میری پانچ سالہ بیٹی ’مُنّی‘ بہت باتونی ہے، اس کا بس چلے تو سارا دن باتیں ہی کرتی رہے۔ پیدائش کے بعد اسے گفتگو کا فن سیکھنے میں بس ایک سال ہی لگا ہوگا۔ اس کے بعد سے اس نے اپنی جاگتی زندگی کا ایک لمحہ بھی خاموشی میں ضائع نہیں کیا۔ اس کی ماں اسے اکثر زیادہ بولنے پر ڈانٹتی ہے، لیکن میں ایسا نہیں کر سکتا۔ اس کی ایک پل کی خاموشی بھی اتنی عجیب اور غیر معمولی معلوم ہوتی ہے کہ مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مُنّی سے میری گفتگو اتنی والہانہ ہوتی ہے۔۔
ایک صبح جب میں نے اپنے ناول کا سترہواں باب ابھی شروع ہی کیا تھا، تو منی میرے کمرے میں داخل ہوئی، اور بولی ’’بابا، ہمارے سنتری رام دیال سے تو لفظ ’کوا‘ بھی ادا نہیں ہوتا، وہ اتنا پھسڈی ہے۔‘‘
اس سے پہلے کہ میں اسے مختلف زبانوں میں تلفظ کے متعلق کچھ بتا سکتا، وہ کسی اور موضوع پر شروع ہو چکی تھی ’’بابا، بھولا کہہ رہا تھا کہ جب ہاتھی سونڈ میں پانی بھر کے، آسمان سے چھڑکاؤ کرتے ہیں، تب ہی بارش ہوتی ہے۔ باپ رے باپ، بھولا بھی کتنی بے وقوفی کی باتیں کرتا ہے۔۔ وہ سارا دن ایسے ہی بیکار اور فضول باتیں کرتا ہے۔‘‘
میرے جواب کا انتظار کیے بغیر ہی اس نے اچانک اگلا سوال کردیا ’’بابا، یہ مم آپ کی کون ہیں؟‘‘
’سالی‘ میں نے دل میں سوچا۔۔ لیکن مزید پیچیدہ سوالات سے بچنے کے لیے منی کو میرا جواب یہ تھا ’’تم جاکر بھولا سے کھیلو، مجھے کچھ کام کرنا ہے۔‘‘ یہ سن کر وہ دھم سے وہیں میرے قدموں کے پاس بیٹھ گئی، اور ایک نرسری کی نظم گاتے ہوئے اپنے ہاتھوں اور گٹھنوں سے تال دینے لگی۔ میرے ناول کے سترہویں باب میں عین اس وقت پرتاپ سنگھ ایک قید خانے کی اونچی بالکونی سے کنچن مالا کے ساتھ رات کی تاریکی میں، نیچے دریا میں کودنے والا تھا!
یک لخت اپنا کھیل بند کرکے، منی دوڑتی ہوئی اس کھڑکی کی طرف لپکی، جو باہر بڑی سڑک کی جانب کھلتی تھی اور چیخ کر پکارنے لگی ’’کابلی والا، کابلی والا۔۔‘‘
ذرا بوسیدہ سا لباس پہنے، ایک دراز قد افغان خوانچہ فروش، سر پہ پگڑی، پشت پر ایک تھیلا لادے، اپنے ہاتھوں میں خشک خوبانیوں کے چند ڈبے لیے آہستہ خرام سڑک سے گزر رہا تھا۔ مجھے نہیں معلوم اسے دیکھ کر میری بیٹی کے ذہن میں کیا خیال جاگا، لیکن اس پر نظر پڑتے ہی وہ اسے پکارنے لگی۔ میں نے سوچا اب یہ شخص اپنے کندھے پر تھیلا لادے یہاں مخل ہوگا، اور میں اپنی ناول کا سترھواں باب مکمل نہیں کر سکوں گا۔۔
جیسے ہی کابلی والا منی کی چیخ و پکار سن کر مڑا اور مسکرایا، اور اس کے قدم ہمارے دروازے کی سمت بڑھنے لگے، منی بھاگ کے گھر کے اندر چھپ گئی اور اب کہیں نظر نہیں آتی تھی۔ اس کے ذہن میں یہ بچکانہ سا خوف بیٹھا ہوا تھا کہ اگر کوئی جھانک کر اس افغان کے تھیلے میں دیکھے، تو وہاں منی جیسے کئی بچے، زندہ بیٹھے ملیں گے۔ اسی دوران کابلی والا احاطہ عبور کر کے دروازے کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا اور اس نے مسکرا کے سلام کیا۔ میں نے سوچا، گو اس وقت میری ناول کے کردار پرتاپ سنگھ اور کنچن مالا بہت مشکل حالات سے دوچار ہیں، لیکن یہ بات بھی انسانیت کے خلاف ہے کہ اس آدمی کو آواز دے کر گھر بلائیں لیکن پھر اس سے کچھ نہ خریدیں
میں نے اس سے کچھ چیزیں خریدیں، اور جلد ہی اپنے آپ کو اس سے بے ربط، غیر متعلقہ موضوعات پر محو گفتگو پایا۔ مثلاٌ عبدالرحمٰن امیرِ افغانستان، روسیوں کی سرحدی پالیسی اور گورے برطانوی۔۔ آخر جب وہ گھر سے چلنے لگا تو اس نے پوچھا: ’’صاحب، وہ آپ کی چھوٹی بیٹی کہاں ہے؟‘‘
منی کے بے بنیاد خوف کو رفع کرنے کی خاطر میں نے اسے گھر کے اندر سے بلوایا۔ وہ آ کر گھبرائی سی میرے جسم سے چپک کر کھڑی ہو گئی، اور کابلی والے اور اس کے تھیلے کو مشکوک نظروں سے دیکھنے لگی۔ کابلی والے نے تھیلے میں سے کچھ کشمش اور خوبانیاں نکال کر منی کو پیش کیں، جو اس نے قبول نہ کیں بلکہ مزید تشکک کے ساتھ میرے گھٹنوں سے چمٹ گئی۔ یہ ان کی پہلی ملاقات تھی۔
کچھ دنوں کے بعد میں کسی اہم کام سے اپنے گھر سے نکل رہا تھا،جب میں نے اپنی ننھی سی بیٹی کو دروازے کے پاس ایک ایک بنچ پر بیٹھے بلا تکان کابلی والا سے گفتگو کرتے دیکھا، جو اس کے قدموں میں بیٹھا دلچسپی سے اس کی گفتگو سن رہا تھا۔ کبھی کبھار دورانِ گفتگو وہ اپنی ٹوٹی پھوٹی بنگالی میں اپنی رائے بھی دے دیتا۔اپنی پانچ سالہ مختصر زندگی میں منی کو اپنے باپ کے علاوہ اتنا اچھا سامع پہلے کبھی نہیں ملا تھا۔ میں نے دیکھا کہ اس کی ساری کے پلو سے بہت سی کشمش اور دوسرے ڈرائی فروٹ بندھے تھے۔ یہ دیکھ کر میں نے کابلی والا سے کہا ’’تم نے یہ اسے کیوں دیے، براہِ مہربانی آئندہ مت دینا‘‘ یہ کہہ کر میں نے جیب سے آدھے روپیہ کا سکہ نکالا اور اسے دے دیا۔ کابلی والا نے بغیر ہچکچاہٹ وہ سکہ لے کر اپنے تھیلے میں ڈال لیا
گھر واپس لوٹا تو پتہ چلا کہ اس سکہ پر ایک بھرپور جنگ چھڑ چکی ہے۔۔ سفید، چمکیلا، دھات کا سکہ ہتھیلی پر رکھے منی کی ماں اس سے باز پرس کر رہی تھی کہ ”یہ تمہارے پاس کہاں سے آیا؟“
’’یہ کابلی والا نے مجھے دیا ہے‘‘ منی نے جواب دیا
’’تم نے اس سے لیا ہی کیوں؟‘‘ اس کی ماں نے ڈانٹا
’’میں نے اس سے مانگا نہیں تھا، اس نے خود ہی دے دیا‘‘ منی منہ بسورنے لگی
میں نے آگے بڑھ کر بیچ بچاؤ کرایا اور منی کو گھمانے باہر لے گیا۔
معلوم ہوا کہ یہ منی کی کابلی والا سے محض دوسری ملاقات نہیں ہے۔ بلکہ وہ تقریباٌ روز ہی منی کے پاس رکتا ہے، اور اس نے ڈرائی فروٹ کے تحفوں سے اس بچی کے دل میں گھر کر لیا ہے۔ اب دونوں دوستوں کے درمیاں چند مزاحیہ فقروں اور لطائف کا ایک سلسلہ بندھ گیا تھا، جو ہر ملاقات پر دہرایا جاتا۔ مثلاً جیسے ہی وہ رحمت کو دیکھتی، قہقہ مار کے پوچھتی: ’’کابلی والا، کابلی والا تمہارے تھیلے میں کیا ہے؟‘‘
وہ جان بوجھ کر ایسے جواب دیتا، جیسے الفاظ اس کی ناک سے نکل رہے ہوں۔ وہ جواب دیتا ’’ہانتھی‘‘ْ اس مذاق کا لب لباب یہ تھا کہ گویا اس کے تھیلے میں ہاتھی بند ہے۔ لطیفہ تو خیر ایسا پر لطف نہیں تھا لیکن اس سے وہ دونوں دوست ہنس ہنس کر دہرے ہو جاتے۔ اور اس ننھی بچی اور بڑی عمر کے آدمی کر درمیان ، خزاں کی ان صبحوں میں یہ معصومانہ مسرت مجھے بہت متاثر کرتی۔
جب بھی وہ ملتے، تو ان کے درمیان ایک اور مذاق جو ہوتا، وہ یوں تھا کہ رحمت اپنے بھاری لہجے میں کہتا ’’بچی، تم کبھی اپنے سسرالیوں کے پاس مت جانا۔‘‘
بنگالی لڑکیاں تقریباٌ پیدائش ہی سے لفظ سسرال سے مانوس ہوتی ہیں۔ لیکن ذرا ترقی یافتہ ہونے کے سبب ہم نے اپنی بچی کے دماغ پر، اس کم عمری میں ہی ان بھاری سوچوں کا بوجھ نہیں ڈالا تھا۔ اس لیے رحمت کا یہ مشورہ منی کو کبھی سمجھ نہیں آتا تھا۔ لیکن کسی بات پر خاموش رہنا اور جواب نہ دینا بھی اس کے مزاج میں شامل نہیں تھا، لہٰذا وہ اس مشورے کو ایک سوال میں ڈھال کر اسی پر لوٹا دیتی:
’’تم جاؤ گے اپنی سسرال؟‘‘
اپنے ہاتھ کا مکا بنا کر رحمت ایسے اداکاری کرتا، جیسے اپنے سسرالیوں کو مار رہا ہو ’’میں تو ان کی خوب پٹائی کروں گا‘‘
وہ نامعلوم ہستی، جسے سسر کہتے ہیں، اس کی درگت بننے کا سوچ کر منی خوب ہنستی۔
ابھی خزاں کی ابتدا تھی، سال کا وہ حصہ، جب پرانے زمانے میں بادشاہ فتوحات پر نکلا کرتے تھے۔۔ بذاتِ خود میں تو کبھی کلکتہ سے بھی باہر نہیں نکلا، لیکن میرا دماغ ہر وقت دنیا بھر کی سیر کرتا رہتا ہے۔ گویا میں اپنے ہی گھر میں مہاجر ہوں، کیوں کہ میرا دماغ دوسری جگہوں کے دورے پر رہتا ہے۔ جیسے ہی میں کسی دوسرے ملک کا نام سنتا ہوں تو فوراٌ میرا دماغ ان مقامات کی سیر کا متمنی ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کسی پردیسی کو دیکھ لوں تو میرے تصور میں دریا کے کنارے، وسط جنگل، ایک تنہا کھڑی جھونپڑی کا نقش ابھر آتا ہے، اور میں ایک خود مختار، شاداں و فرحاں زندگی کے بارے میں سوچنے لگتا ہوں۔ لیکن پھر میں اس قدر سست اور ٹھس ہوں کہ اپنی چھوٹی سی دنیا سے باہر نکلنے کا سوچ کر ہی ہول آنے لگتا ہے۔ اس لیے میں اپنی تحریکِ سفر کی شدت میں کمی کی خاطر، چھوٹے سے کمرے میں ایک میز کے سامنے بیٹھ کر اس کابل کے شہری سے باتیں کرنے لگتا۔ کابلی والا اپنی ٹوٹی پھوٹی بنگالی میں اپنے وطن کی کہانیاں سناتا اور میری نظروں کے سامنے ایک منظر ابھرنے لگتا: دونوں جانب کھڑی ناقابلِ عبور سنگلاخ چٹانوں کے درمیان، سورج کی تمازت سے تپ کر سرخ، گرد آلود گزر گاہ۔۔ اور اس پر چلتے پگڑی دار تاجر اور مسافر، کچھ اونٹوں پر سوار، چند کے ہاتھوں میں بھالے اور کچھ دقیانوسی توڑی دار بندوقیں لیے۔۔
منی کی ماں فطرتاٌ ایک بزدل خاتون ہے۔ جب بھی باہر سڑک سے کوئی آواز ابھرتی تو وہ یہی سوچتی کہ دنیا بھر کے آوارہ اسی کے گھر کا رخ کر رہے ہیں۔ اس دنیا میں اتنے برس گزارنے کے بعد (گو یہ اتنے زیادہ بھی نہیں ہیں) وہ اب بھی اس خوف پر قابو نہیں پاسکی کہ یہ دنیا بہت پر خطر ہے، جیسے چور، ڈاکو، شرابی، سانپ، چیتے، ملیریا، کاکروچ اور گورے سپاہی۔۔
رحمت کابلی والا ، اس کے شکوک سے بالا تر نہیں تھا۔۔ اور وہ مجھے تنگ کرتی رہتی کہ اس پر نگاہ رکھوں۔ میں جب بھی اس کے شکوک کو نظر انداز کرتا تو اس کے پاس چند بہت چبھتے ہوئے سوالات ہوتے ’کیا بچے اغوا نہیں ہوتے؟ کیا افغانستان میں اب بھی غلاموں کی تجارت نہیں ہوتی؟ کیا ایک لمبے تڑنگے افغان کے لیے ایک چھوٹی سی بچی کو اغوا کرلیا ناممکن ہے؟‘
مجھے تسلیم کرنا پڑتا کہ یہ ناممکن نہیں لیکن غیر ممکن ضرور ہے۔ لیکن ہر شخص کا بھروسے کا معیار مختلف ہے۔ تو میری بیوی اس کی طرف سے مشکوک ہی رہی۔ لیکن میں رحمت کو گھر آنے سے بھی نہیں روک سکتا تھا کہ اس نے کوئی غلط کام نہیں کیا تھا۔۔
ہر سال جنوری یا فروری رحمت اپنے گھر والوں سے ملنے وطن واپس جاتا۔ وہ کاروباری سود خور تھا، سو وطن واپسی سے پہلے گاہکوں سے واجبات وصول کرتا۔ وہ رقم کی وصولی کے لیے گھر گھر پھرتا، لیکن پھر بھی منی سے ملنے کا وقت نکال لیتا۔ایسا لگتا تھا، جیسے وہ دونوں کسی شرارت میں شریک ہوں۔ جس روز وہ صبح نہ آ سکتا، شام میں آ جاتا۔ اس لمبے تڑنگے افغان کو شام کے جھٹپٹے میں ڈھیلا ڈھالا لباس پہنے، ایک تھیلا اٹھائے گھر میں بیٹھے دیکھتا تو ایک لمحے کے لیے میرا ذہن خوف سے منجمد ہو جاتا۔ لیکن پھر میں منی کو گھر سے نکل کر ’او کابلی والا، او کابلی والا ‘کہہ کر اس کا استقبال کرتے دیکھتا۔ عمروں کے تفاوت کے باوجود، ان کی مخصوص دل لگی اور معصومانہ قہقہے سنتا تو میرا دل شاد ہو جاتا۔
ایک دن صبح میں اپنے کمرے میں بیٹھا کچھ پروف پڑھ رہا تھا۔ ویسے یہ سردیوں کا اختتام تھا لیکن جاتے جاتے بھی گزشتہ کئی روز سے جاڑے نے پھر زور پکڑ لیا تھا۔درجہِ حرارت نقطہِ انجماد کے پاس ہی منڈلا رہا تھا، سردی ناقابلِ برداشت تھی۔ میں دھوپ کے اس ٹکڑے کا مزا لے رہا تھا جو کھڑکی کے شیشے سے چھن کر میز کے نیچے میرے پاؤں کو سینک رہا تھا۔صبح کے آتھ بجے تھے اور بیشتر سحر خیز صبح کی چہل قدمی ختم کر کے اپنی گردنوں کے گرد اسکارف لپیٹے، گھروں کو واپس لوٹ چکے تھے۔ عین اسی وقت میں نے باہر سڑک پر کچھ شور سنا۔
جھانک کر نیچے دیکھا تو ہمارا رحمت ہتھکڑیاں پہنے، پولیس والوں کی معیّت میں چل رہا تھا، اور محلے کے لڑکوں کی ایک بڑی تعداد ان کے پیچھے چل رہی تھی۔رحمت کے کپڑوں پر خون کے دھبے تھے اور ایک پولیس والے کے ہاتھ میں خون آلود چھری۔ میں نے باہر نکل کر پولیس والوں کو مخاطب کیا اور جاننا چاہا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟
رحمت اور پولیس والوں کے بیان سے میں یہ اخذ کر سکا کہ ہمارے پڑوس میں کسی شخص نے رحمت سے رامپوری شال ادھار لی تھی۔ جب وہ شخص اس بات سے مکر گیا تو ان دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔ اسی گرما گرمی میں رحمت نے چاقو نکال کر اس آدمی کو گھونپ دیا۔ رحمت اس بے ایمان شخص کو کسی اجنبی زبان میں بے تکان مغلظات سنا رہا تھا کہ منی گھر سے بھاگتی ہوئی آئی ’’کابلی والا، کابلی والا۔‘‘
چشمِ زدن میں رحمت کے چہرے پر مسرت بکھر گئی۔ کیوں کہ اس دن اس کے کندھے پر تھیلا نہیں تھا، لہٰذا ان کے درمیان روایتی جملوں کا تبادلہ نہیں ہو سکا، لیکن منی نے سیدھے سبھاؤ اس سے سوال کر لیا ’’کیا تم اپنے سسرال جا رہے ہو؟‘‘
’’بالکل سسرال ہی جا رہا ہوں‘‘ رحمت نے قہقہ مار کے جواب دیا
جب اس نے دیکھا کہ منی کو اس کے جواب میں کوئی مزاح کا پہلو نظر نہیں آیا، تو اس نے اپنی کلائیوں کی طرف اشارہ کر کے، اپنے مخصوص لہجے میں ٹوٹی پھوٹی بنگالی میں کہا ’’میں ان سسرالیوں کی پٹائی کر دیتا، لیکن کیا کروں میرے ہاتھ بندھے ہیں!‘‘
رحمت کو ضرر رساں حملے کے جرم میں کئی سالوں کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ ہم اسے تقریباٌ بھول ہی بیٹھے۔اپنی چہار دیواری کے تحفظ میں روز و شب بتاتے کبھی یہ خیال بھی نہ آیا کہ پہاڑی علاقوں کا وہ آزاد منش آدمی، جیل کی بند دیواروں کے پیچھے کیسے اپنے ماہ و سال بِتا رہا ہوگا۔۔ اور جس طرح منی کے ہرجائی دل نے رنگ بدلا، اس سے تو اس کا باپ بھی شرمندہ ہو گیا۔۔ وہ باآسانی اپنے پرانے دوست کو بھلا کر ایک نیا دوست بنا بیٹھی، ہمارا سائیس ’نبی‘
پھر جیسے وہ بڑی ہوتی گئی، اس نے اپنے تمام بڑی عمر کے مرد دوستوں کی جگہ، ایک ایک کرے اپنی عمر کی لڑکیوں سے دوستی کر لی۔ اب وہ اپنے باپ کی بیٹھک میں بھی کم ہی نظر آتی۔ ایک طرح سے میں اس کی دوستی کھو بیٹھا تھا۔
کئی سال بیت گئے۔ اب پھر خزاں کا موسم تھا۔ منی کے لیے بر منتخب ہو چکا تھا۔پوجا کی چھٹیوں میں اس کی شادی طے ہوئی تھی۔ اس تقریب سے ہمارے گھر کی روشنی اس کے سسرال منتقل ہو جائے گی، ہمیں پیچھے تاریکی میں چھوڑ کر۔۔ بکھری ہوئی دھوپ سے صبح منور تھی۔ اوائل خزاں میں بارش سے دھلا دھلایا سورج نقرئی رنگ ہو رہا تھا۔ اس کی تابانی سے اندرونِ کلکتہ کے پرانے، ٹوٹے پھوٹے اینٹوں کے گھر بھی خوبصورت لگ رہے تھے۔سورج نکلنے کے ساتھ ہی گھر میں شادیانے بجنے لگے تھے۔لگ رہا تھا، جیسے اس موسیقی کا ہر سرُ میری داہنی پسلی سے ایک غنائیہ دھن کی صورت نکل کر، خزاں کی منور کرنوں پر سوار دنیا بھر میں متوقع جدائی کی افسردگی بکھیر رہا تھا۔ آج منی کی شادی تھی۔
گھر میں مہمانوں کی آمد و رفت سے بہت شور شرابا تھا۔صحن میں بانس کے کھمبوں پر شامیانے تانے جا رہے تھے اور ہوادار کمروں میں فانوس کی سریلی جھنکار گونج رہی تھی، غرض اس ہنگامے کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ میں اپنی لائبریری میں بیٹھا شادی کا حساب کتاب دیکھ رہا تھا کہ اچانک رحمت کمرے میں داخل ہوا اور سلام کر کے ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ پہلے تو میں اسے پہچان ہی نہ سکا۔ اس کے ساتھ اس کا تھیلا تھا، نہ ہی اس کے لمبے بال۔۔ اور اس کا جثہ بھی اب وہ نہیں رہا تھا۔ آخر میں نے اسے اس کی مسکراہٹ سے پہچانا
’’کیسے ہو رحمت، کب واپس آئے؟‘‘
’’مجھے جیل سے کل رات ہی رہائی ملی ہے‘‘ اس نے جواب دیا
اس کے الفاظ سے مجھے ایک جھٹکا لگا۔ میں نے کبھی کوئی قاتل نہیں دیکھا تھا، سو اس کا چہرہ دیکھ کر میرے دل کو دھچکہ لگا۔ میری خواہش تھی کہ اس مبارک دن وہ میرے گھر سے فوراٌ چلا جائے
’’آج ہمارے گھر شادی ہے، اور اس وقت میں بہت مصروف ہوں، بہتر ہے کہ اس وقت تم چلے جاؤ‘‘ میں بولا
یہ سن کر وہ جانے لگا۔ مگر جب دروازے تک پہنچا تو غیر یقینی سے مڑا اور جھجک کر بولا ’’کیا میں ایک نظر بچی کو دیکھ سکتا ہوں؟‘‘
شاید اس کے خیال میں منی ابھی تک وہ چھوٹی بچی ہے، اور ماضی کی طرح ویسے ہی گھر سے بھاگتی ہوئی باہر آئے گی، کابلی والا، کابلی والا کہہ کر اس کا استقبال کرے گی۔ان کی خوش کن کھلندڑی دنیا بدلی نہیں تھی، اپنی پرانی دوستی کو یاد کرکے وہ تو انگوروں کا ایک ڈبہ اور ایک پیکٹ کشمش بھی لے آیا تھا۔ جو یقیناٌ اس نے کسی افغان دوست سے ادھار لیا ہوگا، کیوں کہ اس کا اپنا معمول کا تھیلا تو اس کے ساتھ تھا نہیں۔
’’گھر میں تقریب ہو رہی ہے، اس وقت کسی سے ملنا ممکن نہیں‘‘ میں نے ایک بار پھر کہا
وہ کچھ دکھی سا ہو گیا اور مجھ پر نظریں جمائے، کچھ دیرخالی الذہن کھڑا رہا، پھر اچانک خدا حافظ کہہ کر نکل گیا۔ مجھے افسوس ہوا، سوچا آواز دے کر واپس بلالوں، کہ عین اسی وقت میں نے اسے پلٹتے دیکھا۔ میرے نزدیک آ کر وہ بولا ’’یہ انگور اور کشمش میں چھوٹی بچی کے لیے لایا تھا، امید ہے کہ آپ اسے میری طرف سے دے دیں گے۔‘‘
میں نے پھل اس کے ہاتھ سے لے کر چاہا کہ اسے کچھ پیسے دے دوں، مگر اس نے میرا ہاتھ تھام لیا اور بولا ’’آپ یقیناٌ ایک سخی آدمی ہیں جناب۔۔ اور میں آپ کی مہربانی کو کبھی فراموش نہیں کروں گا۔۔ لیکن مہربانی کر کے ان پھلوں کے دام مت دیجیے۔۔ بالکل جیسے آپ کی بیٹی ہے، ایسے ہی میری بھی ایک بیٹی ہے۔۔ اس کی یاد آئی تو میں آپ کی بیٹی کے لیے یہ تحفہ لے آیا۔ میں یہاں کوئی سودا بیچنے نہیں آیا تھا۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے اپنی بڑی ڈھیلی قمیض میں ہاتھ ڈالا اور سینے کے پاس کہیں سے ایک کثیف کاغذ کا ٹکڑا نکالا اور اسے احتیاط سے کھول کر اس نے کاغذ میز پر رکھ دیا۔
میں نے اس پر ایک بہت چھوٹے سے ہاتھ کا نقش بنا دیکھا۔ کوئی تصویر یا پینٹنگ نہیں، بلکہ کوئلے کو ہتھیلی پر مل کے ایک چھوٹے سے ہاتھ سے ابھارا نقش۔۔ ہر سال رحمت اپنی بیٹی کی اس نشانی کو جیب میں دبائے کلکتہ کی سڑکوں پر اپنا مال فروخت کرنے آتا۔ جیسے اس چھوٹے سے ہاتھ کا لمس، اس کے بڑے سے تنہا دل کو محبت اور شادمانی سے بھر دے گا۔کاغذ کے اس ٹکڑے کو دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
اب مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا کہ وہ کابل کا ایک عام پھل فروش ہے اور میں ایک متمول، معزز بنگالی گھرانے کا فرد۔ اس لمحے مجھے احساس ہوا کہ ہم دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ وہ ایک باپ تھا، اور میں بھی ایک باپ۔ پہاڑوں میں مقیم اس کی بیٹی کے ہاتھ کے نقش نے مجھے اپنی منی کی یاد دلا دی۔ میں نے اندر پیغام بھیجا کہ منی فوراٌ میری اسٹڈی میں باہر آئے۔ کئی عورتوں نے اعتراض بھی کیا، جسے میں نے نظر انداز کر دیا۔ اپنی شادی کے جوڑے میں ملبوس اور موقع کی مناسبت سے میک اپ سے آراستہ، منی گھر کے اندر سے نمودار ہوئی اور شرمائی ہوئی سی میرے برابر میں کھڑی ہو گئی۔
کابلی والے نے منی کو دیکھا تو کچھ پریشان سا ہوگیا، ان کا پرانا خوش دلانہ مذاق بھی سنائی نہ دیا۔ آخر اس نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا ’’لڑکی، کیا تم اپنے سسرال جا رہی ہو؟‘‘
اب منی سمجھ چکی تھی کہ سسرال کیا ہوتا ہے، لہٰذا وہ اپنا ماضی کا جواب نہیں دہرا سکی۔ بلکہ رحمت کے منہ سے یہ سوال سن کر اس کا چہرہ شرم سے گلنار ہو گیا، وہ یکدم مڑی اور چلی گئی۔ مجھے ان کی پہلی ملاقات یاد آگئی اور میرے دل میں ایک کسک سی اٹھی۔
منی کے جاتے ہی رحمت ایک آہ بھر کر وہیں فرش پر بیٹھ گیا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ اب اس کی اپنی بیٹی بھی اتنی ہی بڑی ہو گئی ہوگی، اور اسے نئے سرے سے اپنی بیٹی سے شناسائی حاصل کرنی ہوگی۔اب وہ لڑکی نہیں ملے گی، جسے وہ پیچھے چھوڑ آیا تھا۔اسے تو اب یہ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ گزشتہ آٹھ سالوں میں اس پر کیا بیتی ہوگی۔ خزاں کی اس چمکیلی صبح، ہلکی موسیقی کی آواز باہر صحن سے آتی رہی، اور وہیں کلکتہ کی ایک گلی میں میرے گھر کے فرش پر بیٹھا رحمت افغانستان کے بنجر
، پہاڑی خطوں کی یاد میں کھویا رہا۔
میں نے کچھ پیسے نکال کر اسے دیے ’’تم اپنی بیٹی کے پاس افغانستان واپس جاؤ، رحمت۔۔ اور شاید تمہارے ملاپ کی برکت میری منی کی زندگی پر بھی سایہ دار ہو‘‘ میں نے کہا
اسے پیسے دینے کی وجہ سے مجھے تقریب کی شان و شوکت میں کچھ کمی کرنی پڑی۔ مثلاٌ چراغاں ایسا نہ ہو سکا، جیسا میں نے چاہا تھا۔۔ اور پھر ہمیں بینڈ باجا بھی منسوخ کرنا پڑا۔ اس سے عورتیں ناراض ضرور ہوئیں۔ لیکن یہ متبرک تقریب اس فیض رسانی کی توانائی سے اور زیادہ روشن ہو گئی۔