جب دو سال بعد بیٹی ہوئی تو ماموں کی توند اور آگے کھسک آئی۔ آنکھوں کے نیچے کھال لٹکنے لگی۔ نچلی ڈاڑھ کا درد قابو سے باہر ہوگیا تو مجبوراً نکلوانا پڑی۔ ایک اینٹ کھسکی تو ساری عمارت کی چولیں ڈھیلی ہوگئیں۔ان دنوں ممانی کی عقل داڑھ نکل رہی تھی۔شجاعت مموں کی بتیسی اصلی دانتوں سے زیادہ حسین تھی۔ عمر کا الزام نزلہ کے سر گیا۔
امتیازی پھپو کے حساب سے رخسانہ ممانی چھبیس برس کی تھیں۔ گو اب وہ کبھی بچوں کے ساتھ دھماچوکڑی مچانے کے موڈ میں آجاتی تو سولہ برس کی لگنے لگتیں۔ کئی سال سے عمر کا بڑھنا رک گیا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا ان کی عمر اڑیل ٹٹو کی طرح ایک جگہ جم گئی ہے اور آگے کھسکنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ نندوں کے دل پر آرے چلتے۔ ویسے بھی جب اپنے ہاتھ پیر تھکنے لگیں تو نوجوانوں کی شوخیاں، منہ زور گھورے کی دولتی کی طرح کلیجے میں لگتی ہیں۔ اور ممانی تو صاف امانت میں خیانت کر رہی تھیں۔ شرافت اور بھل ملنساہٹ کا تو یہ تقاضا تھا کہ وہ شوہر کو اپنا خدائے مجازی سمجھتیں۔ اچھے برے میں ان کا ساتھ دیتیں۔ یہ نہیں کہ وہ تھکے ماندے بیٹھے ہیں اور بیگم بے تحاشا مرغیوں کے پیچھے دوڑ رہی ہیں۔
’’ارے بھابی، تم پر خدا کی سور، نہ سر کی خبر ہے نہ پیر کی، ہڑونگی بنی مرغیاں کھدیڑ رہی ہو!‘‘
’’اے تو کیا کروں خالہ، موئی بلی۔۔۔‘‘
’’اوئی، لو اور سنو اے بی میں تمہاری خالہ کب سے ہوگئی؟ شجن بھائی مجھ سے چار سال بڑے ہیں ماشاء اللہ۔۔۔ بڑا بھائی باپ برابر۔۔۔ تم بھی میری بڑی ہو، خبردار جو تم نے پھر مجھے خالہ کہا۔‘‘
’’جی بہت اچھا۔۔۔‘‘ شادی سے پہلے رخسانہ ممانی کی اماں ان کی دوپٹہ بدل بہن کہلاتی تھیں۔
وہی حسن اور کم سنی، جس نے ایک دن شجاعت ماموں کو غلام بنالیا تھا، اب ان کی آنکھوں میں کھٹکنے لگی۔ لنگڑا بچہ جب دوسرے بچوں کے ساتھ نہیں دوڑ پاتا تو چڑھ کر مچل جاتا ہے کہ تم بے ایمانی کر رہے ہو۔ ممانی ان کے ساتھ دغا کر رہی تھیں۔ کبھی کبھی تو انہیں لڑکیوں بالیوں کی طرح ہنستا یا دوڑتے بھاگتے دیکھ کر ان کے دل میں ٹیسیں اٹھنے لگتیں، وہ جل کر کوئلہ ہوجاتے۔
’’لونڈوں کو لبھانے کے لیے کیا تن تن کے چلتی ہو‘‘، وہ زہر الگنے لگے۔ ’’ہاں اب کوئی جوان پٹھا ڈھونڈ لو۔‘‘
ممانی پہلے تو ہنس کر ٹال دیتیں، پھر جھینپ کر گلنار ہوجاتیں۔ اس پر ماموں اور بھی چراغ پا ہوتے اور بھاری بھاری الزام لگاتے۔
’’فلاں سے آنکھیں لڑا رہی تھیں، ڈھماکے سے تمہارا تعلق ہے؟‘‘
تب ممانی سناٹے میں رہ جاتیں۔ موٹے موٹے آنسو چھلک اٹھتے الگی سے دوپٹہ گھسیٹ کر وہ اپنا جسم ڈھک کر سرجھکائے کمرے میں چلی جاتیں۔ ماموں کا کلیجہ کٹ جاتا، ان کے پیروں تلے سے زمین کھسک جاتی وہ ان کے تلوے چومتے، ان کے قدموں میں سر پھوڑتے، ان کے آگے ناک رگڑتے، رونے لگتے۔ ’’میں کمینہ ہوں، حرام زادہ ہوں، جوتی لے کر جتنے چاہو مارو۔ میری جان، میری رخی، میری ملکہ، شہزادی۔‘‘
اور رخسانہ ممانی اپنی روپہلی بانہیں ان کے گلے میں ڈال کر بھوں بھوں روتیں۔
’’تمہارا عاشقِ زار ہوں میری جان۔ رشک و حسد سے جل جل کر خاک ہوا جاتا ہوں۔ تم تو ننھے کو گود میں لیتی ہو تو میرا خون کھولنے لگتا ہے، جی چاہتا ہے سالے کا گلا گھونٹ دوں، مجھے معاف کردو میری جان۔‘‘ وہ چھٹ معاف کردیتیں۔ اتنا معاف کرتیں کہ شجاعت ماموں کی آنکھوں کے حلقے اور اودے ہوجاتے، اور وہ بڑی دیر تک تھکے ہوئے خچر کی طرح ہانپا کرتے۔
پھر ایسے بھی دن آگئے کہ وہ معافی بھی نہ مانگ سکے۔ کئی کئی دن وہ روٹھے پڑے رہتے۔ بہنوں کی امیدیں بندھ جاتیں۔
’’بھیا جان بھابی کو کڑھا کڑھا کر مار رہے ہیں۔ اب کوئی دن جاتا ہے کہ یہ آئے دن کی دانتا کل کل رنگ لائے گی۔‘‘
ممانی چھپ چھپ کر گھنٹوں روتیں۔ آنسو بھری آنکھوں میں لال لال ڈورے اور بھی ستم ڈھانے لگتے۔ ستا ہوا زرد چہرہ جیسے سونے کی گنی میں کسی بے ایمان سنار نے چاندی کی ملاوٹ بڑھادی ہو۔ پھیکے پھیکے ہونٹ ماتھے پر الجھی سی ایک وارفتہ لٹ۔ دیکھنے والے کلیجہ تھام کر رہ جاتے۔ حسن ِسوگوار کو دیکھ کر ماموں کے کندھے اور جھک جاتے، آنکھوں کی ویرانی بڑھ جاتی۔
ایک بیل ہوتی ہے۔۔۔ امر بیل۔ ہرے ہرے سنپولیے جیسے ڈنٹھل۔۔۔ جڑ نہیں ہوتی۔۔۔ یہ ہرے ڈنٹھل کسی بھی سر سبز پیڑ پر ڈال دیے جائیں تو بیل اس کا رس چوس کر پھلتی پھولتی ہے۔ جتنی یہ بیل پھیلتی ہے اتنا ہی وہ پیڑ سوکھتا جاتا ہے۔
جوں جوں رخسانہ بیگم کے چمن کھلتے جاتے تھے ماموں سوکھتے جاتے تھے۔ بہنیں سرجوڑ کر کھسر پھسر کرتیں۔ بھائی کی دن بدن گرتی ہوئی صحت کو دیکھ کر ان کا کلیجہ منہ کو آتا تھا۔ بالکل جھرکٹ ہوگئے تھے۔ گٹھیا کی شکایت تو تھی ہی، نزلہ الگ عذاب جان ہوگیا۔ ڈاکٹروں نے کہا خضاب قطعی موافق نہیں۔ مجبوراً مہندی لگانے لگے۔
بے چاری رخسانہ ایک ایک سے بال سفید کرنے کے نسخے پوچھتی پھرتی تھیں۔ کسی نے کہا اگر خوش بودار تیل ڈالو تو بال جلدی سفید ہوجائیں گے۔ دکھیا نے عطر سر میں جھونک لیا۔ ماموں کی ناک میں جو شمامت العنبر کی مدہوش کن خوشبو کی لپٹیں پہنچیں تو وہ غلیظ عیب انہوں نےممانی پر لگائے کہ اگر بچوں کا خیال نہ ہوتا تو ممانی کنویں میں کود جاتیں، ان کے بال سفید ہونےکی بجائے اور ملائم اور چمکدار ہو کر ڈسنے لگے۔
ممانی کی جوانی کے توڑ کے لیے ماموں نے طب یونانی کی تمام معجونیں، مقویات، کشتے اور تیل استعمال کر ڈالے۔ تھوڑے دن کے لیے ان کی بھاگتی ہوئی جوانی تھم گئی۔ بانکپن لوٹ آیا۔ ممانی نے کچھ دنیاداری کے داؤپیچ تو سیکھے نہ تھے، خود رو پودا تھیں۔۔۔ کبھی کسی نے باریکیاں نہ سمجھائیں۔ اٹھائیس سال کی تھیں مگر اٹھارہ برس جیسی ناتجربہ کار اور الھڑپن تھا۔
موٹر بہت چلاؤ تو انجن جل جاتا ہے دواؤں کا ردعمل جو شروع ہوا تو شجاعت ماموں ڈھے گئے۔ ایک دم بڑھاپا ٹوٹ پرا۔ اگر وہ جسم اور دماغ کو اتنا نہ تکتکاتے تو باسٹھ برس میں یوں لٹیا نہ ڈوب جاتی۔اب وہ اپنی عمر سے زیادہ لگنے لگے۔
بہنیں زاروقطار روئیں، حکیم ڈاکٹر جواب دے چکے تھے لوگوں نے جوان بننے کے تو لاکھوں نسخے ایجاد کیے قبل از وقت بوڑھا ہونے کی کوئی دوا نہیں، جو ممانی کو کھلادی جاتی۔ ضرور ان پر کوئی سدا بہار قسم کا جن یا پیر مردعاشق تھا کہ کسی طور سے ان کی جوانی ڈھلنے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ تعویذ گنڈے ہار گئے، ٹونے ٹوٹکے چت ہوگئے۔
امر بیل پھیلتی رہی۔
برگد کا پیڑ سوکھتا رہا۔
تصویر ہو تو کوئی پھاڑ دے، مجسمہ ہو تو پٹخ کر چکناچور کردے۔ اللہ کے ہاتھوں کا بنایا مٹی کا پتلا، اگر حسین بھی ہو اور زندہ بھی، اس کی ہر سانس میں جوانی کی گرمی مہک رہی ہو تو پھر کچھ بس نہیں چلتا۔ اس کے چڑھے ہوئے سورج کو اتارنے کی ایک ہی ترکیب ہوسکتی ہے کہ کھانے کی ماردی جائے۔ گھی، گوشت، انڈے، دودھ قطعی بند۔ جب سے شجاعت ماموں کا ہاضمہ جواب دے گیا تھا، ممانی صرف بچوں کے لیے گوشت وغیرہ منگاتی تھیں۔ کبھی کبھار ایک نوالہ خود چکھ لیتی تھیں، اب اس سے بھی پرہیز کرلیا۔ سب کو امید بندھ گئی کہ اب انشاء اللہ ضرور بڑھاپا تشریف لے آئے گا۔
’’اے بھابی یہ کیا اچھال چھکا لونڈیوں کی طرح موئی شلوار قمیض پہنتی ہو، اور بھی ننھی بنی جاتی ہو‘‘، نند کہتیں۔۔۔ ’’بھاری بھرکم کپڑے پہنو کہ اپنی عمر کی لگو۔‘‘
ممانی نے ٹکا ہوا دوپٹہ اور غرارہ پہن لیا۔
’’کسی یار کی بغل میں جانے کی تیاری ہے‘‘، ماموں نے کچوکے دیے، ممانی کپڑوں سے بھی خوف کھانے لگیں۔
’’اے بھی یہ کیا ایک آدھ وقت کی نماز پڑھتی ہو، پنج وقتہ کی عادت ڈالو۔‘‘
ممانی پنج وقتہ نماز پڑھنے لگیں۔ جب سے ماموں کی نیند بوڑھی اور نخریلی ہوئی تھی، تہجد کے وقت سے جاگنا پڑتا تھا۔
’’میرے مرنے کے نفل پڑھ رہی ہو‘‘، ماموں بسورے۔
دبلی تو تھیں، دن رات کی دانتا کل کل سے اور بھی دھان پان ہوگئیں۔ گھی گوشت سے پرہیز ہوا تو رنگ اور بھی نکھر آیا، جلد ایسی شفاف ہوگئی کہ جیسے کوئی دم میں بلور کی طرح آر پار نظر آنے لگے گا۔ چہرے پر عجب نور سا اتر آیا۔ پہلے دیکھنے والوں کی رال ٹپکتی تھی، اب ان کے قدموں پر سرپٹخنے کی تمنا جاگنے لگی۔ جب صبح سویرے نماز فجر کے بعد قرآن کی تلاوت کرتیں تو ان کے چہرے پر حضرت مریم کا تقدس اور فاطمہ زہرہ کی پاکیزگی طاری ہوجاتی۔ وہ اور بھی کم سن اور کنواری لگنے لگتیں۔
ماموں کی قبر اور پاس کھسک آتی، اور وہ انہیں منہ بھر بھر کے کوستے اور گالیاں دیتے کہ بھانجوں بھتیجوں کے بعد وہ جنوں اور فرشتوں کو ورغلا رہی ہیں، چلے کھینچ کھینچ کر جن قابو میں کرلیے ہیں، ان سے جادو کی بوٹیاں منگاکر کھاتی ہیں۔
خضاب کے بعد اب مہندی بھی ماموں کو آنکھیں دکھانے لگی تھی مہندی لگاتے تو چھینکیں آکر نزلہ ہوجاتا۔ ویسے بھی انہیں مہندی سے گھن آنے لگتی تھی۔ رخسانہ ممانی ان کے بالوں میں مہندی لگاتیں تو باوجود احتیاط کے ان ہاتھوں میں بھی شمعیں لو دینے لگتیں۔ ان کے ہاتھ دیکھ کر شجاعت ماموں کو ایسا معلوم ہوتا جیسے مہندی میں نہیں ممانی نے ان کے خون دل میں ہاتھ ڈبولیے ہیں۔ وہی ہاتھ جنہیں وہ کبھی چنبیلی کی منہ بند کلیاں کہہ کر چوما کرتے تھے، آنکھوں سے لگاتے تھے، اب شکرے کے خوں خوار پنجوں کی طرح ان کی آنکھوں میں گھسے جاتے تھے۔
جتنا جتان وہ ان کی منڈیا زمین پر گھستے، ممانی صندل کی طرح مہکتیں۔
بہنیں گھر سے ترمال تیار کرکے بھائی کو کھلانے لاتیں کہ کہیں بھاوج زہر نہ کھلارہی ہو۔ اپنے ہاتھ سے سامنے کھلاتیں۔ مگر ان کھانوں سے ماموں کا حال اور پتلا ہو جاتا۔ بواسیر کی پرانی شکایت نے وہ زور پکڑا کہ رہا سہا خون بھی نچوڑ لیا۔ ابھی تک اس نامراد کشتے کا اثر باقی تھی، جو انہوں نے پچھلے جاڑوں میں مرادآباد کے ایک نامی گرامی حکیم صاحب کا نسخْہ لے کر کئی سو کی لاگت سے تیار کرایا تھا۔ نسخہ بے حد شاہی قسم کا تھا جسے مردہ کھالیتا تو تنتنا کر کھڑا ہوجاتا۔ مگر ماموں گوندنی کی طرح پھوڑوں سے لد گئے۔
دکھیا ممانی گھی کو سینکڑوں بار پانی سے دھوتیں۔ اس میں گندھک اور بہت سی دوائیں کوٹ چھان کر ملاتیں۔ دھڑیوں مرہم تھوپا جاتا، پتیلیوں میں نیم کے پتوں کا پانی اوٹاتیں اور صبح شام پیپ، خون دھوتیں، ان میں سے چند پھوڑے مستقل ناسور بن گئے تھے اور ماموں کو نگل رہے تھے۔
پھر ایک تو اندھیر ہی ہوگیا۔ ماموں بہت کمزور ہوگئے تھے۔ بہنیں بیٹھی بھاوج کا دکھڑا رو رہی تھیں کہ نجی بڑھیا خدا جانے کہاں سے آن مری۔ پہلے تو وہ شجاعت ماموں کو نانا جان سمجھ کر ان سے فلرٹ کرنے لگی۔ کسی زمانے میں نانا جان اس پر بہت مہربان رہ چکے تھے۔ بڑھیا نامراد کی مت ماری گئی تھی۔ نانا جان کو مرے بیس برس ہوچکے تھے۔ اور وہ اپنی چپیڑ بھری آنکھوں میں پرانے خواب جگانے پر مصر تھی، بڑی لے دے کے بعد وہ ماموں کا اصلی مقام سمجھی تو مرحومہ ممانی کا ماتم لے بیٹھے۔
’’ہے ہے۔ کیا بڑھاپے میں دغا دے گئیں۔‘‘ اچانک اس کی نظر ممانی پر جاپڑی۔ ممانی صحن میں کبوتروں کو دانہ ڈال رہی تھیں۔ عجب پیارے انداز میں وہ گردن نیوڑہائے بیٹھی تھیں، جیسے تصویر کھنچوارہی ہوں۔ کبوتر ان کی بلوریں دمکتی ہوئی ہتھیلی کو گدگدا رہے تھے۔ اور وہ بے اختیار ہنس رہی تھیں۔
’’ہائے میں مرگئی!‘‘ بڑھیا نے اپنا چپاتی جیسا سینہ کوٹ کر رخسانہ ممانی کی طرف ہوا میں بلائیں لے کر کنپٹیوں پر دسوں انگلیاں چڑ چڑ چٹخائیں، ’’اللہ پاک نظر بد سے بچائے۔ بیٹا تو چاند کا ٹکڑا ہے! میں جانوں میٹھا برس لگا ہے۔‘‘ اے میاں، وہ رازداری کے انداز میں ماموں کے قریب کھسکی، ’’سوداگروں کا منجھلا بیٹا ولایت پاس کرکے آیا ہے۔ اللہ قسم بس چاند اور سورج کی جوڑی رہے گی۔‘‘
کسی زمانے میں بڑھیا بڑے معرکے کی مشاطہ تھی، اب اس کا بازار بند ہوچکا تھا۔ چونڈا سفید ہوا، ہاتھ پیر سے معذور ہوئی تو ٹکڑے مانگ کر گزر اوقات کرنے لگی تھی۔
تھوڑی دیر تک تو کسی کی سمجھ ہی میں نہ آیا کہ بڑھیا مردار کیا بک رہی ہے۔ سوداگروں کا منجھلا بیٹا جو ولایت پاس تھا سب کی نگاہوں میں تھا۔ کسی کو شبہ بھی نہ ہوا کہ ناشدنی قطامہ رخسانہ ممانی کا رشتہ لگانے کی تاک میں ہے۔
’’امام حسین کی قسم، میاں میں تو کنگنوں کی جوڑی لوں گی۔ بات چھیڑوں؟‘‘
بات جو واضح ہوئی اور پانی مرا تو بھڑوں کا چھتہ چھڑگیا۔ چاروں طرف سے توپیں دغنے لگیں۔
’’ہے ہے مجھ جنم پیٹی کو کیا خبر؟‘‘ بڑھیا سلیپر پہنتی رپٹی، باہر کی طرف چلتے چلتے اس نے ماموں کی پٹی ہوئی صورت پر ایک مشتبہ نظر ڈالی، ’’منہ پر تو صاف کنوار پنا برس رہا ہے۔‘‘
اس دن شجاعت ماموں نے قرآن اٹھاکر سب کے سامنے کہہ دیا کہ یہ دونوں بچے ان کے نہیں، اڑوس پڑوس کی مہربانیوں کا پھل ہیں جن سے رخسانہ بیگم تاک جھانک کیا کرتی ہیں۔
اس رات وہ روتے رہے، کراہتے رہے، انگاروں پر لوٹتے رہے اس رات انہیں بڑی ممانی بہت یاد آئیں، ان کے بال قبل از وقت پک گئے تھے، ان کی جوانی، انکا دلہنا پاآنسوؤں میں بہہ گیا۔ میں اور پارسائی کامجسمہ، وفا کی پتلی۔۔۔ ان کے حصے کا بڑھاپا بھی انہوں نے اپنے وجود میں سمیٹ لیا، اور شریف بیویوں کی طرح جنت کو سدھاریں۔ آج وہ ہوتیں تو یہ درد، یہ سوزش یہ سفید جڑوں والے مہندی لگے بال یہ رستے ناسور، یہ تنہائی بٹ جاتی۔ پھر بڑھاپا یوں نہ دہلاتا۔ دونوں ساتھ بڑھوے ہوتے، ایک دوسرے کے دکھ کو سمجھتے، سہارا دیتے۔
امر بیل دن دونی رات چوگنی پھیلتی گئی۔ بڑ کے پیڑ کا تنا کھوکھلا ہوگیا، ٹہنیاں جھول گئیں، پٹے جھڑ گئے۔۔۔ بیل پاس کے دوسرے ہرے بھرے پیڑ پر رینگ گئی۔
کیسا جاں سوز سماں تھا۔ شجاعت ماموں کی میت صحن میں بنی سنوری رکھی ہوئی تھی، بہنیں کھڑی پڑی پچھاڑیں کھا رہی تھیں۔ ماموں نے اپنی ساری جائیداد بہنوں کے نام حبہ کردی تھی۔
رخسانہ ممانی سب سے الگ تھلک درسے لگی بیٹھی تھیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اتنی حسین اور سوگوار بیوہ زندگی میں کبھی نہیں دیکھی۔ سفید کپڑوں میں وہ عجیب پراسرار خواب لگ رہی تھیں۔ رو رو کر آنکھیں مخمور اور بوجھل ہو رہی تھیں۔ زرد چہرہ پکھراج کے نگینے کی طرح دمک رہا تھا۔ پر سے کو آنے والے سب کچھ بھول کر بس انہیں تکتے رہ جاتے۔ انہیں مرحوم کی خوش نصیبی پر رشک آرہا تھا۔
ممانی پر بے پناہ بے بسی اور افسردگی چھائی ہوئی تھی۔ خوف اور سراسیمگی سے ان کا چہرہ اور بھی بھولا لگ رہا تھا۔ دونوں بچے ان کے پہلو سے لگے بیٹھے تھے۔ وہ ان کی بڑی بہن لگ رہی تھیں۔
وہ گم صم بیٹھی تھیں، جیسے قدرت کے سب سے مشاق فنکار نے اپنے بے مثل قلم سے کوئی شاہکار بنا کر سجا دیا ہو۔